آنکھوں سے مِری کون مرے خواب لے گیا

غزل​

آنکھوں سے مِری کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا

کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈُوبتے ہیں یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا

طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
"مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!"

پروین شاکر​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں