غزل : اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا

غزل 

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ​

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں