چالیس سال بعد ۔۔۔


آج پھر سولہ دسمبر ہے ۔ وہی تاریخ جب آج سے چالیس سال پہلے پاکستان کا ایک حصہ ہم سے جدا ہوگیا تھا ۔

کہتے ہیں دنیا کی زیادہ تر لڑائیاں "شئرنگ" پر ہوتی ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ ہمارے اس وقت کے اربابِ اختیار اپنے اختیارت میں کسی کی شمولیت برداشت نہیں کر سکے اور نتیجہ وہ ہوا جس کی اُمید بھی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ حقدار کو حق دینا انصاف کہلاتا ہے۔ ہمارے رہنمائے ملت بھی اگر انصاف سے کام لیتے تو شاید کبھی بھی یہ نوبت نہ آتی۔ اس تقسیم سے ہمیں ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ خود بنگلہ دیش کو بھی نقصان ہوا اور فائدے میں رہے وہ لوگ جو اتنے بڑے اسلامی ملک سے خوفزدہ تھے۔

بہر کیف بنگلہ دیش آج ہم سے بہتر ہے ۔ بنگلہ دیش ہر سال ہی سیلاب کی تباہی کا شکار رہتا ہے لیکن وہاں وہ تباہ کاری دیکھنے میں نہیں آتی جو ہمارے ہاں عمومی صورتِ حال میں نظر آتی ہے۔ آج بنگلہ دیش کی کرنسی مستحکم ہے اور مزید بہتر ہو رہی ہے۔ ہمارا روپیہ دن بہ دن پستیوں میں اُتر رہا ہے۔

آج سقوطِ ڈھاکہ کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن ہماری صورتِ حال آج بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ ہمارے ہاں آج بھی لوگ انصاف کو ترس رہے ہیں۔ ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا سو آج اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے لیکن زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی کوئی سبق سیکھنا نہیں چاہتے ۔



تیسری تصویر


یوں تو تحریکِ پاکستان میں بے شمار عظیم ہستیوں نے بہت لگن اور محنت سے کام کیا اور بے شمار قربانیاں بھی دیں ۔تاہم جب کبھی پاکستان اور اس کی نظریاتی اساس کا ذکر آتا ہے ، سب سے پہلے یاد آنے والی دو شخصیات ہمیشہ علامہ اقبال اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ہیں ہوتی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جوکوئی بھی اپنے تئیں پاکستان کی فلاح اور استحکام کا علم لے کر نکلتا ہے وہ اپنی وابستگی انہی دو شخصیات سے ظاہر کرتا ہے۔ شاید آپ کو یہاں فلاح اور استحکام کی تراکیب بے محل لگیں کیونکہ اب تک کی تاریخ میں یہ دونوں اصطلاحات اُن لوگوں کا آلہء کار بنتی رہی ہیں جو پاکستان سے کبھی مخلص تھے ہی نہیں اور اُنہوں نے جوبھی کیا وہ اپنی ذاتی مفاد کے لئے ہی کیا۔ سو ہمارے ہر سیاسی پمفلٹ اور اشتہار پر کوئی ہو نہ ہو قائدِ اعظم اور علامہ اقبال کی تصاویر ضرور ہوتی ہیں۔ ان دو تصاویر کے ساتھ ہی ایک تیسرا سانچہ بھی ضرور ہوتا ہے جس میں آپ گاہے بہ گاہے ہمارے کسی نہ کسی خیر خواہ اور نجات دہندہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس تیسرے سانچے میں تصاویر تبدیل ہوتی رہتی ہیں، کبھی کوئی لیڈر تو کبھی کوئی قائد۔ کبھی کوئی نجات دہندہ کبھی کوئی درد مند دل رکھنے والا قوم کا ہمدرد۔

آج کل اس تیسرے سانچے میں عمران خان کی تصویر نظر آرہی ہے۔ یہ بات تو خیر میرے جیسے دقیانوسی خیالات رکھنے والے ہی سوچ سکتے ہیں کہ بھلا یہ رہبرانِ ملت علامہ اور قائد کے بالکل برابر ہی کیوں متمکن ہوتے ہیں۔ پاسِ ادب نہ سہی ، خیالِ تقدیم و تاخیر ہی سہی ۔ لیکن کہاں! یہ سب باتیں میرے جیسے فرسودہ خیالات رکھنے والے لوگوں کے ہی حصے میں آتی ہیں۔

بہر کیف آج کل عمران خان اس مملکتِ خدا داد کی سیاسی بساط پر اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ اب اُنہیں اپنے نجات دہندہ کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ ویسے اگر لوگ اُنہیں نجات دہندہ کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ باقی سب کو تو اچھی طرح آزما ہی چکے ہیں سو اُمید پر دنیا قائم ہے کہ مصداق عمران خان کو بھی موقع دینے پر تُلے بیٹھے ہیں۔

اور تو سب ٹھیک لیکن بھیڑ چال چلنے کی عادت ہمارے سیاست دانوں میں عام ہے۔ جب ہی تو کئی پرانے اور گھاگ سیاستدان اس نئی جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف نے جس نظام کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اگر اس کی بنیادوں میں اسی نظام کے کرتا دھرتا شامل ہوگئے تو پھر یہ تحریک کس حد تک کامیاب ہوگی۔ یا پھر ہمیشہ کی طرح چہرے بدل جائیں گے اور نظام اپنی جگہ اور بدنظمی اپنی جگہ برقرار رہے گی۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اپنی جماعت میں لوٹوں کو شامل نہ کریں تو پھر ایسے پاک دامن سیاست دان کہاں سے لائیں جنہیں لوگ ووٹ دینے پر بھی آمادہ ہوجائیں ۔ بافرضِ محال اگر پہلی شرط پوری ہو بھی گئی تو دوسری شرط پوری ہونے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔

ایک انگریزی کہاوت ہے کہ "اگر آپ اُن سے جیت نہیں سکتے تو اُن سے ہی مل جائیں"۔ اب یہ سمجھ نہیں آرہا کہ اس مقولے پر عمل کون کر رہا ہے خود عمران خان یااُن کے حریف؟

صدائے شکستِ نکہت و رنگ

غزل

دیارِ عشق کا یہ حادثہ عجیب سا تھا
رُخِ رقیب پہ بھی پرتوِ حبیب سا تھا

فراق زخم سہی، کم نہ تھی جراحتِ وصل
معانقہ مرے محبوب کا، صلیب سا تھا

ترے جمال کی سرحد سے کبریا کا مقام
بہت قریب تو کیا تھا، مگر قریب سا تھا

سنی ہے میں نے صدائے شکستِ نکہت و رنگ
خزاں کی راہ میں ہر پھول ، عندلیب سا تھا

برادرانِ وطن کے سلوک کی سوگند
ندیمؔ یوسفِ کنعاں کا ہم نصیب سا تھا

احمد ندیم قاسمی

فرحت عباس شاہ کی ایک نظم

"اذیت"

کتنے چہرے
دن بھر دھوکہ دیتے ہیں
کتنی آنکھیں
دن بھر دھوکہ کھاتی ہیں
کتنے دل
ہر روز نئی ویرانی سے
بھر جاتے ہیں
مر جاتے ہیں
لیکن تو
سب کچھ دیکھتا رہتا ہے خاموشی سے

فرحت عباس شاہ

دو شاعر ایک ترنگ



ایک خوبصورت بحر میں دو بہت اچھی غزلیں آپ کے ذوق کی نظر۔


پہلی غزل سلیم کوثر کی


غزل

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا کبھی سچّا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

مری باتیں جیون سپنوں کی مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا مجھ سے آداب نہیں ہوتا

سلیم کوثر


اور دوسری غزل جمال احسانی کی

غزل

کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی
تری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی

سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی

ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات فضول نہیں ہوتی

ترے وصل کی آس بدلتے ہوئے ترے ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے
کب دل مصروف نہیں رہتا، کب جاں مشغول نہیں ہوتی

ہر رنگِ جنوں بھرنے والو، شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی

جمال احسانی


اور یہ بحر کون سی ہے یہ تو وارث بھائی ہی بتا سکیں گے۔ :)
۔

جمال احسانی کی دو خوبصورت غزلیں




جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا

بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا

بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر اُن آنکھو ں سے
اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

تمام آئینہ خانے کی لاج رہ جاتی
کوئی بھی عکس اگر بے مثال رہ جاتا

گر امتحانِ جنوں میں نہ کرتے قیس کی نقل
جمالؔ سب سے ضروری سوال رہ جاتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی

آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی

اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی

ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی

اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمال احسانی کی ستارۂ سفر سے انتخاب

عظمی جون کی ایک نظم



مرے دل سے لے کر
ترے سنگِ دل تک
گماں کی چٹاں
اور
حقیقت کی سل تک
جو آنکھوں سے میری
ترے کالے تل تک
بُنا تھا محبت کی مکڑی نے جالا
زمانے کے ہاتھوں نے
وہ تارِ الفت
یہاں سے وہاں تک
سبھی نوچ ڈالا
تو دونوں ہی دل اب رہا ہو چکے ہیں
چٹان اور سل بھی جدا ہو چکے ہیں
وہ آنکھیں وہ تل بھی فنا ہو چکے ہیں
وہ چاہت نہ جانے کدھر کو گئی ہے
وہ مکڑی بھی شاید کہیں کھو گئی ہے

عظمی جون