دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا ۔ عزیز لکھنوی

غزل​

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا 
وہ مرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا

قابلِ دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا
جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا

جی نہ اٹھوں گا ہے بے کار پشیماں ہونا
جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مری جاں ہونا

واہمہ مجھ کو دکھا تا ہے جُنوں کے سامان 
نظر آتا ہے مجھے گھر کا بیاباں ہونا

اُف مرے اجڑے ہوئے گھر کی تباہی دیکھو
جس کے ہر ذرّہ پہ چھایا ہے بیاباں ہونا

حادثے دونوں یہ عالم میں اہم گزرے ہیں 
میرا مرنا تِرِی زُلفوں کا پریشاں ہونا

الحذر! گورِ غریباں کی ڈراؤنی راتیں
اور وہ ان کے گھنے بال پریشاں ہونا

رات بھر سوزِ محبت نے جلایا مجھ کو
تھا مقدر میں چراغِ شبِ ہجراں ہونا

کیوں نہ وحشت میں بھی پابندِ محبت رہتا 
تھا بیاباں میں مجھے قیدیِ زنداں ہونا

ہوگا اِک وقت میں یہ واقعۂ تاریخی
یاد رکھنا مرے کاشانہ کا ویراں ہونا

کچھ نہ پوچھو شبِ وعدہ مرے گھر کی رونق
اللہ اللہ وہ سامان سے ساماں ہونا

جوش میں لے کے اک انگڑائی کسی کا کہنا 
تم کو آتا ہی نہیں چاکِ گریباں ہونا

عالمِ عشق کی فطرت میں خلل آتا ہے
مان لوں حضرتِ انساں کا گر انساں ہونا

سرخ ڈورے تری آنکھوں کے الٰہی توبہ 
چاہئے تھا انھیں پیوست رگِ جاں ہونا

ان سے کرتا ہے دمِ نزع وصیّت یہ عزیزؔ 
خلق روئے گی مگر تم نہ پریشاں ہونا

عزیز لکھنوی​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں