غزل : کسی سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی - حنیف اسعدی

غزل

کسی سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی
نہ دل نے دل کو ٹٹولا فضا ہی ایسی تھی

زبانِ درد سے لیکر دہانِ زخم تلک
کوئی بھی کھل کے نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

سُکوں کے در پئے آزار سب ہوئے لیکن
جنوں سے کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

ہوا چلی بھی تو ماحول کے رگ و پے میں
ہوا نے زہر ہی گھولا فضا ہی ایسی تھی

کہیں قریب مکانوں سے اُٹھ رہا تھا دھواں
دریچہ پھر بھی نہ کھولا فضا ہی ایسی تھی

برستی آنکھوں نے آنکھوں سے کچھ سوال کئے
کوئی بھی منہ سے نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

رسائی ہو بھی گئی وقت کی عدالت تک
وہاں بھی کوئی نہ بولا فضا ہی ایسی تھی

عجب ستم ہے کہ میزان خیر و شر میں‌ حنیفؔ
یقیں کو وہم میں تولا فضا ہی ایسی تھی

حنیف اسعدی

 

Hanif Asadi
حنیف اسعدی مشاعرہ پڑھتے ہوئے

نطم : گومگو ۔۔۔ گلزار

گَومَگو

نہ جانے کیا تھا، جو کہنا تھا آج مل کے تجھے
تجھے ملا تھا مگر جانے کہا میں نے
وہ ایک بات جو سوچی تھی تجھ سے کہہ دوں گا
تجھے ملا تو لگا، وہ بھی کہہ چکا ہوں کبھی
کچھ ایسی باتیں جو تجھ سے کہی نہیں ہیں مگر
کچھ ایسا لگتا ہے تجھ سے کبھی کہی ہوں گی
عجیب ہے یہ خیال و جنوں کی کیفیت
ترے خیال سے غافل نہیں ہوں تیری قسم
ترے خیالوں میں کچھ بھول بھول جاتا ہوں

گلزار


گلزار
Gulzar - Urdu Poet

بے وفائی کی مشکلیں

یوں تو امجد اسلام امجد صاحب کی سب نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن آپ کی یہ نظم بہت دلچسپ ہے اور روایتی شاعری سے کچھ مختلف ہے۔ اس میں امجد صاحب نے بے وفائی کی مشکلوں کا احاطہ کیا ہے کہ بے وفائی بھی اتنی آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے پہلے سے کچھ باتیں سوچ سمجھ لی جائیں۔ 😀


بے وفائی کی مشکلیں

 
 جو تم نے ٹھان ہی لی ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پیارے
وفا کی سیڑھیوں پر ہر قدم پھیلا ہوا
یہ آرزوؤں کا لہو ضائع نہ جائے گا
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نِکلو گے!
سِتارے، جن کی آنکھوں نے ہمیں اِک ساتھ دیکھا تھا،
گواہی دینے آئیں گے!
پرانے کاغذوں کی بالکونی سے بہت سے لفظ جھانکیں گے
تمہیں واپس بلائیں گے،
کئی وعدے، فسادی قرض خواہوں کی طرح رستے میں روکیں گے
تمہیں دامن سے پکڑیں گے،
تمہاری جان کھائیں گے!
چُھپا کر کس طرح چہرہ
بھری محفل سے نکلو گے!
ذرا پھر سوچ لو جاناں!
نکل تو جاؤگے شاید
مگر مشکل سے نکلو گے!
 
امجد اسلام امجد
  
Amjad Islam Amjad
Amjad Islam Amjad


مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے۔ سدھرشن فاکر

سدھرشن فاکر صاحب ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کے ایک بہت اچھے شاعر ہیں۔ آپ نے کئی ایک فلمی گیت لکھے ہیں تاہم آپ کے لکھے فلمی گیت بھی محض عامیانہ اور سوقیانہ نہیں ہیں بلکہ آپ کی شاعری میں جذبات و احساسات کی گہرائی موجود ہے اور آپ کے ہاں اظہار کا سلیقہ موجود ہے۔

سدھرشن فاکر صاحب کا ایک گیت جو میں نے بچپن میں سنا تھا اور مجھے پسند بھی رہا ہے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اُمید ہے آپ کو پسند آئے گا۔ ممکن ہے کہ یہ شاعری آپ کو قنوطیت زدہ لگے، تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان زندگی میں طرح طرح کی کیفیات و احساسات سے گزرتا ہے۔ زندگی کے ہر احساس ہر کیفیت کو سجا سنوار کر شاعری میں پیش کردینا بہرکیف ایک ہنر ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سدھرشن فاکر صاحب نے اس گیت میں اپنے ہنر کا حق ادا کردیا ہے۔ گیت ملاحظہ فرمائیے۔


مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

تو پوچھتا پھرے اُس کا پتہ بہاروں سے
جواب تک نہ ملے تجھ کو رہ گزاروں سے
ہر ایک موڑ پہ وہ تجھ کو بے قرار کرے

تو دشمنوں کی محبت میں دوستی ڈھونڈے
غموں کے شہر میں جیسے کوئی خوشی ڈھونڈے
ترا ستم کبھی تجھ کو بھی اشکبار کرے

ترے غرور کی نظریں جھکی جھکی سی رہیں
تیری اُمید کی شمعیں بُجھی بُجھی سی رہیں
اُسے تو پا نہ سکے کوششیں ہزار کرے

مری طرح تو کسی بے وفا سے پیار کرے
تجھے وہ دل سے بھلا دے تو انتظار کرے

سدھرشن فاکر

*****
 
سدھرشن فاکر
Sudharshan Faakir

 

اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے ۔ اسلم انصاری

 غزل
 
اپنی صدا کی گونج ہی تجھ کو ڈرا نہ دے
اے دل طلسم گنبد شب میں صدا نہ دے

دیوار خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے

گل کر نہ دے چراغ وفا ہجر کی ہوا
طول شب الم مجھے پتھر بنا نہ دے

ہم سب اسیر دشت ہویدا ہیں دوستو
ہم میں کوئی کسی کو کسی کا پتا نہ دے

سب محو نقش پردۂ رنگیں تو ہیں مگر
کوئی ستم ظریف یہ پردہ ہٹا نہ دے

اک زندگی گزیدہ سے یہ دشمنی نہ کر
اے دوست مجھ کو عمر ابد کی دعا نہ دے

ڈرتا ہوں آئنہ ہوں کہیں ٹوٹ ہی نہ جاؤں
اک لو سی ہوں چراغ کی کوئی بجھا نہ دے

ہاں مجھ پہ فیض میرؔ و فراقؔ و ندیمؔ ہے
لیکن تو ہم سخن مجھے اتنی ہوا نہ دے

 اسلم انصاری
 
Aslam Ansari
Aslam Ansari

 
 بشکریہ ذوالقرنین بھائی 


بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ ۔ شاذ تمکنت

  شاذ تمکنت صاحب کی ایک خوبصورت غزل ہم نے سن 2013ء میں رعنائی خیال پر پر لگائی تھی۔ آج شاذ صاحب کی ایک اور غزل قارئینِ بلاگ کے عمدہ ذوق کی نذر کی جا رہی ہے۔ اُمید ہے کہ آپ کو پسند آئے گی۔

غزل

بنا حُسنِ تکلّم، حُسنِ ظن آہستہ آہستہ
بہر صورت کُھلا، اِک کم سُخن آہستہ آہستہ

مُسافر راہ میں ہے شام گہری ہوتی جاتی ہے
سُلگتا ہے تِری یادوں کا بن آہستہ آہستہ

دُھواں دل سے اُٹھے چہرے تک آئے نور ہو جائے
بڑی مشکل سے آتا ہے یہ فَن، آہستہ آہستہ

ابھی تو سنگِ طفلاں کا ہدف بننا ہے کوچوں میں
کہ راس آتا ہے یہ دیوانہ پن آہستہ آہستہ

ابھی تو امتحانِ آبلہ پا ہے بیاباں میں
بنیں گے کُنجِ گل، دشت و دمن آہستہ آہستہ

ابھی کیوں کر کہوں زیرِ نقابِ سُرمگیں کیا ہے
بدلتا ہے زمانے کا چلن آہستہ آہستہ

میں اہلِ انجمن کی خلوتِ دل کا مغنی ہوں
مجھے پہچان لے گی انجمن آہستہ آہستہ

دلِ ہر سنگ گویا شمعِ محرابِ تمنّا ہے
اثر کتی ہے ضربِ کوہکن آہستہ آہستہ

کسی کافر کی شوخی نے کہلوائی غزل مجھ سے
کھلے گا شاذؔ اب رنگِ سخن آہستہ آہستہ

شاذ تمکنت

شاذ تمکنت
Shaz Tamkanat

 


 

غزل: کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟۔۔۔ قمر جلال آبادی

یہ دنیا بڑی رنگ برنگی ہے اور انسان کے لئے بڑی کشش رکھتی ہے۔ دنیا کی رونقیں ہمہ وقت انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ، لیکن کبھی کبھی انسان کی نظر دنیا کے اُس دوسرے رُخ پر بھی پڑتی ہےجہاں سے اس کی رونقیں بالکل ماند نظر آتی ہیں اور انسان ا س دنیا کی بے ثباتی پر سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ زیرِ نظر غزل میں محترم قمر جلال آبادی نے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے اور بہت خوبی سے کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

کر لوں گا جمع دولت و زر، اُس کے بعد کیا؟
لے لوں گا شاندار سا گھر ، اُس کے بعد کیا؟

مے کی طلب جو ہوگی تو بن جاؤں گا میں رِند
کر لوں گا میکدوں کا سفر ، اُس کے بعد کیا؟

ہوگا جو شوق حُسن سے راز و نیاز کا
کرلوں گا گیسوؤں میں سحر، اُس کے بعد کیا؟

شعر و سُخن کی خوب سجاؤں گا محفلیں
دُنیا میں ہوگا نام مگر، اُس کے بعد کیا ؟

موج آئے گی تو سارے جہاں کی کروں گا سیر
واپس وہی پرانا نگر ، اُس کے بعد کیا؟

اِک روز موت زیست کا در کھٹکھٹائے گی
بُجھ جائے گا چراغِ قمر ، اُس کے بعد کیا؟

اُٹھی تھی خاک، خاک سے مل جائے گی وہیں
پھر اُس کے بعد کس کو خبر ، اُس کے بعد کیا؟

قمر جلال آبادی