اھے وائے ۔۔۔۔ رشید احمد صدیقی

اھے وائے 
رشید احمد صدیقی کی تحریر "پاسبان" سے اقتباس

سفر شروع ہوا راستے میں ایک درگاہ پڑتی تھی زیارت کے لئے اُتر پڑا ۔ اسباب سرائے میں رکھ کر درگاہ پہنچا۔ جو توقعات بن دیکھے قائم کی تھیں ان میں مایوسی ہوئی اور  وہاں کے پاسبانوں کو دیکھ کر جان و مال کا اتنا نہیں تو آبرو جانے کا اندیشہ ضرور ہوا۔  لمبی چوڑی عمارت ،گندگی، گداگر،  تنو مند ترش رو مجاور ہر طرف کہنگی اور زوال کے آثار۔ سمجھ میں نہ آیا کیا کروں۔ خیال آیا  قوالی سے کام لوں لیکن اشعار یاد نہ گانے سے واقفیت۔ تالی بجانے کی مشق کالج میں کی تھی لیکن کالج کی تالی اور مزار کی تالی میں بڑا فرق تھا اور اس فرق کو خادموں اور مجاورں نے محسوس کر لیا تو یہاں کوئی ایسا تو ہے نہیں جو اس کا قائل ہو کہ تالی دونوں ہاتھ سے بج سکتی ہے ممکن ہے تالی کا پرچہ ترکیب استعمال کچھ اور ہی ہو مثلاً  ایک ہی ہاتھ سے بجائی جاتی ہو خیال آیا کہ گو اشعار تالی اور قوالی وغیرہ کچھ نہیں آتی لیکن قوالی کی  ایک چیز آتی ہے۔ یعنی  "اھے وائے!" 


چنانچہ کچھ سوچتا کچھ گنگناتا بہت کچھ ڈرتا ہوا داخلِ عمارت ہوا۔ پاسبان نے ایسی پاٹ دار آواز میں للکارا کہ ساری عمارت گونج گئی اور میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ "قدم درویشان ردِّ بلا"  ۔ پھر نہایت لجاجت سے فیس داخلہ طلب کی۔ بات سمجھ میں نہ آئی اس لئے کہ میرے قدم ردِّ بلا تھے تو اس کی فیس کیسی اور کسی دوسرے کے تھے تو اس کا اعلان مجھے دیکھ کر کیوں !  پھر سوچنے لگا کہ ممکن ہے شکل کے اعتبار سے میں درویش ہوں قدم کے اعتبار سے یہ لوگ یا کوئی اور بزرگ ردِّ بلا ہوں۔ عرض کیا جناب پیسے ہوتے تو وطن ہی کیوں چھوڑتا۔ اس اُمید پر حاضر ہوا ہوں کہ حضرت کے فیض سے کچھ پیسے مل جائیں گے۔

فرمایا آپ بڑے آدمی ہیں اللہ نے بہت کچھ دیا ہے، عرض کیا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے لیکن رائے صحیح نہیں قائم فرمائی۔ میں مفلس عیال دار ہوں اُسی اعتبار سے مقروض اور مریض بھی۔ کہنے لگے بجا ۔ لیکن جب تک کچھ خیر خیرات نہ کیجے گا حضرت کی خوشنودی کیوں کر حاصل ہوگی۔  کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ دبی  زبان سے عرض کی جناب یہ مزار شریف ہے یا امپیریل بنک! پاسبان نے کچھ اس طرح گھور کر دیکھا کہ مارے خوف کے دل سینے میں اور چونی جیب میں لرزنے لگی۔ چوّنی دربان کی خدمت میں پیش کی اور اھے وائے کہتا ہوا چار سورماؤں کی حفاظت یا حراست میں آگے بڑھا۔ ایک مقام پرطائفہ  کھڑا ہو گیا۔ حکم ہوا حضرت نے یہاں وضو کیا تھ۔ اکنّی رکھ دو ۔ اکنّی کے ساتھ ایک بزرگ بھی تخفیف میں آگئے۔ دوسری منزل پر بتایا گیا کہ حضرت نے یہاں چلّہ کھینچا تھا آٹھ آنے نذر کے پیش کرو۔ وہ بھی پیش کر دیئے ، ایک صاحب اور کم ہو ئے۔ ایک اور مقام پر پہنچے ارشاد ہوا  بارہ آنے رکھ دو حضور نے یہاں دعا مانگی تھی۔  تم بھی دعا مانگ لو۔  پوچھا کیا آپ بتاسکتے ہیں حضور نے کیا دعا مانگی تھی کہنے لگے یہی مانگی ہوگی کہ خدا مسلمانوں کو جملہ آفات و بلیّآت  سےمحفوظ رکھے۔ میں نے کہا اہے وائے، وہ دعا کب مقبول ہوئی کہ میں بھی مانگوں۔ اس پر دوست بہت برہم ہوئے اور کچھ تعجب نہ ہوتا اگر نقصِ  امن کی نوبت آجاتی ۔ میں نے مطلوبہ رقم ان کے ہاتھ پر رکھ دی جس کا کرشمہ یہ تھا کہ اُن کا ولولہ ِجہاد مزاج شریف اور دعائے لطیف پر ختم ہوگیا۔ 

پوچھنے لگے حضرت کا آنا کہاں سے ہوا۔ عرض کیا ٹمبکٹو سے۔  فرمایا وہاں مزارات ہیں ؟ کہاں جہاں کہیں مسلمان ہوں گے مزارات بھی ہوں گے۔ پوچھا متولی اور سجادہ نشین کون ہیں۔ کہاں فی الحال تو یہ خاکسار ہی ہے اور اس وقت مزارات کے مسائل پر تحقیقات کرنے ہندوستان آیا ہے۔ پوچھا اوقاف کی آمدنی کیسی ہے ۔ جواب دیا کافی سے زائد ہے۔ کہنے لگے اگر میری خدمات کی ضرورت ہو تو حاضر ہوں، یہاں حالات تو نہایت زار ہے۔  متولی صاحب پر ایک عورت اور ایک انگریز کا بڑا اثر ہے۔ مزار شریف کی ساری آمدنی انہی پر صرف ہوتی ہے۔ ہم خدام تو بس اُسی روکھی پھیکی پر بسر کرتے ہیں جو آپ لوگوں سے مل جاتی ہے۔ عرض کیا، کیا کیجے گا  انگریز  اور  عورت سے کسے اور کہاں مفر ہے۔ 

ایک دوسرے خادم کے ہمراہ آگے بڑھا اور ایک کھڑکی کے قریب پہنچا ساتھی نے کہا ایک روپیہ نذر کیجے اور کھڑکی میں منہ ڈال کر دعا مانگئے قبول ہوگی۔  عرض کیا یہ ایک روپیہ حاضر ہے۔ دعا مانگنے کی ضرورت نہیں سمجھتا ۔ کہنے لگے نہیں جناب یہ یہاں کا دستور ہے آپ مزار شریف کی توہین کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ بات نہیں ہے حواس پر قابو نہیں الٹی سیدھی دعا مانگ گیا تو کیا ہوگا۔ کہنے لگے دعا مانگنی پڑے گی۔ اس آستانے سے کوئی محروم نہیں گیا۔ مجبوراً کھڑکی  میں منہ ڈال کر کھڑا ہوگیا۔ رفیق نے للکارا دعا  مانگو اور ہم سے کیا پردہ باآوازِ بلند مانگو۔ عرض کیا اس سے ممکن ہے صاحبِ مزار کے آرام میں خلل پڑے گا ۔ فرمایا اس کا خیال نہ کرو۔ ہم سنبھال لیں گے۔ میں نے دعا مانگی۔  "اے برگزیدہ روح دعا فرمائیں کہ اس گنہگار اور بدبخت کو آج سے پھر کسی مزار یا مجاور سے سابقہ نہ پڑے۔"

یاد نہیں آتا کہ کھڑکی کے اندر سے خود گردن باہر نکالی یا اس کے لئے اپنے رفیق کا احسان مند ہونا پڑا۔ اہے وائے کرتا مزار شریف سے تنہا باہر آیا۔ بعض فقرا اور مساکین نے ہمدردی کرنا چاہیے لیکن آخری کرم فرما نے وہیں سے للکارا "خبردار وہابی ہے!" سرائے پہنچا تو سامان غائب۔  اہے وائے۔

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

ادا جعفری کی دو خوبصورت غزلیں

گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید

اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید

اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید

خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید

تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید

موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید

رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید

کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ 
شعر سننے کو رُکا تھا شاید


******

حال کُھلتا نہیں جبینوں سے
رنج اُٹھائے ہیں کن قرینوں سے

رات آہستہ گام اُتری ہے
درد کے ماہتاب زینوں سے

ہم نے سوچا نہ اُس نے جانا ہے
دل بھی ہوتے ہیں آبگینوں سے

کون لے گا شرارِ جاں کا حساب
دشتِ امروز کے دفینوں سے

تو نے مژگاں اُٹھا کے دیکھا بھی
شہر خالی نہ تھا مکینوں سے

آشنا آشنا پیام آئے
اجنبی اجنبی زمینوں سے

جی  کو آرام آ گیا ہے  اداؔ
کبھی طوفاں، کبھی سفینوں سے

اداؔ جعفری

انسان اور وقت

انسان اور وقت کا ساتھ بہت پُرانا ہے ۔ ایک دور تھا کہ وہ سور ج اور ستاروں کی چال دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب وقت انسان کے ساتھ تھا لیکن شناشائی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔ آج بھی انسان کبھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ 

ہزارہا سال کے تجربے اور ساتھ کے باوجود انسان ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ لاکھ خود کو طرم خان سمجھنے لگے لیکن وقت ہمیشہ اُس کے اندازوں کو غلط ثابت کردیتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ۔۔۔ ۔ 

سوال یہ ہے کہ انسان وقت سے اس قدر اُلجھتا کیوں ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ زندگی اور موت ۔۔۔ ؟ ہاں ! کیا زندگی وقت کے سوا بھی کچھ ہے؟ پھر وہ وقت سے کیوں نہ اُلجھے ۔ زندگی ایک مہلت ہی تو ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک کی مہلت۔ شاید اسی لئے انسان وقت سے ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتا ہے۔ اکثر شاکی رہتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنی کوتاہیوں کے لئے بھی وقت ہی کو قصوروار ٹہھراتا ہے۔ 

وقت کی پیمائش بھی ہمیشہ انسان کے لئے ایک مسئلہ ہی رہی ہے سورج اور ستاروں کی چال سے لے کر فراقِ یار کی طوالت اور وصل کی مختصر گھڑیاں۔ غرض وقت کو ناپنے کے سب پیمانے ایک وقت تک ہی انسان کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر انسان سوچتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ گیا، وقت کے لئے بنائے گئے اُس کے پیمانے اُس کا ادراک ہی نہیں کر سکے۔ 

ڈھلتی عمر بھی انسان کو وقت کے گزرنے سے آگاہ کرتی ہے۔ کسی دن اچانک ہی کسی کا چھوٹا سافقرہ یا آئنے کی بے تکلفی اُسے چونکا دیتی ہے۔ جیسے وہ برسوں کی نیند سے بیدار ہوا ہو۔ وہ سوچتا ہے کہ وقت کی اُنگلی پکڑے وہ کہاں سے کہاں تک آگیا ہے ۔ یہاں تک کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر اُسے اپنا نقطہء آغاز تک نظر نہیں آتا۔ اُسے لگتا ہے جیسے وقت ریت کی طرح اُس کی مُٹھی سے پھسل گیا ہو۔ وقت کا ریت کی طرح ہتھیلی سے پھسل جانا بھی کیا ہی خوب تمثیل ہے ۔ شاید پہلی بار جب انسان کو یہ تشبیہہ سوجھی ہو گی تو اُسے ریت گھڑی بنانے کا خیال آیا ہوگا۔ 

آپ نے ریت گھڑی اور کہیں نہیں تو کمپیوٹر میں انتظار کی علامت کے طور پر ضرور دیکھی ہوگی۔ ریت گھڑی سے مستقل ریت کے ذرے زوال پذیر نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی جھولی کے سب سکّے نذرِ خاک ہوجاتے ہیں۔ ریت گھڑی تو پلٹ کر پھر سے کام پر لگادی جاتی ہے لیکن انسان کی زندگی ریگِ صحرا کی ایک مُٹھی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ 

آج کا دور ڈجیٹل گھڑیوں سے بھی آگے کا ہے ، آج ہم ایک ثانیے کے بھی ہزار ویں حصے کی پیمائش باآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے احساس ڈجیٹل نہیں ہوسکا ۔ احساس اب بھی وہی ہے ۔ اب بھی انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالے۔ فراق کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور وصل میں وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے:

تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے​

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وقت از خودمختصر یا طویل نہیں ہوتا بلکہ انسان کا احساس اُسے درازی یا تنگی کی خلعت عطا کرتا ہے۔ کمرہء امتحان کے تین گھنٹے اور انتظار کے تیس منٹ کو اگر میزانِ احساس میں رکھا جائے تو شاید کوئی بھی پلڑا ہار ماننے کو تیار نہ ہو۔ 

یہ بھی سنتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔ دیکھا جائے تو یہ بات بھی خوب ہے کہ خوشی کی گھڑیوں میں انسان کو مغرور نہیں ہونے دیتی اور مشکل میں مایوسی سے بچا لیتی ہے۔ یعنی انسان کے برتاؤ کو اعتدال کے سکون بخش مستقر میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس بات سے مشکل میں حوصلہ ملتا ہے اور اُمید کی لو فروزاں ہو جاتی ہے کہ کبھی تو وقت موافق بھی ہوگا۔ وقت کبھی انسان کے موافق ہوتا ہے تو کبھی مخالف اور ہر دو صورتوں میں یہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور جو بات وقت انسان کو سکھاتا ہےاُسے بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

ہمارے ہاں وقت کا لفظ بہت ہی وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ یہ کبھی محض ایک ساعت کے لئے استعمال ہوتا ہے تو کبھی یہ ایک عہد کا استعارہ بن جاتا ہے۔ وقتِ رخصت، وصل کی ساعت، ہجر کی گھڑیاں، رنج کا موسم اور گلابوں والی رُت سب کے سب وقت کے ہی بہروپ ہیں ۔ اچھا وقت یوں کٹ جاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ بقول پروین شاکر:

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
اور اگر زندگی رنج و محن کی تصویر ہو جائے تو شاعر کہہ اُٹھتا ہے:

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جو لوگ وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لیتے ہیں وہ مستقل خود کو بدلتے رہتے ہیں لیکن وقت رُکنا نہیں جانتا اور اکثر انسان وقت کے تعاقب میں ہانپ جاتا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد "وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ۔۔۔ !" 

وقت انسان کے ساتھ جو بھی کرے لیکن انسان کو ہمیشہ یہی سبق دیا جاتا ہے کہ وہ وقت کی قدر کرے اور وقت کے دامن میں کارہائے مثبت و مفید کے پھول کشید کرتا رہے ، یقیناً ایک نہ ایک دن منظر اور پس منظر دونوں رنگ و بو سے معمور ہو جائیں گے۔ 

سب سے آخری بات یہ کہ وقت بڑی ظالم شے ہے اور وہ ایسے کہ اگر آپ خود وقت کے قصیدے بھی پڑھتے رہیں تب بھی یہ اپنی روش سے باز نہ آئے گا اور پُھر سے اُڑ جائے گا اور آپ کو کفِ افسوس ملنے کے مزید وقت درکار ہوگا۔ سو اس گفتگو کو یہیں سمیٹتے ہوئے آخر میں کچھ منتخب اشعار کہ جن میں وقت اور انسانی احساسات کو خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔ 

ایک غزل کے کچھ اشعار :

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اُس نے دیکھا مجھے، اُس نے چاہا مجھے، اُس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے

کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آگیا، ذہن میں اُس کے جو میرا نام آگیا
بعد مدّت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے

زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروّت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے​

کچھ اشعار ایک اور غزل سے:

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھولنے میں وقت تو لگتا ہے
کچھ اشعار فرحت عباس شاہ کے:

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے​

کچھ نوشی گیلانی کے:

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے​

جون ایلیا:

آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا

ابنِ انشاء:

ساعتِ چند کے مسافر ہیں 
کوئی دم اور گفتگو لوگو! ​

اور بھی بہت سے ہیں لیکن کسی اور "وقت"۔ 

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو ۔ نور بجنوری

غزل

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو
ہم اصولوں کی تجارت نہیں کرتے یارو

خونِ حسرت ہی سہی، خونِ تمنّا ہی سہی
ان خرابوں میں کوئی رنگ تو بھرتے یارو

پھر تو ہر خاک نشیں عرشِ بریں پر ہوتا
صرف آہوں سے مقدر جو سنورتے یارو

سولیاں جُھوم کے ہوتی ہیں ہم آغوش جہاں
کاش ہم بھی اُنہی راہوں سے گُزرتے یارو

سر کہیں، سر پہ سجائی ہوئی دستار کہیں
زندگی کے لئے یوں بھی نہیں مرتے یارو

چاند تسخیر کیا، قلب نہ تسخیر کیا
اس  جزیرے میں بھی اک بار اُترتے یارو

نور بجنوری

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا ۔ اُمید فاضلی

غزل

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے 
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور  اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اُمید فاضلی

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد

رنگ ہے دل کا مرے

رنگ ہے دل کا مرے

تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر،  راہگزر راہگزر،  شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ، خون جگر ہونے تک
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو تھی
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے

فیض احمد فیض