اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں ۔ قمر جمیل

غزل

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں

تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں

پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اُٹھا رکھے ہیں آئینے میں

میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل
اور کچھ لوگ چھپارکھے ہیں آئینے میں

قمر جمیلؔ

قمر جمیل کی دو خوبصورت غزلیں


قمر جمیل پاکستان کے معروف نقاد، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید رجحانات کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے "خواب نما" اور "چہار خواب" شائع ہوئے ۔ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ "جدید ادب" کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا ۔ انہوں نے "دریافت" کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔

قارئینِ بلاگ کے ذوق کے لئے قمر جمیل کی دو غزلیں پیشِ خدمت ہے۔

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے

اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے

کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے

✿✿✿✿✿✿✿

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے

اس کے قدم سے پھول کھلے ہیں میں نے سنا ہے چار طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے

تنہائی میں دل کا سہارا ایک ہوا کا جھونکا تھا
وہ بھی گیا ہے سوئے بیاباں اس کا آنا مشکل ہے

شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے ایک پری کل آئی تھی
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے

قمر جمیل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے ۔ اقبال عظیم

غزل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبحِ فردا کی کِرن بھی نہ جہاں تک پہنچے

میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے

بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
اس سے پہلے کہ یہی بات زبان تک پہنچے

تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے

آج پندارِ تمنّا کا فسُوں ٹُوٹ گیا
چند کم ظرف گِلے نوکِ زبان تک پہنچے

اقبال عظیم

بشکریہ تابش صدیقی بھائی

پاپ کورن کی خوشبو


ابھی میں مغرب پڑھ کر مسجد سے نکلا ہی تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد پاپ کورن کی بھینی بھینی خوشبو آنے لگی۔ پاپ کورن چاہے آپ کو کھانے میں اتنے اچھے نہ لگیں لیکن اس کی خوشبو ایسی ہوتی ہے کہ یہ دور سے ہی آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے یا شاید ہر اچھی خوشبو کا یہی حال ہوتا ہے۔

میں کچھ کھانے پینے کے موڈ میں تو نہیں تھا لیکن پھر بھی بے اختیار پاپ کورن والے کے پاس پہنچ گیا۔ میں نے دس روپے نکال کر اُس کی طرف بڑھائے تو مجھے خیال آیا کہ شاید یہ پاپ کارن والا کہے کہ بھائی کم از کم بیس روپے کے لو۔ لیکن اُس نے ایسا کچھ نہیں کہا اور ایک کاغذ کا لفافہ نکال کر اُس میں پاپ کورن ڈالنے لگا۔ لفافہ زیادہ چھوٹا نہیں تھا بلکہ دس روپے کے اعتبار سے کافی مناسب ہی تھا۔ اُس نے دو تین بار لفافے میں پاپ کورن ٹُھونسنے کی کوشش کی اور اُوپر تک بھرنے لگا۔


مجھے حیرت ہوئی کہ آج کل تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ بس پیسے لے لیں اور چیز ہی نہ دیں یا دیں بھی تو کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار دیں۔ پھل والے اور سبزی والے اس زور سے تھیلی ترازو میں پھینکتے ہیں کہ ترازو کا پلڑ ا جھکنے کے بعد اُٹھنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا اور اکثر دوکاندار ترازو کے قرار میں آنے سے پہلے ہی تھیلی اُٹھا کر آپ کے ہاتھ میں پکڑ ا دیتے ہیں۔ حد تو یہ کہ کچھ بے ایمان لوگ تو ترازو میں ہی کچھ نہ کچھ ایسی ترتیب کرتے ہیں کہ وزن میں کمی کی جا سکے۔ پھر چیز کے معیار میں بھی ہیر پھیر کرتے ہیں آگے والی ڈھیری میں تر و تازہ پھل لگا دیتے ہیں اور پیچھے سے گلے سڑے اُٹھا کر تولنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اگر آپ خریداری کرتے ہوئے ہوشیار نہیں ہیں تو زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ آپ خراب چیزیں اُٹھا کر گھر لے آتے ہیں۔

بہرکیف میں نے پاپ کورن والے سے کہا کہ "بھائی ! زیادہ مت بھرو مجھے اکیلے ہی کھانا ہے" تو وہ کہنے لگا کہ " اللہ کا فرمان ہے کہ پورا تولو!" اور پھراُس نے لفافہ اوپر تک بھر کر مجھے تھما دیا۔ مجھے بڑی خوش گوار حیرت ہوئی۔ آج کل کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ۔

مجھے لگا کہ جیسے پاپ کورن کی خوشبو کے ساتھ اُس کے اخلاص کی خوشبو بھی فضا میں پھیلی ہوئی تھی جو لوگوں کو ہاتھ پکڑ کر اُس تک کھینچ لاتی تھی۔

انور شعور کا شعر یاد آگیا:

براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچے لوگ
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں


از محمد احمدؔ

دُکھ وہ سرسوں کہ ہتھیلی پہ جمائی نہ گئی ۔ راحیل فاروق

ہمارے بہت ہی عزیز دوست راحیل فاروق کی لاجواب غزلوں میں سے ایک شاہکار! قارئینِ رعنائیِ خیال کی نذر:

غزل

سات پردوں سے تری جلوہ‌نمائی نہ گئی
دیکھ لی ہم نے وہ صورت جو دکھائی نہ گئی

داستاں ہجر کی کچھ یوں بھی ہوئی طولانی
سنی ان سے نہ گئی ہم سے سنائی نہ گئی

کیا ہوا دل کے سمندر کا تلاطم جانے
ایک مدت سے تری یاد نہ آئی نہ گئی

ذکر اچانک ہی چھڑا اور قیامت کا چھڑا
مسکرایا نہ گیا بات بنائی نہ گئی

درد مندی نے کیے فاصلے آفاق کے طے
آہ پہنچی ہے جہاں آبلہ پائی نہ گئی

فرقتوں کی یہی دیوار بلا ہے یا رب
کل اٹھائے نہ اٹھی آج گرائی نہ گئی

دل وہ بھنورا ہے کہ نچلا نہیں بیٹھا دم بھر
دکھ وہ سرسوں کہ ہتھیلی پہ جمائی نہ گئی

دل سلگتا ہی رہا آنکھ برستی ہی رہی
ایک چنگاری ہی ساون سے بجھائی نہ گئی

عشق میں حسن ہے یا حسن میں ہے عشق نہاں
وہ نظر مجھ سے پلٹ کر سوئے آئینہ گئی

دل کے آنے ہی میں چیں بول گئے راحیلؔ آپ
اتنی تکلیف بھی حضرت سے اٹھائی نہ گئی

راحیل فاروق


غزل۔ اپنے خونِ وفا میں نہائے ہوئے زخم اپنے بدن پر سجائے ہوئے ۔ اعجاز رحمانی

غزل

اپنے خونِ وفا میں نہائے ہوئے زخم اپنے بدن پر سجائے ہوئے
قاتلوں سے کہو اب نہ زحمت کریں ہم صلیب اپنی خود ہیں اُٹھائے ہوئے

ہر زباں بے سُخن، ہر جبیں پر شکن وحشتِ رقص میں انجمن انجمن
اتنا غمناک ماحول ہے شہر کا اک زمانہ ہوا مُسکرائے ہوئے

معتبر کیا ہے اور کیا ہے نا معتبر، اپنا اپنا خیال اپنی اپنی نظر
لوگ کانٹوں سے بچتے ہیں گلزار میں، ہم گلوں سے ہیں دامن بچائے ہوئے

ایک کیا سو نشیمن ہوں میرے اگر، وہ بھی قربان گلزار کے نام پر
آشیاں کا مجھے غم نہیں ، غم یہ ہے، پھول شعلوں کی زد میں ہیں آئے ہوئے

سطحِ دریا ہے چشمِ تماشائی میں، جھانکتا کون ہے دل کی گہرائی میں
اشک آنکھوں میں اس طرح محفوظ ہیں، جیسے موتی صدف ہو چھپائے ہوئے

رہگزاروں کے سب نقش معدوم ہیں، پیڑ ہیں بھی تو سائے سے محروم ہیں
جن کو آتا ہے شیشہ گری کا ہنر، سنگ ہاتھوں میں ہیں وہ اُٹھائے ہوئے

ساغرِ شب کو لبریز کر دیں گے ہم، صبح کو رنگ آمیز کر دیں گے ہم
ضد پہ قائم ہیں اپنی ہوائیں اگر، مشعلِ جاں ہیں ہم بھی جلائے ہوئے

ہے اسی شہر کا نام شہرِ طرب، لوگ بھی ہیں عجب، شہر بھی ہے عجب
پیار ہونٹؤں پہ ہے، پھول ہاتھوں میں ہے، آستیں میں ہیں خنجر چھپائے ہوئے

دل کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں گے ہم، اب فریبِ تبسم نہ کھائیں گے ہم
زندگی بھر کا اعجازؔ ہے تجربہ ، دوست دشمن ہیں سب آزمائے ہوئے

اعجاز رحمانی


بشکریہ : فلک شیر بھائی

کاپی پیسٹ اسپیشل

کرنل محمد خان کی ایک شاہکار تحریر

رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گر قد و گیسو تھی۔

پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا:

"تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟"

اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟"

لیکن سچی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیئے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

" جی ہاں، نیا تو ہوں ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں"

"اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟"

"یہی کہ عارضی ہوں"

"تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں"

رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا:

"آپ دیون غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟"

"جی ہاں! اور خود غالب کو بھی،"

"میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟:

"آپ ذرا آسان اردو بولیئے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟"

"عتاب غصے کو کہتے ہیں۔"

"غصہ؟ ہاں غصہ اس لئے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟:

"اس لئے کہ لوگ پڑھ کر لذت اور سرور حاصل کریں"

"نہیں جناب۔ اس لئے کہ ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں"

"محترمہ۔ میری دلچسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمایئے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟"

جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

میں نے کہا:

"یہ تو بڑی لا جواب غزل ہے ذرا پڑھیئے تو۔"

"میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں ۔ میرے پڑھنے سے اس کی لا جوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے"

مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔ میں نے کہا:

"میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا"

رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچہ پڑھتا ہے۔

" یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔ ۔۔۔ ۔"

میں نے ٹوک کر کہا:

"یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔"

رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

رضیہ بولی:
"اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟"

"وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پر مصرع پڑھیں۔"

رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

"وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔"

"اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟"

"یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔"

"تو سیدھا سادا وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟"

"اس لئے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔"۔۔۔ ۔۔۔ یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟"

" علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔"

"اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟"

"شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔"

"قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا"

"جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔"

"کیا وجہ؟"

"میں کیا کہہ سکتا ہوں؟"

"کیوں نہیں کہہ سکتے ۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔"

"شاعر خود خاموش ہے۔"

"تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟"

" جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔"

رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

میں نے رضیہ کی دلجوئی کے لئے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا:

"شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔"

"اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنی بتادیں۔"

ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا:

"مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔"

" توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟"

گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔ غالب ایک عظیم شاعر تھے۔"

"شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے"

بشکریہ