جانے کیا ہو گیا ہے کچھ دن سے

غزل

جانے کیا ہو گیا ہے کچھ دن سے
وحشتِ دل سوا ہے کچھ دن سے

لاکھ جشنِ طرب مناتے ہیں
روح نوحہ سرا ہے کچھ دن سے

ہے دعاؤں سے بھی گُریزاں دل
ربط ٹوٹا ہوا ہے کچھ دن سے

روح، تتلی ہو جیسے صحرا میں
اور آندھی بپا ہے کچھ دن سے

میں اُسے دیکھ تک نہیں سکتا
وہ مجھے تک رہا ہے کچھ دن سے

میں تو ایسا کبھی نہ تھا احمدؔ
یہ کوئی دوسرا ہے کچھ دن سے

محمد احمدؔ

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

غزل

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

احمد فراز

کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

غزل

سخن ہاے دل و جاں مر گئے کیا
کہو کچھ تو کہو ہاں مرگئے کیا

یہ کیا آٹھوں پہر چپ سی لگی ہے
وہ کچھ کہنے کے ارماں مر گئے کیا

جیے جاتے ہیں ہم اک دوسرے بن
ہمارے عہد و پیماں مر گئے کیا

یہ خاموشی تو اب رونے لگی ہے
وہ آنے والے طوفاں مرگئے کیا

یہ دل کیوں سینہ کوبی کر رہا ہے
یہ تم مجھ میں مری جاں مر گئے کیا

اسیرانِ خمِ زلفِ زمانہ
پریشاں تھے پریشاں مر گئے کیا

جو دن دھّمال کرتے آ رہے تھے
وہ رستے ہی میں رقصاں مر گئے کیا

کوئی تو دارسامانی کو آتا
گرانی میں سب ارزاں مر گئے کیا

میں ایسا کون زندہ ہوں کہ پوچھوں
کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

لیاقت علی عاصمؔ

اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

غزل

لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرا اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانا اپنا

طعنہء دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا

بول، اے بے سروسامانیء گلشن، کچھ بول
خلقتِ شہر طلب کرتی ہے حصّہ اپنا

یہ بھی کب تک کہ ہر آفت کا سبب ہے کوئی اور
منزلیں خود بھی تو گُم کرتی ہیں رستہ اپنا

ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں
ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

افتخار عارفؔ

تمھاری پارٹی میں، میں کہاں پر ہوں؟



ہمارے سیاستدانوں میں ایک جاوید ہاشمی کی شخصیت ایسی ہے جسے سب ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہیں بھی قابلِ قدر کیونکہ وہ ان گنے چنے سیاست دانوں میں سے ہیں جو مفاد پرستی کی سیاست میں نظریہ اور استقامت کی علامت ہیں۔ حال ہی میں جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ۔ ن چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شمولیت اخیتار کی ہے۔ جب جاوید ہاشمی سے اس بابت استفسار کیا گیا تو ہمیں توقع تھی کہ اس تبدیلی کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی نظریہ یا نظریاتی اختلاف ہی ہوگا لیکن توقع کے برخلاف انہوں نے کہا کہ مجھے نظرانداز کردیا گیا، مجھے پوچھا نہیں گیا، مجھے پس منظر میں دھکیل دیا گیا ۔ یہ بات مایوس کن سہی لیکن اپنے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے جاوید ہاشمی اب بھی بہت سے دوسروں سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔

باوجود یہ کہ تحریکِ انصاف اب تک ایک واضح نظریے کو لے کر چل رہی ہے اور عام لوگ اسے اس کی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ہی پسند کرنے لگے ہیں لیکن جتنے بھی بڑے رہنما تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے ہیں اُن کے پیشِ نظرعوامل میں نظریہ کہیں بھی موجود نہیں ہے اور یہ ایک انتہائی منفی رجحان ہے جو بعد میں اس جماعت کو بھی دوسری جماعتوں کی طرح نظریہ ضرورت کی تال پر رقص کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

دراصل ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کا بڑا فقدان ہے۔ یہاں رنگ، نسل ، زبان، علاقہ اور ہر طرح کی عصبیت پر سیاست کی جاتی ہے لیکن نظریہ پر نہیں کی جاتی۔ جب کبھی دو گروہ رنگ و نسل اور دیگر ایسی بنیاد وں پر آپس میں لڑتے ہیں تو ایسے میں دونوں ہی اپنی اپنی جگہ حق پر ہوتے ہیں اور دونوں ہی خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اگر یہی تفرقہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر ہو تو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی صحیح اور غلط کی تمیز کر سکتا ہے کیونکہ صرف نظریاتی جنگ ہی ایسی جنگ ہے جس میں حق و باطل کی تفریق کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مخالفتیں مختلف تعصبات کی وجہ سے ہوتی ہیں ان کا تعین ہی نہیں ہو پاتا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔

اب آخر میں ذکر اُن سیاسی جماعتوں کا جن میں بہت ہی معتبر اور تجربہ کار سیاست دان موجود ہیں لیکن یہ جماعتیں ان کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ننھے منے بچوں کو لاکر ان کے سر پر بٹھا دیتے ہیں۔ یہی کچھ مسلم لیگ۔ ن میں بھی ہوا اور ہو رہا ہے مسلم لیگ ۔ن جس کا تکیہ کلام ہی میثاقِ جمہوریت ہے اپنی پارٹی میں جمہوریت کو کوئی مقام دینے پر تیار نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی کے ہوتے ہوئے بھی شریف خاندان کے نوجوان آج پارٹی کے کرتا دھرتا ہوگئے ہیں ۔ یعنی وہی موروثی سیاست۔ موروثی پارٹی کے ذکر پر پپلز پارٹی کا نام تو خود بہ خود ہی ذہن میں آجاتا ہے اور پپلز پارٹی آج بھی اسی ڈگر پر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جماعتِ اسلامی ، جیسی بھی ہے لیکن واقعتاً ایک جمہوری جماعت ہے اور اس میں باقاعدگی سے کارکنان کو رائے کا حق بھی دیا جاتا ہے اور قیادت کی منتقلی بھی اسی اعتبار سے کی جاتی ہے۔

ہماری وہ تمام جماعتیں جو جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں ان کو چاہیے کہ وہ پہلے اندرونِ خانہ جمہوریت کا آغاز کریں اور پھر بعد میں جمہوریت کی بات۔ کیونکہ یہ
بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ

Charity begins at home.

جنوری پھر لوٹ آئی ہے - اعزاز احمد آذر

ہواؤں کے ہاتھ پیغام

وہی گلیاں وہی کوچہ وہی سردی کا موسم ہے
اسی انداز سے اپنا نظامِ زیست برہم ہے

یہ حسنِ اتفاق ایسا کہ پھیلی چاندنی بھی ہے
وہی ہر سمت ویرانی، اداسی، تشنگی سی ہے

وہی ہے بھیڑ سوچوں کی، وہی تنہائیاں پھر سے
مسافر اجنبی اور دشت کی پہنائیاں پھر سے

مجھے سب یاد ہے کچھ سال پہلے کا یہ قصہ ہے
وہی لمحہ تو ویرانے کا اک آباد حصہ ہے

مری آنکھوں میں وہ اک لمحہء موجود اب بھی ہے
وہ زندہ رات میرے ساتھ لاکھوں بار جاگی ہے

کسی نے رات کی تنہائی میں سرگوشیاں کی تھیں
کسی کی نرم گفتاری نے دل کو لوریاں دی تھیں

کسی نے میری تنہائی کا سارا کرب بانٹا تھا
کسی نے رات کی چنری میں روشن چاند ٹانکا تھا

چمکتے جگنوؤں کا سیل اک بخشاتھا راتوں کو
دھڑکتا سا نیا عنواں دیا تھا میرے خوابوں کو

مرے شعروں میں وہ الہام کی صورت میں نکلا تھا
معانی بن کے جو لفظوں میں پہلی بار دھڑکا تھا

وہ جس کے بعد گویا زندگی نوحہ سرائی ہے
"اُسے کہنا" کہ بھیگی جنوری پھر لوٹ آئی ہے

اعزاز احمد آذر ؔ کی " دھیان کی سیڑھیاں" سے انتخاب

چالیس سال بعد ۔۔۔


آج پھر سولہ دسمبر ہے ۔ وہی تاریخ جب آج سے چالیس سال پہلے پاکستان کا ایک حصہ ہم سے جدا ہوگیا تھا ۔

کہتے ہیں دنیا کی زیادہ تر لڑائیاں "شئرنگ" پر ہوتی ہیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ ہمارے اس وقت کے اربابِ اختیار اپنے اختیارت میں کسی کی شمولیت برداشت نہیں کر سکے اور نتیجہ وہ ہوا جس کی اُمید بھی نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ حقدار کو حق دینا انصاف کہلاتا ہے۔ ہمارے رہنمائے ملت بھی اگر انصاف سے کام لیتے تو شاید کبھی بھی یہ نوبت نہ آتی۔ اس تقسیم سے ہمیں ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ خود بنگلہ دیش کو بھی نقصان ہوا اور فائدے میں رہے وہ لوگ جو اتنے بڑے اسلامی ملک سے خوفزدہ تھے۔

بہر کیف بنگلہ دیش آج ہم سے بہتر ہے ۔ بنگلہ دیش ہر سال ہی سیلاب کی تباہی کا شکار رہتا ہے لیکن وہاں وہ تباہ کاری دیکھنے میں نہیں آتی جو ہمارے ہاں عمومی صورتِ حال میں نظر آتی ہے۔ آج بنگلہ دیش کی کرنسی مستحکم ہے اور مزید بہتر ہو رہی ہے۔ ہمارا روپیہ دن بہ دن پستیوں میں اُتر رہا ہے۔

آج سقوطِ ڈھاکہ کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن ہماری صورتِ حال آج بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ ہمارے ہاں آج بھی لوگ انصاف کو ترس رہے ہیں۔ ہم نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا سو آج اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یہ افسوس کی بات ہے لیکن زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی کوئی سبق سیکھنا نہیں چاہتے ۔