غزل ۔ دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں ۔ سیماب اکبر آبادی

غزل

دل کی بساط کیا تھی نگاہ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

دنیا کرے تلاش نیا جام جم کوئی
اس کی جگہ نہیں مرے جام سفال میں

آزردہ اس قدر ہوں سراب خیال سے
جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں

دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہے
انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

اہل چمن ہمیں نہ اسیروں کا طعن دیں
وہ خوش ہیں اپنے حال میں ہم اپنی چال میں

سیمابؔ اجتہاد ہے حسن طلب مرا
ترمیم چاہتا ہوں مذاق جمال میں

سیمابؔ اکبر آبادی

نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے ۔۔۔ شاہد صدیقی

غزل

یہ کیا ستم ہے کہ ، احساسِ درد بھی کم ہے
شبِ فراق ستاروں میں روشنی کم ہے

اک ایسی موجِ کرم تھی نگاہِ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفانِ تشنگی کم ہے

قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے، غمِ جستجو ، کبھی کم ہے

عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انساں سے آگہی کم ہے

تمام عمر ترا انتظار کرلیں گے
مگر یہ رنج رہے گا کہ زندگی کم ہے

نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے

شاہد صدیقی
حیدر آباد۔ ہندوستان 
1911 ~ 1962ء

بشکریہ صابر علی سیوانی




ارے! خواب تو دیکھ

غزل

دن بھلے جیسا کٹے، سانجھ سمے خواب تو دیکھ
چھوڑ تعبیر کے خدشوں کو، ارے! خواب تو دیکھ

جھونپڑی میں ہی بنا اپنے خیالوں کا محل
گو پُرانا ہے بچھونا !تُو نئے خواب تو دیکھ

تیرا ہر خواب مسّرت کی بشارت لائے
سچ ترے خواب ہوں اللہ کرے، خواب تو دیکھ

دل شکستہ میں ہوا، جب بھی مِرا دل ٹوٹا
حوصلے آگے بڑھے، کہنے لگے، خواب تو دیکھ

تجھے وہ بات بھی آئے گی سمجھ یار مرے
جو ہے ادراک کی سرحد سے پرے، خواب تو دیکھ

گتھیاں ساری سُلجھ جائیں کہ ہوں اور سِوا
تو ذرا ہاتھ بڑھا، تھام سِرے، خواب تو دیکھ

نیند کے خواب ترے خوف کے گھر ہیں بھی تو کیا
نیند کو چھوڑ تو جب صبح اُٹھے خواب تو دیکھ

محمد احمدؔ