تبصرہ ٴکُتب | جب زندگی شروع ہوگی


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول ہے۔ اگر آپ نے یہ ناول نہیں پڑھا تو میری رائے یہ ہے کہ آپ بغیر کوئی اثر لئے اس ناول کو پڑھیے۔ بعد میں چاہیں تو یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس ناول کے بارے میں تجسس رکھتے ہیں تو پھر ہمارا تبصرہ حاضر ہے۔

کراچی ایکسپو سینٹر میں ہر سال کتابوں کی نمائش منعقد ہوا کرتی ہے اور ہم کم از کم ایک بار تو وہاں حاضری دے ہی دیتے ہیں۔ "جب زندگی شروع ہوگی" کا پہلا دیدار ہمیں کراچی ایکسپو سینٹر میں ایسی ہی ایک نمائش میں ہوا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہال کے داخلی دروازے پر دو تین لوگ اس کتاب کا ایک ایک نسخہ لیے ہر آنے جانے والے کو گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ہر ایک کو روک کر کہتے ہیں،کیا آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟

میری طبیعت کچھ ایسی ہے کہ میں اُن چیزوں سے کافی بیزار ہو جاتا ہوں جن کی بہت زیادہ مارکیٹنگ ہوتی نظر آتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ بھلا کوئی مجھ پر کوئی شے کیوں مسلط کرے۔ سو اپنی طبیعت کے باعث میں ہمشہ اس گروہ سے بچ کر نکل جاتا۔ پھر اُس کے بعد کہیں نہ کہیں اس کتاب کا دیدار ہوتا رہا کہ اکثر کتابوں کی دوکان پر یہ کافی نمایاں مقامات پر رکھی نظر آتی۔ اور میں اپنا پہلا تاثُّر لیے اسے نظر انداز کر دیتا۔

پھر ایک بار ہمارے ایک شفیق اُستاد نے ہم سے اس کتاب کا ذکر کیا اور بین السطور اس کی تعریف بھی کی۔ تب کہیں جا کر ہم نے اس کتاب کو فہرستِ مطالعہ میں جگہ دی۔ اور کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان دنوں ہم نے یہ کتاب پڑھ بھی لی۔


"جب زندگی شروع ہوگی" ایک ناول یعنی فکشن ہے۔ لیکن یہ عام فکشن نہیں ہے۔ دراصل مصنف نے اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی اُخروی زندگی کو ایک ناول کی صورت پیش کیا ہے۔ اس ناول کا آغاز ہی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے ہوتا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار عبداللہ نامی شخص ہے اور ناول کے تمام تر واقعات عبداللہ ہی کی زبانی بیان ہوئے ہیں۔ ناول میں حشر کے طویل ترین دن کا بیان ہے کہ کس طرح کے اعمال والوں کے ساتھ اُس دن کیا سلوک ہونا ہے۔ حشر کے دن کی سختیاں اور ہولناکیاں اس میں بتائی گئی ہیں ۔ حساب کتاب کیا ہوگا، کس طرح ہو گا۔حشر کا دن، اللہ کے انسانوں سے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کا دن، کیسا ہوگا۔ جس نے اللہ کے وعدوں کو سچ سمجھا، اُس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اور جس نے اللہ کے وعدوں اور وعید وں کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیاوی زندگی کو ہی سب کو کچھ سمجھ لیا، اُس کے ساتھ کیا ہوگا۔ پھر جنت اور جہنم کا بیان۔ جنت کے حسن و جمال اور عیش و آرام والی زندگی کا بیان اور جہنم کے بدترین حالات اور اہلِ جہنم کی مصیبتوں کا احوال اس تحریر میں موجود ہے۔ ساتھ ساتھ بین السطور اس بات کا بیان کہ کس طرح کی زندگی گزارنے والے کی آخرت کیسی ہوگی۔ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ نیّتوں کا کیا دخل ہوگا ، اور اللہ کی رحمت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بیان۔ غرض کہ ایک کوزے میں سمندر کو بند کر دیا گیا ہے اور وہ بھی دلچسپ کہانی کے پیرائے میں۔

گو کہ مسلمان یہ سب وعدے وعید کہیں نہ کہیں پڑھتا سنتا رہتا ہے لیکن یہ سب چیزیں اکثر کسی ایک جگہ نہیں ملتیں ۔ انسانی فطرت ہے کہ کہانی کی شکل میں چیزوں سے زیادہ اثر لیتا ہے سو یہ ناول ہم سب کو پڑھنا چاہیے۔

اس ناول پر کچھ لوگوں کو اعتراضات بھی ہیں ۔ اور اعتراضات کا ہونا بعید از قیاس ہرگز نہیں ہے کہ ان سنجیدہ موضوعات کو کہانی کی شکل دینے میں کئی ایک قباحتیں درپیش ہو سکتی ہیں۔ تاہم مصنف کا کہنا یہ ہے کہ اُس ناول میں تمام تر مندرجات اور واقعات نگاری کے لئے اُنہوں نے اسلامی تعلیمات کے اہم ترین ماخذ قران اور صحیح احادیث سے استنباط کی بھرپور کوشش کی ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے آپ کو کئی ایک احادیثِ مبارکہ اور قرانی آیات یاد آئیں گی جو اس بات کی دلالت ہے کہ یہ محض ایک فکشن نہیں ہے بلکہ مصنف نے اس کے مندرجات کی تحقیق میں کافی عرق ریزی سے کام لیا ہے۔

ناول کے بارے میں مصنف نے کچھ وضاحتیں آغاز میں اور کچھ ناول کے انجام پر پیش کی ہیں جس سے عمومی شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

شرعی اعتبار سے اس قسم کے ناول کی کیا حیثیت ہے میں اس حوالے سے کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں ۔ تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ ناول بڑی تاثیر رکھتا ہے اور پڑھنے والے کو خدا سے قریب کرتا ہے اور فکرِ آخرت کو مہمیز کرتا ہے۔

یہ اُن تمام تحریروں سے کہیں بہتر ہے کہ جو ہمیں فکشن کو حقیقت بنا کر سُناتی ہیں اور اس پر یقین کرنے کا مطالبہ بھی کرتی ہیں، اور ہم میں سے بہت سے سادہ لوح اُن پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔ تاہم یہ ناول ہے اور مصنف نے اسے بطورِ فکشن ہی پیش کیا ہے۔

اگر آپ اس ناول کی صنف کے متعلق تذبذب کا شکار ہیں تو میرے نزدیک اس کی مثال بچوں کی کہانیوں کی سی ہے کہ جو ہوتی تو فکشن ہی ہیں لیکن اُن میں دیا گیا اخلاقی سبق بالکل سچ ہوتا ہے ۔ شاید آپ نے بچپن میں اُس لکڑ ہارے کی کہانی سنی ہو کہ جس کی کلہاڑی دریا میں گر گئی اور ایک جل پری نے اُسے ایک چاندی کی کلہاڑی دکھائی کہ شاید یہ تمہاری کلہاڑی ہے۔ جس پر لکڑہارے نے منع کر دیا کہ یہ اُس کی کلہاڑی نہیں ہے۔ اُس کے بعد جل پری نے اُسے سونے کی کلہاڑی دکھائی اور اس بار بھی لکڑہارے نے انکار کر دیا ۔ اور جب تیسری بار جل پری نے اُسے اُس کی اپنی لوہے کی کلہاڑی دکھائی تو لکڑہارے نے کہا کہ ہاں یہی میری کلہاڑی ہے ۔ اور اس کے بعد اُس کی ایمانداری کے انعام کے طور پر جل پری نے اُسے سونے اور چاندی کی کلہاڑیاں بھی بطور تحفہ دے دیں۔ اب دیکھا جائے تو یہ خالص فکشن ہے لیکن ایمانداری کا سبق اپنی جگہ مسلم ہے اور ہماری توقع ہوتی ہے کہ بچے اس قسم کی کہانیاں سن کر ایمانداری سیکھیں۔

بہرکیف ایک کتاب کے تبصرے کی مد میں اتنا کہنا کافی ہے۔ آپ اپنی رائے کتاب پڑھ کر قائم کر سکتے ہیں۔ آخر میں ایک مشورہ ہماری طرف سے یہ ہے کہ اگر اس کتاب میں پیش کیے جانے والا کوئی خیال یا تصور آپ کے لئے نیا ہو یا چونکا دینے والا ہو تو اِ سے ایک دم قبول یا رد نہ کریں بلکہ تھوڑی سی تحقیق کریں جس سے آپ کی بھرپور تشفی ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ہدایت عطاء فرمائے اور دُنیا میں اور بالخصوص آخرت میں کامیابی سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔

پش نوشت: اگر آپ یہ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کو با آسانی بک اسٹال سے مل جائے گی اور اگر آپ اس کی پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کرنا چاہتے ہیں تو اس ربط سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔

******


نظم : ڈیجیٹل فوٹو


زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں


نوید رزاق بٹ

 


 

فاطمہ حسن کی دو خوبصورت غزلیں

غزل

زمیں سے رشتۂ دیوار و در بھی رکھنا ہے
سنوارنے کے لیے اپنا گھر بھی رکھنا ہے

ہوا سے آگ سے پانی سے متصل رہ کر
انہیں سے اپنی تباہی کا ڈر بھی رکھنا ہے

مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

یہ کیا سفر کے لیے ہجرتیں جواز بنیں
جو واپسی کا ہو ایسا سفر بھی رکھنا ہے

ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو
سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے

ہوا کے رخ کو بدلنا اگر نہیں ممکن
ہوا کی زد پہ سفر کا ہنر بھی رکھنا ہے

نشان راہ سے بڑھ کر ہیں خواب منزل کے
انہیں بچانا ہے اور راہ پر بھی رکھنا ہے

جواز کچھ بھی ہو اتنا تو سب ہی جانتے ہیں
سفر کے ساتھ جواز سفر بھی رکھنا ہے

****
 

کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا
جو اک الاؤ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا

جسے بھی دیکھو چلا جا رہا ہے تیزی سے
اگرچہ کام یہاں کچھ نہیں ہے عجلت کا

دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

یقین کرنے لگے لوگ رت بدلتی ہے
مگر یہ سچ بھی کرشمہ نہ ہو خطابت کا

سنوارتی رہی گھر کو مگر یہ بھول گئی
کہ مختصر ہے یہ عرصہ یہاں سکونت کا

چلو کہ اس میں بھی اک آدھ کام کر ڈالیں
جو مل گیا ہے یہ لمحہ ذرا سی مہلت کا

فاطمہ حسن


اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا

یہ کلام ہم نے آج فیس بک کے ایک ادبی گروپ پر پڑھا۔ اچھا لگا سو بعد از تحسینِ کلام ہم اس کلام کو نقل کر کے یہاں لے آئے تاکہ قارئینِ رعنائیِ خیال بھی اس سے محظوظ ہو سکیں۔ 

اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا
عربی نے اس کو خاص ترابی بنا دیا

اہلِ زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل
پنجابیوں نے اس کو گلابی بنا دیا

دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک
اور لکھنئو نے اس کو نوابی بنا دیا

بخشی ہے کچھ کرختگی اس کو پٹھان نے
اس حسنِ بھوربن کو صوابی بنا دیا

باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب
یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنا دیا

قسمت کی بات آئی جو تو رانیوں کے ہاتھ
سب کی نظر میں اس کو خرابی بنا دیا

حرفِ تہجی ساری زبانوں کے ڈال کر
اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا

ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین
اتنا بہت ہے اس کو نصابی بنادیا

سید معین اختر نقوی


منقول از ادبیات - فیس بک

نظم: وہیں تو عشق رہتا ہے ۔۔۔ از ۔۔۔ ظہیر احمد ظہیر

 
ظہیر احمد ظہیر بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔ لیکن قادر الکلام شاعر کے لئے کسی بھی صنف میں کوئی بھی خیال نظم کرنا دشوار نہیں ہوتا۔ یوں بھی جو شعراء کبھی کبھی نظم کہتے ہیں اُن کی نظمیں اکثر بہت خوب ہوتی ہیں۔ ظہیر احمد ظہیر صاحب کی یہ نظم اس بات پر مزید دلالت کرتی ہے۔ یہ نظم رومانوی مزاج رکھتی ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو کم از کم تخیلاتی سطح پر رومانی فضا کی ضرورت ہے۔

 

وہیں تو عشق رہتا ہے


جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں غم گیت گاتے ہیں ، جہاں ہر درد ہنستا ہے
وہیں ہے گھر محبت کا ، وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے
سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے
ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر
شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے
جہاں اقرار وپیماں کے گھنے شیشم تلے سورج
نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے
جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ
کسی کی نظم لکھتا ہے ، کسی کے شعر کہتا ہے

اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے
تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے
تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر
قریب آکر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے
دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے
" یہ غم میری امانت ہے ، تم اِس سے ہار مت جانا
تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں کوئی نہیں بستا ، جہاں کوئی نہیں رہتا"

پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا
بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو
فضا میں جیسے بکھری ہو ، ہوا جیسے مہکتی ہو
تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے
ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں ، ذرا سی دور خوابوں سے
منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی
کا اک آئینہ بہتا ہے
وہیں تو گھر ہمارا ہے ، وہیں تو عشق رہتا ہے
وہیں تو عشق رہتا ہے



ظہیؔر احمد

 


 

تبصرہ ٴکُتب | پیاری زمین - پرل بک / اختر حسین رائے پوری


'پیاری زمین' مشہور امریکی مصنفہ مسز پرل بک کے ناول گُڈ ارتھ (Good Earth) کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مصنفہ کو نوبل پرائز دیا گیا اور یہ ناول بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مصنفہ ایک امریکی خاتون ہیں لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزرا اور اس ناول کے کردار و واقعات بھی چینی دیہاتی زندگی کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ مصنفہ پرل بک 1892ء میں پیدا ہوئیں اور 1934ءتک زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزارا۔ اسی اثناء میں انہوں نے بیسوی صدی کے چین کی دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہی یہ ناول رقم کیا۔


کتاب میں کل 476 صفحات ہیں ۔ جس میں سے 28 صفحات تعارف پر مبنی ہیں ۔ جس میں چین کے اس دور کے حالات ذکر ہیں کہ جب ناول نگاری کو مشاہیرِ ادب حقیر جانتے تھے اور اسے کسی بھی طرح ادبِ عالیہ کا درجہ دینے پر راضی نہیں تھے۔ تعارف میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ چین میں ناول نگاری کا ارتقاء کس طرح ہوا۔ چین کی عوام میں قصہ کہانیوں کا رواج بہت عام تھا ۔ یہی قصہ کہانیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے ناولز کا روپ دھار گئیں ۔

گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری پاکستان کے نامور ترقی پسند نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم تھے ۔

ڈاکٹر صاحب نے ناول کا ترجمہ بہت احسن طریقے سے کیا ہے اور بامحاورہ ،شستہ و نستعلیق اردو سے مزین یہ ناول کسی بھی طرح اردو دان طبقے کے لئے اجنبی معلوم نہیں ہوتا۔

میرے جیسے قاری کے لئے کہ جو عدیم الفرصتی اور سہل پسندی کے باعث سب سے پہلے کسی بھی کتاب کے صفحات گنا کرتا ہے ، چار ساڑھے چار سو صفحات کا ناول پڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ تاہم ناول اس قدر رواں ہے کہ قاری کو ہرگز گراں نہیں گزرتا۔ حالات و واقعات اس طرح باہم پیوست ہیں کہ قاری کہانی کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی انجام تک اُسے اپنے ساتھ ساتھ چلاتی ہے ۔

ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو قریب سے دکھایا گیا ہے جس نے انتہائی غربت میں اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک باندی سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد مستقل محنت سے اپنی زمینوں میں اضافہ کرتا گیا۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمیندار بنتا گیا۔ناول بار بار یہ باور کرواتا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے اور وہ لوٹ پھیر کر اپنی زمین کی طرف ہی آتا ہے۔

ناول کا سب سے اہم حصہ وہ ہے کہ جس میں تاریخی قحط کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوئے ۔ یہاں تک کے اُنہیں بھیک مانگ کر بھی گزارا کرنا پڑا۔ قحط کی ہولناکی سمجھنا آج کے انسان کے لئے دشوار ہے ۔ وہ اس بات کا ٹھیک طرح ادراک نہیں کر سکتا کہ کس طرح اناج کے چند دانے انسان کے لئے ہر چیز اور ہر رشتے سے زیادہ مقدم ہو سکتے ہیں۔

کسان وانگ لنگ نے عروج و زوال کے کئی ایک زمانے دیکھے اور آخر کار وہ ایک بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ ناول ہمہ وقت کئی ایک ذیلی موضوعات میں بھی گھرا رہتا ہے کہ جن میں انسانی فطرت، غربت کے مسائل، امارت کے ساتھ در آنے والی خرابیاں شامل ہیں ۔ مزید براں اس ناول کی کہانی انسانی زندگی کی ذاتی اور سماجی نفسیات سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔

یہ ناول پڑھ کر آپ یہ تو شاید نہ کہیں کہ یہ آپ کے پڑھے ہوئے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک یادگار ناول ہے۔ اور اردو دان طبقے کے لئے اس میں مصنفہ کے ساتھ ساتھ مترجم کی محنت بھی شامل ہے۔

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے ۔ جمال احسانی

غزل

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے

نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے

یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے

تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے

جمال احسانی

 

 انور مقصود، افتخار عارف اور جمال احسانی ۔ دائیں سے بائیں