دلوں میں زہر تھا کینہ شُمار کرتے رہے ۔ مسعود منور

غزل


دلوں میں زہر تھا کینہ شُمار کرتے رہے
برہنہ لفظ کے خنجر سے وار کرتے رہے

سُخن وری تو فقط بر طرف تکلف تھا
خدنگِ سب و شتم سے شکار کرتے رہے

نہ ہم سفر نہ کوئی دوست تھا نہ ہم سایہ
سو اپنے آپ سے شکوے ہزار کرتے رہے

بچا ہی کیا تھا بجز تار دامنِ دل میں
اُس ایک تار کو ہم تار تار کرتے رہے

کہیں نہیں تھا کوئی جس کو کہ سکیں اپنا
کسے بُلانے کو ہم یار یار کرتے رہے

اثاثہ کوئی نہ تھا ، مُفلسی مسلط تھی
بدن کی مٹّی تھی ہم جس کو خوار کرتے رہے

بچھڑنا ملنا مقدر کا کھیل تھا مسعود
وگرنہ عشق تو ہم بار بار کرتے رہے

مسعود مُنّور

کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس ۔ افتخار عارف

غزل

کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس

دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس

دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس

خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد میں بھی
خواب محفوظ ہیں اِک دِیدۂ بیدار کے پاس

ہم وہ مُجرم ہیں کہ آسودگیِ جاں کے عِوَض
رہن رکھ دیتے ہیں دِل درہَم و دیِنار کے پاس

کسی گُم گشتہ مُسافر کی دُعاؤں کا اثر
منزلیں گرد ہو ئیں جادۂ ہموار کے پاس

دِل کی قیمت پہ بھی ،اِک عہد نِبھائے گئے ہم
عُمر بھر بیٹھے رہے، ایک ہی دِیوار کے پاس

شہِ خُوبانِ جہاں ایسی بھی عُجلت کیا ہے
"خود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس"

افتخار عارف

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​ ۔ مرتضیٰ برلاس


غزل

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​

وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی تو اس کا پتھر جواب ہو گا​

سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی کہ سانس لینا عذاب ہو گا​

سکوتِ صحرا میں بسنے والو، ذرا رُتوں کا مزاج سمجھو​
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہو گا​

نہیں کہ یہ صرف شاعری ہے، غزل میں تاریخِ بے حسی ہے​
جو آج شعروں میں کہہ دیا ہے، وہ کل شریکِ نصاب ہو گا​


مرتضٰی برلاس​

کرکٹ آزار اور کراچی

 

کراچی والے کرکٹ سے محبت کرتے ہیں جن میں سے ایک تو راقم تحریر خود ہے۔

کرکٹ کا کھیل بچپن سے لے کر آج تک اس خاکسار کے لیے باعثِ دلکشی رہا ہے۔ بچپن میں ہم بلّے کے حصول کے لئے گیندیں گھما گھما کر پھینکنے کے عادی رہے ہیں، اور بلّا مل جانے پر اکثر گیند بزورِ بلّا گم کر دینے کے مرتکب بھی ہوئے ہیں۔ تاہم، ہمیں یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ ان معصوم خطاؤں کی کیا بھیانک سزا ہمیں مستقبل میں بھگتنی ہوگی۔

بچپن کے رخصت ہوتے ہوتے دیگر کھیلوں کی طرح یہ کھیل بھی ہم سے چھٹ گیا تاہم کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلوں سے جو دلی وابستگی قائم ہوئی، وہ آج بھی قائم ہے۔ بالخصوص مملکت ِ خداداد کی خداداد صلاحیتوں اور نالائقیوں کی حامل ٹیم جب کبھی میدان میں اترتی ہے تو خاکسار شرمسار ہونے سے پہلے اور اکثر بعد تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

ایسی الجھی نظر اُن سے ہٹتی نہیں
دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں


عمر کب کی برس کے سفید ہو گئی لیکن یہ موئے سیاہ کی مانند کرتوت والے 'لڑکے' تا حال ہماری جان کے درپے ہیں۔ اور ہم بھی پیرویِ میر میں انہی لڑکوں سے اب تک دوا لے رہے ہیں۔

ہم فقیروں کو کچھ آزار تمھیں دیتے ہو
یوں تو اس فرقے سے سب لوگ دعا لیتے ہیں


سچی بات تو یہ ہے کہ عین شہر کے قلب میں شدید ترین حفاظتی انتظامات کے تحت ہونے والی کرکٹ، کرکٹ کے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کرتی ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف کی سڑکیں کئی کئی دن بندش کے ادوار سے گزرتی ہیں اور اپنے اپنے اسکول، کالج، دفتر، دوکان، ہسپتال اور قبرستان جانے والے کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر پھنسے رہتے ہیں اور یوں یہ کرکٹ کا مزیدار کھیل لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنتا ہے۔

سڑکوں کی بے جا بندش کرکٹ بیزاروں کو ہمارے کان کترنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور ہم خود سڑکوں پر پہروں پھنسے رہنے کے باعث کرکٹ سے بیزار اور کرکٹ بیزاروں کے آگے شرمسار نظر آتے ہیں۔

ہماری حکامِ بالا و زیریں اور میانِ بالا و زیریں سے مودبانہ گزارش ہے کہ تھوڑے لکھے کو بہت جانیں اور خط کو تار سمجھیں اور ان کرکٹ میچوں کو شہر کے کسی دور افتادہ مقام پر منعقد کروایا جائے کہ جہاں عوام الناس کے شب و روز کرکٹ میچز کے حفاظتی انتظامات سے متاثر نہ ہوں۔ اسی میں کراچی، کرکٹ اور عوام الناس کی بھلائی ہے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر




غزل : خفا ہیں؟ مگر! بات تو کیجیے

غزل


خفا ہیں؟ مگر! بات تو کیجیے
ملیں مت، ملاقات تو کیجیے

ملیں گے اگر تو ملیں گے کہاں
بیاں کچھ مقامات تو کیجیے

پلائیں نہ پانی، بٹھائیں بھی مت
مسافر سے کچھ بات تو کیجیے

نہیں اتنے سادہ و معصوم وہ
کبھی کچھ غلط بات تو کیجیے

سنی وعظ و تقریر، اچھی لگی
چلیں ،کچھ مناجات تو کیجیے

نہیں دوستی کی فضا گر، نہ ہو
خدارا شروعات تو کیجیے

بھلے ، کل بگڑ کر کہَیں "الفراق"
بسر آج کی رات تو کیجیے

کہا کیا؟ یہی ہے روایت مری؟
بیاں کچھ روایات تو کیجیے

نزولِ سکینت بھی ہو گا ضرور
عمل بر ہدایات تو کیجیے

عبث رب سے شکوہ کناں آپ ہیں
شمارِ عنایات تو کیجیے

اگر تزکیے سے ہے احمد ؔفلاح
چلیں پھر شروعات تو کیجیے

محمد احمد ؔ

 


غزل ۔ بہہ نہ جانا کہیں بہاؤ میں ۔ محمد احمد

غزل

بہہ نہ جانا کہیں بہاؤ میں
رکھنا پتوار اپنی ناؤ میں

نا اُمیدی مرے مسیحا کی
عمر کاٹی ہے چل چلاؤ میں

عصرِ تازہ کا ترجماں ہے وہ
واہ مضمر ہے اُس کی واؤ میں

چارہ گر! ہے یہ اعتبار کا زخم
تیر گننا عبث ہے گھاؤ میں

دوستوں کو خبر نہ ہو پائی
رہ گیا میں کسی پڑاؤ میں

مسکراتے رہا کرو احمدؔ
رکھ رکھاؤ ہے، رکھ رکھاؤ میں

محمد احمدؔ

نو برس - ایک نثری نظم

 آج ہم نے اپنے عزیز دوست اور اُستاد فلک شیر بھائی کی ایک نثری نظم دیکھی جو ہمیں بہت بھائی! سو ہم کمالِ اپنائیت سے یہ نظم بغیر اجازت اپنے بلاگ پر چسپاں کر رہے ہیں۔ آپ کو ضرور پسند آئے گی۔

نو برس

نو برس ہوتے ہیں
ہر کسی کے اپنے نو برس ہوتے ہیں
سیرِ صحرا سے لبِ دریا تک
عمر کوٹ سے بھٹ جو گوٹھ تک
سسی کی پیاس سے خضر کے گھڑے تک
بے انت بے سمتی سے یکسوئی کی مٹھاس تک
کانٹوں کے عرق سے ترتراتے پراٹھےسے....
شکرگزاری کی سوکھی روٹی تک
بے مصرف بنجر دنوں سے موتیوں جیسے لمحوں کے ڈھیر تک
واقف انجانوں کی بھیڑ سے دل میں اترے اجنبیوں کی مجلس تک

اور

کسی بربادکوزہ گر، جو اپنے ہی کوزوں سے رنجور ہو....
کوپھر سے اپنے چاک پہ شرابور ہونے تک
نو برس درکار ہوتے ہیں
پر یہ نو برس ہمیشہ سو سے آٹھ زیادہ مہینوں کے نہیں ہوتے
یہ نو لمحوں سے نو دہائیوں کے ہو سکتے ہیں

کیونکہ

نو برس ہر کسی کے اپنے ہوتے ہیں


فلک شیر



عرضِ شاعرمن و عن: کل ن م راشد کا یوم پیدائش تھا، راشد کی حسن کوزہ گر کا ایک تھیمیٹک حوالہ مندرجہ بالا نثری نظم میں قارئین محسوس کر سکتے ہیں، یہ تککفاً در نہیں آیا، یہی عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں۔