زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا
آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کُوچ کر گیا کب کا
دکھ کا لمحہ ازل ابد لمحہ
وقت کے پار اتر گیا کب کا
اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے
ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا
نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی
پر وہ ظالم اتر گیا کب کا
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں؟
دل میری جاں، مر گیا کب کا
*****
اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں
خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں
کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
میں جُرم کا اعتراف کر کے
کچھ اور ہے جو چھُپا گیا ہوں
میں اور فقط اسی کی تلاش
اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں
رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں
پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں
اے شخص! میں تیری جستجو میں
بےزار نہیں ہوں، تھک گیا ہوں