منہ دھو رکھیے [فیس واش کی فسوں کاریاں]

منہ دھو رکھیے
فیس واش کی فسوں کاریاں​


از ۔۔۔ محمد احمدؔ​

منہ دھو رکھنے کا مشورہ زندگی میں کبھی نہ کبھی آپ کو بھی ضرور ملا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اسے مشورہ سمجھا ہی نہ ہو۔ اگر سمجھا ہوتا تو طبیعت کے ساتھ ساتھ چہرے کی جلد بھی صاف ہو جاتی۔ لگے ہاتھ چہرے کا نکھار ، طعنے کی پھٹکار کو کچھ مندمل بھی کر دیتا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ سمجھ بڑی چیز ہے اور سمجھداری اُس سے بھی زیادہ ۔کم از کم تعداد ِ حروف کی بنیاد پر۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اکثر لوگ بغیر مشورے کےہی منہ دھو رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے لئے بڑے جتن بھی کرتے ہیں۔ جتن کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کاسمیٹکس والے یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا چکے ہیں کہ خوبصورت لگنا آپ کا حق ہے۔ خوبصورت ہونے کو آپ کا حق کہنے سے اُنہوں نے بھی گریز کیا کہ یہ آسمان سے دشمنی مول لینے والی بات ہے۔

پہلے زمانے میں خوبصورتی کے معیار اور تھے۔ پہلے زیادہ تر وہی لوگ خوبصورت نظر آتے تھے جو خوبصورت ہوتے بھی تھے اور اُنہیں اس کے لئے بہت زیادہ جتن بھی نہیں کرنے پڑتے تھے۔ لیکن اب اور سے اور ہوئے 'حُسن' کے عنواں 'پیارے'!


پہلے زمانے میں منہ دھونے کا کام زیادہ تر خواتین ہی کیا کرتی تھیں اور مرد حضرات یہ کہہ کر کہ 'شیروں کے بھی کبھی منہ دُھلتے ہیں'، اپنی کاہلی پر بہادری کا پردہ ڈال دیا کرتے تھے۔ خواتین بھی منہ دھونے کا کام کپڑے دھونے کے صابن سے ہی لے لیا کرتی تھیں ۔ یعنی کپڑے دھونے کے بعد اُسی صابن سے منہ بھی دھو لیا کرتیں۔ سیدھے سادھے صابن میل کو اُتار پھینکتے اور اُن کی رنگ کاٹنے کی صلاحیت خواتین کی فئیر نیس کو جلا بخشتی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

تاہم جیسے جیسے آسماں رنگ بدلتا ہے زمین والے بھی رنگ ڈھنگ بدلتے رہتے ہیں۔ صابن کی جگہ فیس واش نے لے لی اور رنگ کاٹ کی جگہ فئیرنیس کریم نے ۔ یعنی اب جس صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں اُسی سے منہ بھی دھو لینا نری جہالت سمجھا جانے لگا۔ اب آپ سر پر شیمپو لگائیں گے منہ پر فیس واش، ہاتھوں پر ہینڈ واش اور یوں آپ کے اور سرمایہ داروں کے بیچ مالی عدم توازن کاتوازن برقرار رہنے کی سبیل ہو سکےگی۔

رواں سال جب ہماری عمر رواں کو دائمی اسیری سے روشناس کرانے کی تقریبات درپیش تھیں تو ہمیں بھی یہ مشورہ دیا گیا کہ اپنا خیال رکھیے اور خود کو تھوڑا خوش وضع بنانے کی کوشش کریں۔ اگر ہمارے ساتھ یہ مسئلہ درپیش نہ ہوتا تو شاید ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ لوگ ایک مدتِ طویل و بسیط سے ہمیں خوش وضع سمجھنے سے عاری ہیں اور اب بھی جس مَرے دل سے یہ مشورے دیے جا رہے ہیں تو اس سے گمان ہوتا کہ انہیں اپنی اُمیدوں کے بر آنے کی کوئی خاص اُمید بھی نہیں ہے۔

اُمید تو ہمیں بھی کوئی خاص نہیں تھی لیکن اس خیال سے کہ کہیں سیاہ و سفید کے مطلق تضاد سے لوگوں کی طبیعت ہی مکدر نہ ہو جائے، ہم نے خود کو کسی نہ کسی طرح راضی کیا کہ روز کے چار چھ دقیقے فروگزاشت ہونے سے بچا لیں اور اس سلسلے میں صرف کر دیے جائیں تاکہ اپنے چہرے کو چہرہ انور میں ڈھال کر سزاوارِ نمائش بنایا جا سکے۔ سزاوار کی سزا کو ہر دومعنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔

سچ پوچھیں تو فیس واش سے یہ ہمارا پہلا تعارف نہیں تھا۔ اول اول جب ہم اس جہانِ حسن افروز سے روشناس ہوئے تو جو پہلا فیس واش ہم نے استعمال کیا وہ ایسا تھا کہ گویا ہم نے چہرے پر موبل آئل مل لیا ہو اور اُس کی چکنائی کو دھونے کے لئے نئے بونس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ کافی دیر چہرہ رگڑنے کے بعد احساس ہوتا کہ یہ تو کولھو کے بیل کی طرح چلتے رہنے جیسا معاملہ ہے یعنی اگر ساری زندگی چہرہ رگڑتے رہیں تو بھی ضرورت تمام نہیں ہوگی۔ تاہم اُن دنوں چونکہ معاملہ اتنا گھمبیر نہیں تھا سو ہماری کاہلی اور غیر مستقل مزاجی نے آڑے آ کر فیس واش کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیے اور یوں ہمارا چہرہ چکنا گھڑا بنتے بنتے رہ گیا۔

تاہم اس بار ہم نسبتاً سنجیدہ تھے سو بھول چوک کے عفریت کو ہردوسرے تیسرے روز قابو کر ہی لیتے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی سعی میں لگ جاتے۔

اس بار ہم نے کچھ دوسرے برانڈز آزمانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اندازہ ہوا کہ :


ع۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

اور


ع۔ ملے نہیں ہیں جو 'برانڈ' اُن کی مہربانی ہے۔

خیر ! سیاہ کو سفید کرنے کی اس نئی مہم میں جو پہلا فیس واش ہم نے استعمال کیا وہ اپنی طبعیت میں بڑا سفاک ثابت ہوا۔ اسے لگا کر یوں گمان ہوتا کہ جیسے اس میں ریت کی کنکریاں سی ملائی ہوئیں ہیں جو جلد میں جا بجا چھوٹے چھوٹے گڑھوں کی تخلیق کا کام کرتی ہیں اور ہمارے چہرے کے سیاہ خلیوں کو میل سمجھ کر نسبتاً کم سیاہ خلیوں سے الگ کرنے کا کام کرتی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس فیس واش کی خدمات میسر ہوں تو ریشمی کپڑے سے اسکاچ برائٹ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی سی کنکریوں سے چہرے کو چھلنی کر دینے والے اس فیس واش کا کام اتنا ہی تھا کہ بے تحاشہ روزن ہمارے چہرے کی جلد میں بنادے اور ہمارا باطنی نور اِن روزنوں سےجھانک جھانک کر چہرے کو تابناک بنا دے۔ اُن دنوں یہ خیال بھی آیا کہ جن کا اندروں تاریک تر ہوتا ہوگا اُن کے چہرے کے روشن ہونے کی کیا سبیل بنتی ہوگی۔ یقنیاً حلق میں چائنا کی چھوٹی والی ٹارچ رکھ کر گھومنے کے علاوہ تو کوئی حل نہیں ہوگا۔

اگلا فیس واش سفاک نہیں تھا بلکہ کافی حد تک عیب پوشی کرنے والا تھا ۔ یوں گماں ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے ٹالکم پاؤڈر کو پانی میں گھول کر پیش کر دیا ہو۔ یعنی چہرے کی جلد جیسی بھی ہو اُوپر اُوپر سفیدی کا لیپ کر دیا جائے۔ اِسے آپ طنزاً کاسمیٹک تبدیلی بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ فی الواقعہ کاسمیٹک تبدیلی ہی تھی۔

کافی بعد میں ہمیں یہ عقل آئی کہ یہ دونوں فیس واش ایک ساتھ بھی تو استعمال کیے جا سکتے ہیں۔یعنی اول الذکر چہرے میں گڑھے کھودنے کے لئے اور ثانی الذکر اُن گڑھوں کو سفیدےسےبھرنے کےلئے۔ لیکن ناتجربے کاری کے باعث شروع شروع میں ہم نے یوں کیا کہ دوسرا فیس واش دھونے میں کچھ زیادہ محنت کرلی ۔ جس سے ہوا یوں کہ اوپر اوپر سے سفیدی دُھل گئی اور صرف پہلے فیس واش کے تیار کردہ گڑھوں میں باقی رہ گئی۔ اب چہرہ کچھ ایسا ہوگیا کہ جیسے کسی جلے ہوئے بیکری والے بن پر جا بجا سفید تل چپکے نظر آ رہےہوں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پتہ نہیں اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ہمارے منہ پر کچھ رونق آئی بھی یا نہیں ۔ تو ہم کہیں گے کہ ہم کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اتنے تجربات کرکے ہم تو کافی شش و پنج بلکہ کسی حد تک ہشت و ہفت کا شکار ہوگئے تھے۔ رہے وہ لوگ جن سے ہم نے اپنی اس مشقت اور اُس کے حاصل حصول کے بارے میں رائے لی تو اُن میں دو طرح کے لوگ ملے ایک وہ جو منہ دیکھے کی تعریف کرنے لگے اور دوسرے وہ جو محض ہمارا منہ دیکھ کر چپ ہو گئے۔بہرکیف ہمیں ہر دو طرح کے احباب سے ہمدردی ہے اور سوچتے ہیں کہ آئندہ کبھی انہیں ایسے کڑے امتحان میں نہ ڈالا جائے۔

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا ۔ عزیز لکھنوی

غزل​

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا 
وہ مرا پہلے پہل داخلِ زِنداں ہونا

قابلِ دید ہے اس گھر کا بھی ویراں ہونا
جس کے ہر گوشہ میں مخفی تھا بیاباں ہونا

جی نہ اٹھوں گا ہے بے کار پشیماں ہونا
جاؤ اب ہو چکا جو کچھ تھا مری جاں ہونا

واہمہ مجھ کو دکھا تا ہے جُنوں کے سامان 
نظر آتا ہے مجھے گھر کا بیاباں ہونا

اُف مرے اجڑے ہوئے گھر کی تباہی دیکھو
جس کے ہر ذرّہ پہ چھایا ہے بیاباں ہونا

حادثے دونوں یہ عالم میں اہم گزرے ہیں 
میرا مرنا تِرِی زُلفوں کا پریشاں ہونا

الحذر! گورِ غریباں کی ڈراؤنی راتیں
اور وہ ان کے گھنے بال پریشاں ہونا

رات بھر سوزِ محبت نے جلایا مجھ کو
تھا مقدر میں چراغِ شبِ ہجراں ہونا

کیوں نہ وحشت میں بھی پابندِ محبت رہتا 
تھا بیاباں میں مجھے قیدیِ زنداں ہونا

ہوگا اِک وقت میں یہ واقعۂ تاریخی
یاد رکھنا مرے کاشانہ کا ویراں ہونا

کچھ نہ پوچھو شبِ وعدہ مرے گھر کی رونق
اللہ اللہ وہ سامان سے ساماں ہونا

جوش میں لے کے اک انگڑائی کسی کا کہنا 
تم کو آتا ہی نہیں چاکِ گریباں ہونا

عالمِ عشق کی فطرت میں خلل آتا ہے
مان لوں حضرتِ انساں کا گر انساں ہونا

سرخ ڈورے تری آنکھوں کے الٰہی توبہ 
چاہئے تھا انھیں پیوست رگِ جاں ہونا

ان سے کرتا ہے دمِ نزع وصیّت یہ عزیزؔ 
خلق روئے گی مگر تم نہ پریشاں ہونا

عزیز لکھنوی​

آنکھوں سے مِری کون مرے خواب لے گیا

غزل​

آنکھوں سے مِری کون مرے خواب لے گیا
چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا

کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈُوبتے ہیں یہاں بحث کہ اُنہیں
خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا

طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
"مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!"

پروین شاکر​

قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ

غزل

قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ

تو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ

اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار ہم ہیں کسی محفل سے اٹھائے ہوئے لوگ

شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ

آنکھ نے بور اُٹھایا ہے درختوں کی طرح
یاد آتے ہیں اِسی رُت میں بُھلائے ہوئے لوگ

حاکمِ  شہر کو معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ

عباس تابش

روٹھ گئیں گلشن سے بہاریں، کس سے بات کریں

غزل 

روٹھ گئیں گلشن سے بہاریں، کس سے بات کریں
کیسے منائیں، کس کو پکاریں، کس سے بات کریں

ہم نے خود ہی پیدا کی ہے ایک نئی تہذیب
ہاتھ میں گُل، دل میں تلواریں کس سے بات کریں

محفل پھیکی، ساقی بہکا، زہریلا ہر جام
ہم کیسے اب شام گزاریں، کس سے بات کریں

قاتل وقت ہوا ہے ہم سے کیوں اتنا ناراض 
خود کو اور کہاں تک ماریں، کس سے بات کریں

آگ لگانا ہے تو دل میں، پیار کی آگ لگا
تو ہی بتا جلتی دیواریں کس سے بات کریں

شاعر: نامعلوم

ظالم سماجی میڈیا

ظالم سماجی میڈیا 
محمد احمد​

ہم ازل سے سُنتے آ رہے ہیں کہ سماج ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور سماج کے رسم و رواج زیادہ نہیں تو کم از کم دو محبت کرنے والوں کو جکڑ لیا کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ ہم اکیلے ان کی مطلوبہ تعداد کو کبھی نہیں پہنچے سو حضرتِ سماج جکڑالوی سے بچے رہے ۔ تاہم جانے انجانے میں ہم سماجی میڈیا کے شکنجے میں کَس لئے گئے اور :


اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہوگئے​

عموماً سوشل میڈیا کا بھیڑیا اُن بکری نما انسانوں پر حملہ کرتا ہے کہ جو اپنے ریوڑ سے الگ ہٹ کر ادھر اُدھر گھاس چر رہے ہوتے ہیں یا واقعی گھاس کھا گئے ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کی سوشل لائف ناپید یا محدود ہے تو آپ سوشل میڈیا کے لئے تر نوالہ ہیں بلکہ مائونیز اور مکھن میں ڈوبے حیواناتی یا نباتاتی پارچہ جات میں سے ایک ہیں۔ ہم بھی اپنی مصروفیات ، کاہلی اور کم آمیزی کے باعث اس بھیڑیے کے خونی اور جنونی جبڑوں میں پھنس گئے۔ جبڑوں میں پھنسنے کا ایک فائدہ ہمیں اور ایک بھیڑیے کو ہوا۔ ہمیں تو یہ فائدہ پہنچا کہ بھیڑیا ہمیں نگل نہیں سکا اور بھیڑیا اسی پر خوش رہا کہ ہم بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ یعنی اس سماجی بھیڑیے کے جبڑوں میں پھنسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ :


شامل ہیں اِک ادائے کنارہ کشی سے ہم ​

لیکن نہ تو کنارہ چلتا ہے اور نہ ناؤ۔ اور لگتا کہ ہےکہ بات چل چلاؤ تک پہنچ کر ہی دم لے گی۔اور ہم نہیں چاہتےکہ بات چل نکلے اور کہیں اور پہنچنے ،پہنچانے کی سعی کرے۔ 


سوشل میڈیا کے سب سے زیادہ قتیل ہمیں فیس بک پر چہرے پر چہرہ چڑھائے نظر آتے ہیں۔ چہرے پر چہرہ چڑھانے سے مراد یہ بھی لی جا سکتی ہے کہ لوگ کتاب چہرے کے چہرے پر اپنا چہرہ چڑھا کر اپنے احباب کو سوشل میڈیا تک محدود رہنے کی دھمکی دیا کرتے ہیں۔یا پھر وہی بات کہ جو سوشل میڈیا سے پہلے بھی گاہے گاہے نظر آتی رہی ہے۔ یعنی: 


ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ​

ڈی پیاں یعنی نمائشی تصاویر بدلنے کا اور بدلتے رہنے کا چلن فیس بک پر بہت عام ہے ۔ سو لوگ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کب اُن کی کوئی تصویر اچھی آ جائے یا کوئی بیوٹیفائیر قسم کی ایپ اُن کے چہرے کو رُخِ روشن بنا دے تو وہ اُسے اپنی پروفائل پر ٹانک دیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی تصاویر لاکھ جتن کرنے کے باجود رقیبِ رو سیاہ کے چہرہء انور کا مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں سو وہ اپنے کسی دوست سے خوش خطی میں اپنا نام لکھوا کر اُسے تصویر کے خالی چوکھٹے میں ثبت کر دیتے ہیں ۔ اگر آپ عقل کے دوستوں میں سے نہیں ہیں اور اشارے کنائے آپ کے لئے ناکافی رہتے ہیں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ ہمارا ذکر نہیں ہے۔ 

اگر بات کی جائے صنفِ نازک کی پروفائل پر آویزاں ڈی پیز کی تو ان میں سے اکثر اپنے اصل چہرے سے کوسوں دور حُسن افروز مصنوعات یعنی غازے اور فیس بک غازیوں کے خونِ ناحق سے چپڑے نقاب کو ہی اپنا چہرہ سمجھتی اور سمجھاتی نظر آتی ہیں۔ 

اگر کبھی آپ کو لگے کہ فیس بک ویران ہوتی جا رہی ہے تو فوراً سے پیشتر کسی نازنین کی پروفائل پر پہنچ جائیے۔ عام سی بات پر تبصروں کی ریل پیل اور مہرِ پسندیدگی کی کھٹاکٹ دیکھ سُن کر آپ کی سٹی گم ہو جائے گی۔ یعنی فیس بک کی رنگا رنگی بھی بقول اقبال تصویرِ کائنات کی طرز پر ہی ہے اور اس تصویر میں رنگ بھرنے کےلئے بھی اقبال کا ہی آزمودہ فارمولا لاگو ہوتا ہے۔ 

خیر یہ تو تھی وہ سخن گسترانہ بات کہ جو کبھی مقطع میں آپڑتی ہے تو کبھی مطلع میں اور مطلع اکثر ابر آلود ہو جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی فیس بک کی ۔ہمارے لئے فیس بُک کا معاملہ بڑ ا عجیب ہے کہ جہاں ہر شخص اپنے ناشتے پانی سے لے کر پانی پت تک کی خبریں اور یادداشتیں شامل کرتا رہتا ہے اور ہم تبصرے کرکر کے ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔تاہم جب کبھی بھولے سے ہم اپنی غزل لگا دیں تو لوگ لائک کی ناب دبانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا اگر زیادہ فرصت ہو تو ہم سے ہمارے ہی اشعار کے مطلب پوچھنے لگتے ہیں ۔


کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا​

سو ہم کچھ نہیں بتاتے اور آئیں بائیں شائیں کرکے ادھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔

فیس بک کے بعد ٹوئٹر کی باری آتی ہے (فیس بک ٹوئیٹر کی یہ تقدیم و تاخیر دانستہ نہیں ہے بلکہ دیدہ و دانستہ ہے سو اُمید ہے کہ احباب اس بات پر گرفت یا ستائش نہیں فرمائیں گے) ۔ عمومی خیال کیا جاتا ہے کہ ٹوئٹر پر نسبتاً پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ تاہم یہ خیال وہ لوگ کرتے ہیں جو خود ٹوئیٹر پر نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو ٹاپ ٹرینڈز کے ہیش ٹیگز کو کلک نہیں کیا کرتے۔ٹوئٹر پر ٹرینڈز کی رینکنگ بھی اُسی طرح سے ہوتی ہے جس طرح ہمارے ٹی وی چینلز خود کو درجہء اُولیٰ پر فائز کیا کرتے ہیں۔ یعنی پیسہ بولتا ہے اور لکھتا بھی ہے۔ ہمارے میڈیا چینلز کی نمبر ون کی دوڑ بھی عجیب ہے کہ پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی کبھی نمبر دو کی زیارت نصیب نہیں ہوتی۔ 

ٹوئٹر والوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی ٹوئٹس بھی ری ٹوئٹ کرتے ہیں تاکہ اپنے پیروکاروں کو بتا سکیں کہ وہ کس بات کے جواب میں مغلظات بک رہے ہیں۔ 

ٹوئٹر اپنے لکھنے والوں کو ایک سو چالیس حروف تک محدود کرتا ہے اگر یہ ٹوئٹس کی یومیہ تعداد کو بھی محدود کرپاتا تو باتونی لوگوں سے بچنے کا اس سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوتا۔ ٹوئٹر سے پہلے ہمیں مختصر نویسی کی اثر انگیزی کا اتنا اندازہ نہیں تھا ۔ تاہم اب اس میں شبہ نہیں ہے کہ ایک سو چالیس حروف بھی دشنموں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے کافی ہوتے ہیں اور اگر ٹوئیٹس کو جوڑ جاڑ کر تھریڈ کی شکل دے دی جائے تو اینٹوں کا جواب پتھر سے بلکہ منجنیق سے دینا بھی مشکل نہیں رہتا۔ 

مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ٹوئیٹر پر بھی ناکام و نا مراد ہیں کہ ہمیں کبھی سال دو سال میں کوئی دانائی کی بات سوجھتی بھی ہے تو اُسے مصروفیت، کام چوری اور انکساری کی چھلنیوں سے گزر کر ٹوئیٹر پر پہنچنا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ اور جب کبھی ہمارا دانش پارہ جو حجم میں نمک پارے سے تھوڑا سا ہی بڑا ہوتا ہے ٹوئیٹر پر پہنچ بھی جاتا ہے تو ہمارے پیروکاروں کے نزدیک ( جن کی آدھی اکثریت تو ہماری زبان سے ہی ناواقف ہے) نقار خانے میں ٹٹیری کی آواز سے زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا۔ 

ٹوئیٹر پر بڑے بڑے جغادری موجود ہیں کہ جن کے منہ سے چوبیس گھنٹے فلسفہ اُبلتا رہتا ہے اور کراچی کے مین ہولز کی طرح یہاں بھی نکاسی کا معقول بندوبست نہیں ہے سو اکثر عقیدت مندوں کی ٹائم لائنز کی حالت ناگفتہ بہ نظر آتی ہے۔ شاید یہاں کے کرتا دھرتا بھی کراچی کے ناظمِ نا کمال کی طرح بے اختیار ہیں۔ 

سوشل میڈیائی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی ایک شے انسٹا گرام ہے۔ شنید ہے کہ اس پر لوگ زیادہ تر تصاویر دیکھنے دکھانے کا کام کیا کرتے ہیں ۔ہم نے اس کا تجربہ جز وقتی طور پر کیا تھا لیکن جن افراد کی پیروکاری ہم نے کی تو زیادہ تر وہی مواد دیکھنے کو ملا جو فیس بک وغیرہ پر ہوتا ہے سو ایک رنگ کے مضمون کو دور رنگ سے باندھتے باندھتے بے زار ہو گئے اور دو رنگی چھوڑ کر یک رنگی اختیار کی۔ کیا خبر کہ کل اسی یک رنگی سے نیرنگی پھوٹتی نظر آئے۔

غزل ۔ بے حس و کج فہم و لاپروا کہے ۔ مرتضی برلاس

غزل

بے حس و کج فہم و لاپروا کہے
کل مورّخ جانے ہم کو کیا کہے

اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں
جس طرح بہرہ سُنے، گونگا کہے

راز ہائے ضبطِ غم کیا چھپ سکیں
ہونٹ جب خاموش ہوں چہرہ کہے

اس لئے ہر شخص کو دیکھا کیا
کاش کوئی تو مجھے اپنا کہے

ہے تکلّم آئینہ احساس کا
جس کی جیسی سوچ ہو ، ویسا کہے

پڑھ چکے دریا قصیدہ ابر کا
کیا زبانِ خشک سے صحرا کہے

بدگمانی صرف میری ذات سے
میں تو وہ کہتا ہوں جو دنیا کہے

مرتضیٰ برلاس