غزل
مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت
واں ناز سے باندھی گئی دستارِ فضیلت
میں سادہ روش بات نہ سمجھا سکا اُن کو
حائل تھی کہیں بیچ میں دیوارِ فضیلت
کردار ہی جب اُس کے موافق نہ اگر ہو
کس کام کی ہے آپ کی گفتارِ فضیلت
آؤ کہ گلی کوچوں میں بیٹھیں، کریں باتیں
دربارِ فضیلت میں ہے آزارِ فضیلت
اب صوفی و مُلا بھی ہیں بازار کی رونق
اب سجنے لگے جا بجا بازارِ فضیلت
آیا ہے عجب زہد فروشی کا زمانہ
رائج ہوئے ہیں درہم و دینارِ فضیلت
آنکھوں میں ریا، ہونٹوں پہ مسکان سجائے
ملتے ہیں کئی ایک اداکارِ فضیلت
بس علم و حلم، عجز و محبت ہو جس کے پاس
گر ہے کوئی تو وہ ہے سزاوارِ فضیلت
احمدؔ وہ اگر رمزِ سخن پا نہیں سکتے
ہوتے ہیں عبث آپ گناہگارِ فضیلت
محمد احمدؔ
مفقود جہاں تھے سبھی آثارِ فضیلت
واں ناز سے باندھی گئی دستارِ فضیلت
میں سادہ روش بات نہ سمجھا سکا اُن کو
حائل تھی کہیں بیچ میں دیوارِ فضیلت
کردار ہی جب اُس کے موافق نہ اگر ہو
کس کام کی ہے آپ کی گفتارِ فضیلت
آؤ کہ گلی کوچوں میں بیٹھیں، کریں باتیں
دربارِ فضیلت میں ہے آزارِ فضیلت
اب صوفی و مُلا بھی ہیں بازار کی رونق
اب سجنے لگے جا بجا بازارِ فضیلت
آیا ہے عجب زہد فروشی کا زمانہ
رائج ہوئے ہیں درہم و دینارِ فضیلت
آنکھوں میں ریا، ہونٹوں پہ مسکان سجائے
ملتے ہیں کئی ایک اداکارِ فضیلت
بس علم و حلم، عجز و محبت ہو جس کے پاس
گر ہے کوئی تو وہ ہے سزاوارِ فضیلت
احمدؔ وہ اگر رمزِ سخن پا نہیں سکتے
ہوتے ہیں عبث آپ گناہگارِ فضیلت
محمد احمدؔ
ما شا اللہ! بہت عمدہ! بہت اعلی
جواب دیںحذف کریںبہت اچھی غزل ہے احمد صاحب، کیا کہنے۔ بہت داد قبول کیجیے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ تمام احباب کا
جواب دیںحذف کریںسچ بولنا آجکل مشکلات میں اضافہ کردیتا ہے- پھربھی متفق ہوں- بہت خوب!
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ کلیم صاحب،
جواب دیںحذف کریںمشکلات کو سمجھتے ہوئے بھی آپ نے اتفاق کیا۔ اس کے لئے بہت شکریہ۔