مختصر افسانہ: اردو ہے کس کا نام؟

اردو ہے کس کا نام؟
مختصر افسانہ از محمد احمدؔ

"بس! یہاں سائڈ پر گاڑی روک دیجے۔"۔۔۔ایک نشست سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔
"کیا نمبر ہے آپ کا؟"۔۔۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے بورڈنگ پاس نمبر پوچھا۔
"تھرٹی تھری"۔۔۔ دوشیزہ نے موبائل ایپ پر دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اردو میں بتاؤ۔ "۔۔۔سرحدی علاقے کا ڈرائیور انگریزی گنتی سے نابلد تھا۔
"تین تین "۔۔۔ لڑکی نے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ لفظ تینتیس سے واقف نہیں تھی۔
ڈبل تین؟ ڈرائیور نے اپنے انداز میں تصدیق چاہی۔
جی۔
اور اس طرح دو پاکستانی شہری ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نئی نسل کی اردو سے بے رغبتی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ "اِشو" بناتے ہیں۔ 

*****





ذہانت یا خیانت

ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں جگہ جگہ پر بھانت بھانت کی چورنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ سڑکیں تنگ ہوتی گئیں اور چورنگیاں سُکڑتی گئیں۔ اب حال یہ ہے کہ کراچی میں بڑی بڑی چورنگیاں دو ایک ہی رہ گئی ہیں۔

مشہورِ زمانہ فور کے چورنگی کے چرچے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے لیکن آج کا قصہ پاور ہاؤس چورنگی سے متعلق ہے۔ پاور ہاؤس چورنگی فور کے چورنگی سے کچھ فاصلے پر ہے اس کے قریب بجلی بنانے والی کمپنی کا پاور ہاؤس ہے اور اسی نسبت سے یہ پاور ہاوس چورنگی کہلاتی ہے۔ اس پر ایک سفید رنگ کا ماڈل جہاز لگا ہوا ہے اور اس کی دیواریں سُرخ رنگ کی جالی دار اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چورنگی کی دیوار کا ایک بڑا حصہ کچھ عرصہ قبل ٹوٹ گیا تھا اور یہ کافی بدنما معلوم ہوتا تھا۔ کل پرسوں میں نے دیکھا کہ کسی نے اس دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے کو پینا فلیکس شیٹ سے بند کر دیا تھا۔ اور پینا فلیکس پر بعینہ چورنگی کی اینٹوں کی سی دیوار کا ڈیزائن پرنٹ کیا گیا تھا۔ پہلی نظر میں پتہ نہیں چلتا تھا کہ دیوار کا یہ حصہ اصلی نہیں بلکہ دیوار کی پینافلیکس نقل ہے۔ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا کہ چورنگی کی بدنمائی اس سے چھپ گئی اور خرچہ بھی اس میں کم آیا ہوگا۔

تاہم اگلے دن جب میں نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا تو دیکھا کہ ماڈل جہاز کے عین سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا کہ جس میں ایک تعمیراتی ادارے جی ایف ایس بلڈر زکی طرف سے ضلع کی تزین و آرائش کا بلند و بانگ دعویٰ کیا گیا تھا۔

مجھے اس بات پر اچھی خاصی حیرت ہوئی، اور حیرت بھی اشتعال آمیز ۔ اگر پینافلیکس لگانے کا کام کسی چھوٹی موٹی این جی او نے کیا ہوتا تو یقیناً لائقِ ستائش ہوتا۔ لیکن ایک تعمیراتی ادارہ جو کہ اس مشہورِ زمانہ چورنگی کو اپنی تشہیر کے لئے بھی استعمال کر رہا ہے ، اس سے یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ چند سو اینٹیں لگانے کے بجائے پینافلیکس کی دیوار بنا کر اپنے تئیں ضلع مکینوں پر احسان جتائے۔

یقیناً اس مہم کو اُنہوں نے سرکاری محکمہ کی باقاعدہ اجازت کے بعد ہی شروع کیا ہوگا تو ایسے میں سرکاری عہدے دار بھی اس بات کے قصور وار ہیں کہ اُنہوں نے اتنی ارزاں قیمت پر اتنی بڑی چورنگی کو اشتہار ی مہم کے استعمال کے لئے دے دیا۔

چورنگی کی کنکریٹ کی دیوار میں پینا فلیکس کا پیوند لگانے کا خیال یقیناً تعمیراتی ادارے کے پیچھے کارفرما افراد کی ذہانت کا کمال ہے تاہم ایک تعمیراتی ادارے کو اس قسم کی حرکت ہرگز زیب نہیں دیتی۔ وہ بھی تب کہ جب وہ اس چورنگی کو اپنے کاروباری مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہوں۔
پاور ہاؤس چورنگی

تصویر بغیر رُکے لی گئی ہے معیار کے لئے معذرت

تبصرہ ٴکُتب | جپسی - مستنصر حسین تارڑ

 

تارڑ صاحب کا ناول جپسی مجھے اچھا لگا، شاید اس لئے کہ مجھے کافی دن بعد فکشن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

ناول کا شروع کا حصہ پڑھ کر مجھ جیسے کولہو کے بیل کو اپنے شب و روز میں مقید ہونے کا کافی قلق ہوا۔ اور یہ خیال جاگا کہ کچھ نہ کچھ سیاحتی سرگرمیاں زندگی میں ہونی چاہیے۔ تاہم بہت جلد ہی ہم سنبھل گئے اور قفس کو پھر سے آشیاں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

اصلی ناول کافی دیر بعد شروع ہوا۔ یعنی ناول بھی اپنے مرکزی کردار کی طرح کچھ آوارہ گرد ثابت ہوا۔ جپسی کی محبت خانہ بدوشوں کی سی تھی۔ سادہ اور الہڑ ۔ اور کچھ اکھڑ بھی۔ جیسے خانہ بدوشوں کے ہاں سفر اور قیام کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ بعینہ و ہی حال یہاں بھی تھا۔

یوں تو ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھے لیکن وقت گزاری کے لئے اور اپنے شب و روز سے کٹنے کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔

پسِ نوشت: ویسے جپسی سے مجھے طارق عزیز یاد آتے ہیں جو اپنے مشہورِ زمانہ پروگرام میں جپسی امیزنگ کریم کی تشہیر اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے۔



میر کی غزل کہوں تجھے میں؟

شعر اور رومان کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ انسان کو جب کسی شے کی تعریف کے لئے لفظ ناکافی معلوم ہوتے ہیں تو وہ اپنے لفظوں میں، لگاوٹ اور محبت کے ساتھ ساتھ نغمگی بھی شامل کر دیتا ہے۔ نغمگی اور آہنگ بھاری بھرکم تعریفی کلمات کو بھی ایسا ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں کہ پڑھنے سننے والا مخمور سا ہو جاتا ہے۔ گو کہ فی نفسہ مجھے رومانوی شاعری سے کچھ خاص اُنسیت نہیں ہے لیکن کچھ گیت البتہ ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی باذوق شخص، اگر انہیں سُنے تو داد دیے بغیر نہ رہے۔ ایسا ہی ایک گیت آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اسے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے لکھا ہے اور معروف گلوکار محمد رفیع نے گایا ہے۔ اس سے آپ کو انداز ہو گیا ہوگا کہ یہ کوئی آج کے زمانے کا گیت نہیں ہے۔ سو آپ یہ سمجھ لیجے کہ یہ قدیم دوستوں کے لئے شرابِ کہنہ ہے! گیت ملاحظہ فرمائیے۔


میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے یہ حجاب تیرا ڈھونڈا
ہر جگہ شباب تیرا ڈھونڈا
کلیوں سے مثال تیری پوچھی
پھولوں میں جواب تیرا ڈھونڈا
میں نے پوچھا باغ سے ، فلک ہو یا زمیں
ایسا پھول ہے کہیں؟
باغ نے کہا، ہر کلی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

چال ہے کہ موج کی روانی
زُلف ہے کہ رات کی کہانی
ہونٹ ہیں کہ آئینے کنول کے
آنکھ ہے کہ مے کدوں کی رانی
میں نے پوچھا جام سے فلک ہو یازمیں
ایسی مے بھی ہے کہیں؟
جام نے کہا، مے کشی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

خوبصورتی جو تونے پائی
لُٹ گئی خدا کی بس خدائی
میر کی غزل کہوں تجھے میں
یا کہوں خیام کی رباعی
میں نے پوچھا شاعروں سے
ایسا دل نشیں
کوئی شعر ہے کہیں؟
شاعر کہیں، شاعری کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

 

نغمہ نگار: آنند بخشی


 

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا ۔ منیر نیازی

غزل

بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا

جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا

غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا

شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا

ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا

ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا

منیر نیازی

غزل ۔ چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں ۔ قتیل شفائی

غزل

چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں، مِرے خواب کہاں آتے ہیں

مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے
نیند آئی بھی تو، اب خواب کہاں آتے ہیں

تنہا رہتا ہُوں میں دِن بھر، بھری دُنیا میں قتؔیل
دِن بُرے ہوں، تو پھر احباب کہاں آتے ہیں

قتیل شفائی

مشاعرہ، تہذیب اور انڈے ٹماٹر

مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت ہے۔ یعنی روایت ہے کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا علمبردار ہوا کرتا تھا۔ یہاں دروغ بر گردن راوی کا گھسا پٹا جملہ شاملِ تحریر کر دینا خلاف عقل نہ ہوگا کہ راوی کے نامہٴ سیاہ میں جہاں معصیت کے اتنے انبار لگے ہیں، وہاں ایک اور سہی۔

بھلے وقتوں میں مشاعروں میں جو کلام پڑھا جاتا تھا اس کی کچھ یادگار یوٹیوب پر نہیں ملتی۔ نہ ہی متشاعروں کے دیوان ہی چھپ کر آج کی نسل تک پہنچ سکے۔ رہ گیا استاد شعراء کا کلام تو ایک مشاعرے میں ایک آدھ ہی استاد شاعر (دوسرے اساتذہ سے کرسیِ صدارت کی جنگ جیت کر) جگہ بنا پاتے ہوں گے۔ ایسے میں انسان شاعر کم اور صدر زیادہ بن جاتا ہے سو ایسے استادوں کی استادی یعنی ایسے شعراء کے کلام کو مشاعرے کا نمائندہ کلام سمجھنا دانشمندانہ فعل نہیں معلوم ہوتا۔

یہ البتہ ہم نے ضرور سن رکھا ہے کہ بھلے وقتوں میں بڑے بڑے کامیاب مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے یا وہ منعقد ہونے کے بعد کامیاب قرار پاتے تھے۔

کجھ راویانِ مشاعرہ تو اس قدر دیدہ دلیر واقع ہوئے ہیں کہ اکثر و بیشتر مشاعرہ گاہ کی چھت بِنا ڈائنامائٹ کے اُڑاتے ہوئے پکڑے گئے! البتہ دوسرے طبقہ کا خیال ہے کہ کھلے میدان میں ہونے والے مشاعروں کے شامیانے عاجزی برتتے ہوئے زمیں بوس ہو جاتے تھے اور شعراء کے پروموٹر اسے چھت اُڑ جانے سے تعبیر کرتے تھے۔

بھلے وقتوں میں مشاعرے میں شعراء کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی یہاں تک کہ کھاتے پیتے گھرانوں کے خوش ذوق قارئین شعراء کو داد دیتے ہوئے انڈے اور ٹماٹر جیسی نادر اشیاء نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ارسال کر دیتے تھے۔

انڈے ٹماٹروں پر اگرچہ نیک خواہشات لکھنے کا وقت نہیں ہوتا تھا تاہم ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہی سمجھنا چاہیے کہ سامعین یہ سوغات گراں مایہ نیک خواہشات کے ساتھ ہی ارسال کرتے ہوں گے۔

اب آپ ذرا چشمِ تصور وا کرتے ہوئے فرض کیجے کہ آپ مشاعرے میں موجود ہیں اور شاعر نے ایسی غزل سنائی کہ آپ عش عش کر اُٹھے لیکن کیا سر سے پاؤں تک سرشار ہونے کے بعد بھی آپ انڈے اور ٹماٹر جیسی نادر الوجود چیزیں شاعر کو بطور ہدیہ و تحفہ دے سکیں گے؟

آپ واہ واہ واہ کرکے اپنا گلا تو سکھا لیں گے لیکن دمڑی کو چمڑی پر اور غزل کو انڈے ٹماٹر پر فوقیت نہیں دے سکیں گے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ شعراء کو انڈے ٹماٹر ارسال کرنے والے سامعین مشاعرہ ذوق سے عاری اور جذبہ فلاح و بہبود سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ سو وہ یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ شاعر جو یہاں بیٹھا اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کر رہا ہے اور یقیناً اس سے پیشتر بھی یہ مشق سخن کے نام پر اپنا پورا دن برباد کرتا رہا ہوگا اور اسے اپنے اہل و عیال کے لیے روزی روٹی کمانے کی فرصت و توفیق ہی نہیں مل سکی ہوگی۔ سو وہ خیال کرکے شعراء کی سمت میں انڈے ٹماٹر پھینکا کرتے تھے تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کے گھر کا چولہا بھی جلتا رہے۔

کسی شاعر نے اس خوبصورت منظر کو شاعرانہ رنگ دے کر کچھ یوں کہا ہے:

گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

کچھ لوگ ٹماٹر کو پھلوں میں شمار کرتے ہیں شاعر نے شاید اسی رعایت سے کام لیا ہے۔ رہی بات انڈے کو گُل سے تشبیہ دینے کی تو اسے آپ المعنی فی بطنِ الشاعر سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ انڈے نے بھی آخر کار وہیں پہنچنا ہے۔

بہر کیف! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح کسی کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ہمارے اسلاف ایک دوسرے کی مدد کیا کرتے تھے اور نکھٹو سے نکھٹو شخص کو بھی نکھٹو نہیں کہا کرتے تھے بلکہ انڈے ٹماٹر جیسی نادر اشیاء سے ان کی تواضع کیا کرتے تھے۔

جن سے مل کر زندگی سے عشق (شاعری سے بیر) ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

اندرونی حلقوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے شعراء مشاعرے سے پہلے شاعری کی مشق کم کیا کرتے تھے اور انڈے ٹماٹروں کو بنا گزند ہر دو فریق کیچ کرنے کی پریکٹس زیادہ کرتے تھے۔

ممکن ہے بعد میں انہی انڈے ٹماٹروں کی تعداد کو گن کر مشاعرے کے کامیاب ترین شاعر کا فیصلہ ہوتا ہو۔ لیکن راوی یہاں خاموش ہے اور راوی کی خاموشی کافی پراسرار معلوم ہوتی ہے۔

بہرکیف یہ تو بھلے وقتوں کی باتیں ہیں۔ اب وہ پہلے جیسی قدریں کہاں رہیں۔ بد ذوقی کا عالم یہ ہے کہ اب تو مشاعرے میں بے چارے شاعر واہ واہ کرنے کے لیے دو چار ہمنوا ساتھ لے کر جاتے ہیں جو پہلے مصرع سے ہی غزل اٹھانے کے کام پر مامور ہوتے ہیں تاکہ مشاعرے کے انجام پر شاعر کے ساتھ چکن بریانی کھا سکیں اور سوشل میڈیا پر شاعر کو ٹیگ کرکے تصاویر لگا سکیں۔ رہا شاعر تو وہ لفافے میں ملفوف کاغذات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں انڈے ٹماٹروں کا کہیں دخل نہیں ہے اور انڈے ٹماٹر آج کل محض ٹی وی کی خبروں اور ٹاک شوز میں ہی پائے جاتے ہیں۔


 محمد احمد

*****