سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے، ہم اپنے کام سے
نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل، سیٹیاں بجا
شاید کوئی چراغ اُتر آئے بام سے
غصّے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے
میں بھی بھرا ہُوا ہوں بہت انتقام سے
دشمن ہے ایک شخص بہت، ایک شخص کا
ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے
میرے تمام عکس مرے کرّ و فر کے ساتھ
میں نے بھی سب کو دفن کیا دھوم دھام سے
مجھ بے عمل سے ربط بڑھانے کو آئے ہو
یہ بات ہے اگر، تو گئے تم بھی کام سے
ڈر تو یہ ہے ہوئی جو کبھی دن کی روشنی
اُس روشنی میں تم بھی لگو گے عوام سے
جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ
میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے
****
پھول زمین پر گرا، پھر مجھے نیند آگئی
دُور کسی نے کچھ کہا، پھر مجھے نیند آگئی
ابر کی اوٹ سے کہیں، نرم سی دستکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کُھلا، پھر مجھے نیند آگئی
رات بہت ہوا چلی، اور شجر بہت ڈرے
میں بھِی ذرا ذرا ڈرا، پھر مجھے نیند آگئی
اور ہی ایک سمت سے، اور ہی اک مقام پر
گرد نے شہر کو چُھوا، پھر مجھے نیند آ گئی
اپنے ہی ایک رُوپ سے، تازہ سخن کے درمیاں
میں کسی بات پر ہنسا، پھر مجھے نیند آگئی
تُو کہیں آس پاس تھا، وہ ترا التباس تھا
میں اُسے دیکھتا رہا، پھر مجھے نیند آگئی
ایک عجب فراق سے، ایک عجب وصال تک
اپنے خیال میں چلا، پھر مجھے نیند آگئی
رئیس فروغ