غزل
اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا
اپنے ناخن زخمی کرنا اور گتھی سلجھاتے رہنا
لوگ جو تم کو بادل سمجھیں، بارش کی اُمید کریں
اور تمھارا کام ہمیشہ پتّھر ہی برساتے رہنا
ہم ہیں وہ آواز جو گُھٹ کے ساری فضا میں گونج رہے ہیں
بعد ہمارے، آوازوں کو زنجیریں پہناتے رہنا
آج یہ جن دیواروں کے تم روزن بند کیے جاتے ہو
کل کو ان دیواروں سے پھر اپنا سر ٹکراتے رہنا
ہم تو چراغِ اوّلِ شب ہیں، اوّل بجھ جائیں گے ہم
تم ہی یارو! آخرِ شب تک دیپ سے دیپ جلاتے رہنا
مرتضیٰ برلاس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں