فرار


کبھی کبھی دل چاہتا ہے اس دنیا سے کہیں بھاگ جاؤں یا کم از کم ایسی جگہ جہاں کوئی جاننے والا نہیں ہو کہ جاننے والے سب کچھ جان کر بھی کچھ نہیں جانتے۔ اجنبی اس لئے اچھے نہیں ہوتے کہ وہ اجنبی ہوتے ہیں بلکہ وہ صرف اس لئے اچھے ہوتے ہیں کہ اُنہیں آپ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ لیکن دل کا کیا کہیے صاحب، دل تو دل ہے اسے کون سمجھا سکتا ہے، اسے تڑپتے رہنے دینا چاہیے تاکہ اسے بھی کچھ سکون ملے اور آپ کو بھی۔

8 تبصرے:

  1. لگتا ہے ۔ کہ آپ پہ کوئی داردات بیت گئی ہے۔اور یہ اچھی علامت نہیں ۔
    کیا اجنبی کو بھی اس واردات کا علم ہےـ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ کیا نام کے خانے میں ای۔میل ۔۔ شاید مجھ سے کوئی وگئی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. گہرائییوں کا اندازہ نہیں ہو پارہا - شاید یہ بہت سوں کی آواز ہو-بہرحال دل کو بہلانے کو کچھ تو ہونا چاہئیےئے- یوں ہی سہی!

    جواب دیںحذف کریں
  4. بھیا ضروری نہیں ہے کہ ہر بات کسی واردات کا ہی نتیجہ ہو، کچھ چیزیں کیفیات سے متعلق بھی ہوتی ہیں، اور بہت سی کیفیات ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے پیچھے کوئی وجہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. ٹھیک کہا کلیم صاحب آپ نے۔

    دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  6. ویسے اس تحریر کے تبصرے دیکھ کر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا یہ شعر یاد آگیا

    یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
    یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

    جواب دیںحذف کریں
  7. جاوید صاحب اگر آپ کہیں تو آپ کے ای میل والا تبصرہ ڈیلیٹ کردوں؟

    جواب دیںحذف کریں
  8. محمد احمد بھائی!
    ای میل کے ساتھ میرے رائے کے بارے جو مناسب سمجھیں کر لیں۔ حذف کردیں یا رہنے دیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میرے بلاگ اور شاعری پیج پہ بھی یہی ای -میل ایڈ ہے۔

    جواب دیںحذف کریں