غزل
وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا
تو میں بھی اپنی پیاس پر سحاب رکھ کے سو گیا
میں تشنہ تھا سو خواب میں سراب دیکھتا رہا
جو تھک گیا تو سر تلے حباب رکھ کے سو گیا
فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا
جو میرے گرد و پیش میں عجیب وحشتیں رہیں
میں اپنی چشمِ خواب میں عذاب رکھ کے سو گیا
بھٹک رہا ہوں کُو بہ کُو ، نہ رُک سکوں ،نہ بڑھ سکوں
وہ میرے دشت میں کئ سراب رکھ کے سو گیا
رہا حسابِ دوستاں، سو وہ تو دل میں تھا نہاں
معاف کی جفائیں سب! حساب رکھ کے سو گیا
پھر ایک دن سُخن پری، رُکی! نہ اپنے گھر گئی
تھکا ہوا میں درمیاں حجاب رکھ کے سو گیا
سوال ہی سوال تھے لبوں پہ زندگی ترے
دمِ فنا لبوں پہ میں جواب رکھ کے سو گیا
اُسے کبھی نہ کہہ سکا میں احمد ؔ اپنا حالِ دل
سو آج پھر کتاب میں گُلاب رکھ کے سو گیا
محمد احمدؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں