چاند میں تو کئی داغ ہیں


2013ء میں جب پاکستان میں الیکشن کا انعقاد ہوا تو اُس وقت عمران خان کی تحریکِ انصاف ایک بڑی قوت بن کر اُبھری اور گمان تھا کہ یہ میدان بھی مار جائے لیکن نتائج کچھ مختلف رہے۔

اس وقت عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان جیسے بھی ہیں لیکن دوسرے دستیاب آپشنز سے بہرکیف بہتر ہیں۔ یعنی بُروں میں سب سے اچھے عمران خان ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بہت سے برے آپشنز میں سے وہ نسبتاً بہتر ہیں۔ اگر بات الیکشن تک رہتی تو شاید تحریک انصاف کامیاب بھی ہو جاتی لیکن سیلیکشن کے مرحلے میں آکر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وزیرِ اعظم بننے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ الغرض دلہن وہی بنی جو پیا من بھائی ! اور عمران خان دلہن نہ بن پائے تو ولن بن گئے اور آنے والی حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔

عمران خان نے اپنے مخالفین کو کافی شدید زک پہنچائی اور اُن کی بے انتہا کردار کشی کی ۔ اور اسی وجہ سے اور کچھ اُن کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اُن کا اپنا کردار بھی نظریاتی لوگوں کی نظر میں تاراج ہو گیا، اور عمران خان 2013ء کی طرح لوگوں کے ذہن میں نجات دہندہ رہبر نہیں رہے بلکہ بہت سے آپشنز میں سے ایک آپشن بن گئے۔

انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ اپنی جماعت میں الیکٹیبلز کے نام پر لوٹے بھرتی کیے اور پرانے نظریاتی کارکنوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اُن کے نظریات ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے اور وہ کبھی یکسو ہو کر کوئی مثبت کام نہیں کر پائے۔ خیبر پختونخواہ میں اُن کی صوبائی حکومت کی شہرت گو کہ باقی تمام صوبوں سے بہتر ہے تاہم وہ خیبر پختونخواہ کو وہ نمونہ نہیں بنا سکے کہ جسے دیکھ آئندہ انتخابات میں اُنہیں ووٹ دیے جا سکیں۔ 


وہ ابھی بہت سے بدترین لوگوں سے بہت بہتر ہیں لیکن درحقیقت صاحبِ کردار لوگ ایسے لوگوں سے اپنے تقابلی جائزے ہی کو اپنے لئے باعثِ شرم جانتے ہیں۔ بہرکیف شنید ہے کہ اس بار پیا کے من میں بھی تبدیلی کی جوت جگی ہے اور وہ نئی دلہن کی طرف راغب ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ایک نظریاتی جماعت سے محروم ہو گیا ہے۔

سائے میں پڑی لاشیں


سندھی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ حق بات اپنی جگہ لیکن ساتھ بھائی کا دیں گے۔ اس سے آپ یہ ہر گز نہ سمجھیے گا کہ تعصب پر سندھی بولنے والوں کی ہی اجارہ داری ہے بلکہ یہ بیماری تو ہمارے ہاں موجود ہر قوم میں کسی نہ کسی شکل میں پھیلی ہوئی ہے۔

تعصب عدل کو معزول کر دیتا ہے ۔ یوں تو عدل اور تعصب دونوں ہی اندھے ہوتے ہیں لیکن عدل سب کے لئے کورچشم ہوتا ہے تاہم تعصب اندھا ہوتے ہوئے بھی اتنا ضرور دیکھ لیتا ہےکہ کون اپنا ہے اور کون پرایا اور کسے ریوڑھیاں بانٹنی ہے اور کسے نہیں۔

ہم بڑے عجیب لوگ ہیں، ہم اپنی معاملے میں عدل چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے معاملے میں تعصب سے کام لیتے ہیں۔ جب مصیبت ہم پر آ پڑتی ہے تو ہم انصاف انصاف کی دُہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن جب بات کسی اور کی ہو تو ہم سوچتے ہیں کہ صاحبِ معاملہ کون ہے۔ کہاں کا رہنے والا ہے؟ کون سی زبان بولتا ہے؟ کس رنگ و نسل کا ہے؟ حتیٰ کہ ہمارے علاقے کا ہے یا کہیں اور کا۔ ہمارے صوبے کا ہے یا کہیں اور کا؟ ہمارے شہر کا ہے یا کہیں اور کا؟

پھر اگر کوئی آپ کا اپنا معاملے کا فریق بن جائے تو پھر آپ عدل سے آنکھیں چرا کر اپنے پرائے کو ہی حق و باطل کا معیار بنا لیتے ہیں۔ آپ کا اپنا ؟ آپ کا اپنا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کا بھائی، آپ کا رشتہ دار، آپ کے محلے پڑوس کا کوئی شخص ، آپ کا کوئی ہم زبان، ہم رنگ و نسل۔ پھر آپ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف نام کی بھی کوئی شے ہے۔ بس جو اپنا ہے وہ ٹھیک ہے اور دوسرا وہ شخص جو آپ سے کوئی نسبت نہیں رکھتا حق پر ہوتے ہوئے بھی ، غلط ہے ۔ ظالم ہے۔

ہم لوگ اکثر روتے ہیں کہ ہمارے ہاں ظلم بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہاں عدل و انصاف نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی عدل کو پسند کرتے ہیں۔ عدل جو اندھا ہوتا ہے، جسے اپنے پرائے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ جو کبھی ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ و لسان کسی چیز سے علاقہ نہیں رکھتا۔

ہم کہتے ہیں ہمارے ہاں عدل کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو بس جان پہچان چلتی ہے، یہاں تو سیاسی وابستگی کام آتی ہے یہاں ہمارے لئے عدل کا حصول ممکن نہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے معاملے میں تعصب کو برا سمجھتے ہیں۔

یا ہم نے سارے معیار صرف اس لئے وضع کیے ہیں کہ اُن سے دوسروں کی پیمائش کی جاتی رہے اور ہماری باری پر ہمیں استثنیٰ مل جائے۔


*****
بہرکیف اگر آپ کسی سے تعصب برتتے بھی ہیں تو اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے کہ روزِ حشر اس کے جواب دہ آپ خود ہوں گے تاہم آپ کا یہ تعصب آپ کے دشمنوں کے لئے ہی نقصان دہ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے اپنے لئے بھی زہرِ قاتل ہے۔

وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ آپ کے سیاست دان آپ کی تعصب کی بیماری سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ آپ کو رنگ و نسل اور زبان و علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں اور اِسی برتے پر آپ کا قیمتی ووٹ لے اُڑتے ہیں۔ اور آپ؟

آپ اتنے سیدھے سادھے ہیں کہ آپ اس سے پوچھتے تک نہیں کہ ٹھیک ہے تم میری قوم سے ہو لیکن پچھلے پانچ سال تمہاری کیا کارکردگی رہی؟ اگلے پانچ سال کے لئے تمہار ا کیا منشور ہے؟ جس منصب پر پہنچنے کے لئے تم میرا ووٹ طلب کر رہے ہو کیا تم اُس کے اہل بھی ہو ۔ یا تمہاری اہلیت صرف یہ ہے کہ تم میری قوم سے ہو، یا میری زبان بولتے ہو۔

کہتے ہیں کہ اپنا تو مار کر بھی سائے میں ڈالتا ہے تو پھر سمجھ لیجے کہ آپ پاکستانیوں کا جو حال ہے وہ سائے میں پڑی لاشوں سے بہتر نہیں ہے جنہیں اُن کے 'اپنوں'نے مار کر بہت محبت سے سائے میں ڈالا ہے۔

یقین کیجے آپ کی آنکھیں بہت اچھا دیکھ سکتی ہے، بس ایک بار تعصب کی ہری نیلی پیلی عینکیں اُتار کر دیکھنے کی ہمت کیجے۔ تب آپ کو اپنوں میں غیر اور غیروں میں موجود اپنے نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

قتیل شفائی کی سدا بہار غزل

غزل

جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کیلئے
آ پڑے مشکل تو نظر یں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ

خود فریبی کی انھیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہے بجا اِن کی شکایت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کیلئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آجائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے اُن کا ایماں روک مت اُن کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا ،تیرا کیا لیتے ہیں لوگ

قتیل شفائی

غزل ۔ ہے کون کون اہلِ وفا دیکھتے رہو​ ۔ امجد علی راجاؔ


امجد علی راجا بہت اچھے شاعر ہیں۔ گو کہ ان کی شہرت ان کا ظریفانہ کلام ہے تاہم سنجیدہ شاعری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ امجد علی راجا صاحب کی ایک غزل آپ کی نذر:

غزل

ہے کون کون اہلِ وفا دیکھتے رہو​
دیتا ہے کون کون دغا دیکھتے رہو​
پوچھا جو زندگی سے کہ کتنے ستم ہیں اور​
بس مسکرا کر اس نے کہا، دیکھتے رہو​
رکھا کسی نے بام پہ ٹوٹا ہوا چراغ​
اور ہے غضب کی تیز ہوا، دیکھتے رہو​
اٹکی ہوئی ہے جان مرے لب پہ چارہ گر​
شاید وہ آہی جائے ذرا دیکھتے رہو​
انجام ہے تباہی تکبر ہو یا غرور​
ہر شخص بن گیا ہے خدا، دیکھتے رہو​
عریاں ہوا ہے حسن نمائش کے شوق میں​
نایاب ہو گئی ہے حیا، دیکھتے رہو​
کرتے ہو حق کی بات ستمگر کے روبرو​
راجا تمہیں ملے گی سزا دیکھتے رہو​

امجد علی راجاؔ​

شاعر: امجد علی راجا

دماغ آفریدی خلل آفریدم


حضرتِ اقبال کی خوبصورت نظم کا بہت ہی خوب بیڑہ غرق کیا ہے جناب رشید عبد السمیع جلیل صاحب نے؛ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 

دماغ آفریدی خلل آفریدم
کروں جلد شادی یہ حل آفریدم

'جہاں را زِ یک آب و گل آفریدی'
اسی آب و گل سے محل آفریدم

'تو از خاک فولادِ ناب آفریدی'
میں دھونے دھلانے کو نل آفریدم

تو دنیا میں لاکھوں حسیں آفریدی
میں دل میں ہزاروں کنول آفریدم

تو فردوس و خلدِ بریں آفریدی
زمیں پر میں نعم البدل آفریدم

تری حکمتیں بے نہایت الٰہی
میں از روئے حکمت کھرل آفریدم

مجھے رات دن چاہیے بے خودی سی
اسی واسطے الکحل آفریدم

رشید عبدالسمیع جلیل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم

نمکین غزل

وہ جھانسہ دے کے غائب ہے سرِ بازار می رقصم
بھروسہ کرکے دھوکہ باز پر بے کار می رقصم

سناتا ہوں میں ہر محفل میں اکلوتی غزل اپنی
نہیں ملتی اگر کچھ داد تو سو بار می رقصم

کیا کرتے تھے اوور ٹیک جاو پر حسینوں کو
ہوئی آٹو کی وہ ٹکر کہ آخر کار می رقصم

وہ رکشے پر گزرتی ہے میں پیدل ٹاپ لیتا ہوں
خیالوں میں پکڑ کر دامنِ دلدار می رقصم

نشہ اُترا تو بتلایا مجھے لوگوں نے آ آ کر
بہت اچھلم، بہت کودم برہنہ وار می رقصم

جہاں بجتی ہے شہنائی جلیل اکثر یہ دیکھا ہے
ادھر پتلون می رقصم ادھر شلوار می رقصم 

رشید عبدالسمیع جلیل 

جادو کا کھلونا ۔۔۔ از ۔۔۔ محمد احمدؔ


آج تو میں اِس دنیا کو انفرینڈ کر ہی دوں گا۔

میں نے آج پھر تلملاتے ہوئے کہا۔ ویسے ہی جیسے ہر بار زخم کھا کر ہاتھ ڈریسنگ باکس میں رکھے مرہم و نشتر کی طرف بڑھتا ہے کہ اب کچھ علاج ہونا ہی چاہیے۔ لیکن بقول راشد:

زہرِ غم کی نگہِ دوست بھی تریاق نہیں
جا ترے درد کا درماں دلِ صد چاک نہیں
ن ۔م راشد

خیر ! نہ جانے کس جھونک میں اُڑتا ہوا میں اُس کی پروفائل تک پہنچ گیا۔ کیا حسین پروفائل تھی، میں ہمیشہ کی طرح مبہوت ہو کر رہ گیا۔ لیکن پھر قاصر کی نصیحت یاد آئی۔

حسین سانپ کے نقش و نگار خوب سہی
نگاہ زہر پہ رکھ، خوشنما بدن پہ نہ جا

وہی پھولوں سا بدن، اور وہی ڈستی خوشبو! میں نے گھبرا کر نظریں چاروں طرف دوڑائیں۔

کہاں ہے؟ ان فرینڈ کا بٹن کہاں ہے؟ کوئی نیلا، کوئی سُرخ بٹن! کہ جسے پوری قوت سے ضرب لگا کر ہی دل کو کچھ تسکین ملے۔ کہ جس پر کلک کرتے ہوئے انگشت تلوار بن جائے اور دل اس زور سے دھڑکے کہ گرج آسمان میں سنائی دے۔

لیکن نہیں یہاں تو کوئی بٹن ہے ہی نہیں! کیسے انفرینڈ کروں؟ کیسے جان چھڑاؤں؟ آخر کیسے؟

کہاں ہیں جون ایلیا، جو کہتے تھے کہ

ترکِ تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی

پھر تو، پھر تو لیاقت علی عاصم ہی اچھے رہے:

عاجز تھا بے عجز نبھائی، رسمِ جُدائی میں نے بھی
اُس نے مجھ سے ہاتھ چُھڑایا، جان چھڑائی میں نے بھی

۔۔۔۔
مگر نہیں ! یہاں تو کوئی انفرینڈ کا بٹن ہی نہیں ہے۔ ہاں ایک بٹن ہے اور کہتا ہے کہ دوستی کی درخواست بھیجو! یا حیرت!

ہم سے نہیں رشتہ بھی، ہم سے نہیں ملتا بھی
ہے پاس وہ بیٹھا بھی، دھوکہ ہو تو ایسا ہو
ابن انشاء

لیجے ایک نئی کشمکش! ہم تو ترکِ دوستی کو تُلے بیٹھے تھے، لیکن کون سا دوست؟ کہاں کا دوست؟ یہاں کوئی دوست ہے ہی نہیں کہ جس سے ترک دوستی کی جائے۔ کہ جس پر تین حرف بھیجے جا سکیں۔ صد حیف کہ دل کے تپتے صحرا کو اوس کے تین قطرے بھی نصیب نہیں!

دیکھیں اب کہ امتحان میں سُرخ رو ہوتا ہے کون
وہ بھی کچھ سوچے ہوئے ہیں، ہم بھی کچھ ٹھانے ہوئے
کلیم عاجز

ماؤس کرسر ایک وحشت لئے اسکرین پر اِدھر سے اُدھر غزالِ دشت کی مانند بھٹک رہا ہے۔ کسی کل چین نہیں پڑتا ۔ ایک بٹن واپسی کا بھی ہے لیکن وہ شاید ڈس ایبل ہے یا کرسر وہاں پہنچنا ہی نہیں جانتا۔

کسی کے ہاتھ کا نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں
حدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا
شاہد کبیر

اک کشمکش ہے۔ کہیں اندر سے صدا آتی ہے کہ اب جا۔ دفع ہو جا۔ آیا تھا ترکِ دوستی کرنے۔ جو تیرا دوست کبھی تھا ہی نہیں اُس سے کیا ترک راہ و رسم کرے گا۔ ہے کوئی عقل تجھے۔ لیکن ماؤس کرسر، ماؤس کرسر ہے کہ دیوانوں کی طرح ایک نیلے بٹن کا طواف کر رہا ہے اور نیلا بٹن اُسے اپنے مرکز کی سمت کھینچ رہا ہے۔

دائرے اِنکار کے، اِقرار کی سرگوشیاں
یہ اگر ٹوٹیں کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
افتخار امام صدیقی

ارے ! ارے یہ کیا! ماؤس کا تیر نیلے بٹن کے بیچوں بیچ پہنچ گیا ہے، وہی نیلا بٹن جو کہتا ہے کہ دوستی کی درخواست بھیجو۔ دوستی کی درخواست! اس ناہنجار دنیا کو۔ جو کسی اور کا ہونے دے، نہ اپنا رکھے۔ نہیں! میں تو ترکِ دنیا کا ارادہ کرکے یہاں پہنچا تھا۔ پھر میں دوستی کی درخواست کیونکر بھیجنے لگا۔ آخر کیوں!

نہ جانےیہ کیسی کشش تھی جو میری نحیف انگلی کو خود رفتہ کر گئی۔ میں! میں دوستی کی درخواست بھیج چکا تھا۔ اُسی دنیا کو کہ جس سے جان چھڑانے آیا تھا۔ وہی دنیا جس پر تین حروف بھیجنے تھے۔ آنسوؤں کے دو تین تپتے قطرے میرے صحرا ایسے سینے پر گرے اور صحرا یکایک بادِ صر صر کی زد میں آکر آگ بگولہ ہو گیا۔ وائے حسرت!!!

دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
ندا فاضلی