تبصرہ ٴکُتب | احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

احمد داؤد – اِک پیکرِ اوصاف

یہ کتاب معروف پاکستانی صنعت کار جناب احمد داؤد کی سوانح عمری ہے اور اسے عُثمان باٹلی والا صاحب نے لکھی ہے۔ احمد داؤد پاکستان میں صنعتکاری کے بانی سمجھے جاتے ہیں اور کاروباری اعتبار سے پاکستان میں اُن کا نام کافی اہم ہے۔

کتاب کی زبان صاف ستھری ہے اور مضامین بڑے واضح اور آسان انداز میں لکھے گئے ہیں ۔غرض یہ کہ تحریر پر مصنف کی گرفت مضبوط ہے اور مضامین کا ابلاغ ایک عمومی قاری کے لئے بے حد آسان ہے ۔

احمد داؤد کی سوانح عمری ہندوستان سے شروع ہو کر پاکستان تک آ جاتی ہے۔ احمد داؤد کی ساری زندگی محنت اور جانفشانی سے عبارت ہے۔ کاروباری برادری سے تعلق ہونے کے باعث اُن کو کاروباری سمجھ بوجھ وراثت میں ملی تھی۔ اُنہوں نے اپنی محنت سے اپنی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔

نوجوانوں کے لئے ان کی زندگی میں سیکھنے کی بہت سی باتیں ہیں۔ احمد داؤد کام کو زندگی سمجھتے تھے اور ہمیشہ انتھک محنت اور لگن سے اپنے اہداف کے حصول میں لگے رہتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے احمد داؤد کے کچھ اقوالِ زریں میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔

"Pursue work not money. Get down to work and don’t pursue money. If you run after the money it might run away but if you concentrate on your work, money will automatically follow you. So work, work and only work."

"Never lose your hope while passing through unfavorable conditions or experiencing tough times"

"Leave your nose (ego, arrogance or hot temperament) at home while going out for work."

Ahmed Dawood
گو کہ مصنف نے احمد داؤد صاحب کی کچھ خامیوں کا ذکر کیا ہے تاہم ان کا یہ ذکر برائے خانہ پوری ہی معلوم ہوتا ہے۔ خاکسار کا خیال ہے کہ ہر کامیاب شخص کی طرح احمد داؤد کی شخصیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور متنازع رہی ہوگی اور اُن کے دوستوں کے ساتھ ساتھ اُن سے اختلاف رکھنے والے لوگ یا اُن پر تنقید کرنے والے لوگ بھی ضرور ہوں گے۔ تاہم یہ کتاب اس معاملے میں خاموش ہے ۔ غالباً یہ کتاب اُن کی برداری کے ایک فرد کی طرف سے لکھی گئی ہے سو اسے ایک غیر جانبدار کتاب گرداننا دشوار ہو گا۔

تاہم احمد داؤد کی زندگی اور جدو جہد سے سبق سیکھنے والوں کے لئے یہ کتاب بہر کیف مفید ہے۔ 

بلا ضرورتِ رشتہ

بلا ضرورتِ رشتہ
از محمد احمد


آج وہ کافی موڈ میں تھا۔

سامنے سے آنے کے باوجود اُس نے گھوم کر میری کمر پر ہاتھ مارا ۔
"او یار !میں نے تیرے لیے ایک رشتہ دیکھا ہے۔" وہ ایسا خوش تھا کہ جیسے ایسا پہلی بار ہوا ہو۔
"سچی! "میں نے ہمیشہ کی طرح حیرانی کا اظہار کیا۔
"ہاں یار!" بڑی خوبصورت لڑکی ہے۔
"اچھا! "

"ہاں بڑی خوبصورت ہے بھئ۔۔!" اُس کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔
"صراحی دار گردن ہے ۔" رنگ چھوڑ کر گردن سے بات شروع کرکے شاید وہ خود کو دیگر پاکستانیوں سے ممتاز کرنا چاہ رہا تھا۔
"صراحی دار گردن" میں نے خیالیہ انداز میں دُہرایا۔
"پھرتو میں ایک ہاتھ سے اُس کی گچی دبا سکوں گا۔" میں نے مُٹھی بھینچتے ہوئے کہا۔

"ہرنی جیسی آنکھیں۔" اُس کی مشین چل پڑی تھی۔
"پھر تو بہت تیز دوڑتی ہوگی۔ " میں نے حیرت سے کہا
"ارے میں آنکھوں کی بات کر رہا ہوں۔" وہ جھنجلا کر بولا۔
"ہاں تو ہرنی تیز ہی دوڑتی ہے۔ اب میں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں ۔" 


"تمہیں پتہ ہے ! بچپن میں میرے نانا کہتے تھے کہ میں بڑا ذہین ہوں۔" میں نے اُسے کچھ باور کروانے کی ضرورت محسوس کی۔
"یار ایک بار تمہارے نانا نے میرے ناناسے اردو لغت اُدھار مانگی تھی جو میرے نانا نے دی نہیں تھی۔ اگر لغت مل جاتی تو شاید وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔"

"اچھا فضول باتیں چھوڑو یہ بتاؤ کہ اُس کی زلفیں ناگن کی طرح تو نہیں ہیں؟ " میں نے موضوع پر واپس آتے ہوئے پوچھا۔
"زلفیں اسپرنگ والی ہیں اُس کی۔ اکثر چمٹا پکڑ کر سیدھی کرتی نظر آتی ہے۔ "
"چل شکر ہے ناگن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں تو ناگن چورنگی سے بھی ڈرتے ڈرتے گزرتا ہوں۔" میری آنکھوں میں خوف کے سائے لہرانے کے بجائے ساکت و صامت تھے۔

"رنگ تو بتایا نہیں تم نے اُس، کا گندمی ہے یا چقندر جیسا ہے؟ " مجھے رنگ کی پڑی تھی۔
"اب تو بہت گوری ہو گئی ہے، لیکن بچپن میں کھڑی مسور کی دال جیسا رنگ تھا اس کا" اُس نے کچھ سوچتے ہوئے بتایا۔
"یار چیک کر لینا تھا، کہیں پندرہ منٹ بعد پھر سے فائزہ کی طرح ہو جائے۔" فکر مندی میرے چہرے سے عیاں تھی۔

"اچھا بات سُنو! تم نے اسے بتا تو دیا ہے نا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں۔ " میں نے ڈیل کلوز کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ تم اُسے رانی کی طرح رکھو گے۔"
"ارے بے وقوف! ہو سکتا ہے اُس نے یہ لطیفہ پڑھا ہوا ہو" میں نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"پڑھا تو ضرور ہو گا لیکن سمجھی نہیں ہوگی۔" وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
"کیوں نہیں سمجھی ہوگی بھلا؟" مجھے بڑا تعجب ہوا۔
"خوبصورت ہونے کی ناطے وہ کافی غبّی ہے۔" اُس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔

"چلو خوبصورت تو ہے نا! میری طرف سے ہاں ہے۔" میں کافی خوش تھا۔
"ہاں! لیکن ایک مسئلہ ہے!" اُس نے ہینڈ گرنیڈ کی پن نکال پھینکی۔
"اب کیا مسئلہ ہے یار؟" مجھے طیش آ گیا؟
"وہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی!" اُس نے بم پھاڑ ہی دیا۔
"اگر تم کسی طرح کسی مغربی ملک کی شہریت حاصل کر لو تو وہ اُسی وقت دو بول پڑھانے پر راضی ہو جائے گی"۔

"تمہیں پتہ ہے، میں بہت ضروری کام کر رہا تھا۔" میری یاد داشت واپس آنے لگی۔
"یار تم کوشش تو کرو!" اُس نے اپنے جوتوں کے لیس باندھتے ہوئے کہا۔
"مجھے کل تک یہ پروجیکٹ فائنل کرنا ہے۔ " میں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔

"اچھا! چلو شام کو چائے پر ملتے ہیں!" اُس نے الوداعی جملہ پھینکا۔
"ٹھیک ہے، لیکن چائے سے پہلے میں چپلی کباب بھی کھاؤں گا۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اچھا بابا ٹھیک ہے، ویسے بھی کچھ کھائے بغیر تمہارا غم کیسے غلط ہو سکتا ہے۔" وہ مُسکراتے ہوئے اُٹھا اور لہراتے ہوئے نکل گیا۔

*****

نظم : ٹھیک ہی تو کرتے ہیں ۔۔۔ سید شعیب نعیم

ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

روندتے مسلتے ہیں
روز گھاس کو ہم سب
پاؤں سے کچلتے ہیں
ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

یہ جو گھاس ہوتی ہے
آب کے کنارے پر 

ڈوبتا کوئی بھی ہو
ہاتھ اگر بڑھائے تو
ہاتھ تھام لیتی ہے
اپنی تاب سے بڑھ کر
اژدہے سے پانی کے
اس کو چھین لینے کی
کوششیں وہ کرتی ہے

اور اگر وہ یہ دیکھے
آب جیت سکتا ہے
کوئی ڈوب سکتا ہے
پھر بھی ڈوبتے کو یہ
چھوڑ تو نہیں دیتی
مثلِ یار، یہ نظریں
پھیر تو نہیں لیتی 

اور جب کوئی ڈوبے
ساتھ ڈوب جاتی ہے
آب جس جگہ کھینچے
آب جس جگہ پھینکے
ساتھ ساتھ رہتی ہے
جس کا ہاتھ تھاما تھا
اُس کے ساتھ جیتی ہے
اُس کے ساتھ مرتی ہے



سید شعیب نعیم

لوکل پریسٹیج | مقامی وقار

لوکل پریسٹیج

 

کیا غیر معیاری چیزیں لوکل ہوتی ہیں؟

ہمارے ہاں عوام الناس اکثر غیر معیاری اشیاء کے لئے لوکل کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ لوکل انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب "علاقائی" یا "مقامی" ہے ۔ دراصل یہ اصطلاح ہمارے علاقائی دوکاندار استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی غیر معیاری چیز کو لوکل کہہ کر بے وقعت کر دیتے ہیں۔ اور کسی بھی معیاری چیز کو اُس 'لوکل' شے کے مقابل لا کر رکھ دیتے ہیں۔ اُنہی سے عوام الناس خاص طور پر وہ لوگ جو انگریزی زبان سے زیادہ علاقہ نہیں رکھتے ، یہ بات سیکھ لیتے ہیں۔

اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیسی ساختہ چیزیں اکثر غیر معیاری ہی ہوا کرتی ہیں اور اُن کی بہ نسبت باہر سے درامد شدہ اشیاء کا معیار کچھ بہتر ہوتا ہے۔ تاہم یہ کُلیہ کہ تمام تر لوکل چیزیں غیر معیاری ہوتی ہیں سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور بہت سی دیسی ساختہ اشیاء اپنے معیار کے اعتبار سے بہترین درجے کی بھی ہوتی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس کچھ ایسی اشیاء بھی غیر معیاری ہوتی ہیں جو باہر ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہیں اور وہ دیسی ساختہ اشیاء سے مقابلہ نہیں کر پاتیں۔

سو ہمیں چاہیے کہ غیر معیاری اشیاء کو براہِ راست لوکل نہ کہیں بلکہ غیر معیاری یا ہلکی ہی کہیں ۔ تاکہ مقامی اشیاء سازوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو اور مقامی اشیاء کا وقار اور بتدریج معیار بہتر ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔

آج کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک اپنی مقامی صنعت کو فروغ دیتے ہیں اور مقامی لوگ پہلے مقامی ساختہ مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر بعد میں درامد شدہ مصنوعات کی طرف جاتے ہیں۔ اس سے اُن کا زرِ مبادلہ بچتا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اُن کی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔

یہ تھی آج کی چھوٹی سی بات جو اتنی چھوٹی بھی نہیں ہے۔