غزل
کیا خزانہ تھا کہ چھوڑ آئے ہیں اغیار کے پاس
ایک بستی میں کسی شہرِ خوش آثار کے پاس
دِن نِکلتا ہے، تو لگتا ہے کہ جیسے سورج
صُبحِ روشن کی امانت ہو شبِ تار کے پاس
دیکھیے کُھلتے ہیں کب، انفس و آفاق کے بھید
ہم بھی جاتے تو ہیں اِک صاحبِ اَسرار کے پاس
خلقتِ شہر کو مُژدہ ہو کہ، اِس عہد میں بھی
خواب محفوظ ہیں اِک دِیدۂ بیدار کے پاس
ہم وہ مُجرم ہیں کہ آسودگیِ جاں کے عِوَض
رہن رکھ دیتے ہیں دِل درہَم و دیِنار کے پاس
کسی گُم گشتہ مُسافر کی دُعاؤں کا اثر
منزلیں گرد ہو ئیں جادۂ ہموار کے پاس
دِل کی قیمت پہ بھی ،اِک عہد نِبھائے گئے ہم
عُمر بھر بیٹھے رہے، ایک ہی دِیوار کے پاس
شہِ خُوبانِ جہاں ایسی بھی عُجلت کیا ہے
"خود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس"
افتخار عارف
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں