غزل
قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ
تو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ
اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار ہم ہیں کسی محفل سے اٹھائے ہوئے لوگ
شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ
آنکھ نے بور اُٹھایا ہے درختوں کی طرح
یاد آتے ہیں اِسی رُت میں بُھلائے ہوئے لوگ
حاکمِ شہر کو معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ
عباس تابش
قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ
تو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ
اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار ہم ہیں کسی محفل سے اٹھائے ہوئے لوگ
شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ
آنکھ نے بور اُٹھایا ہے درختوں کی طرح
یاد آتے ہیں اِسی رُت میں بُھلائے ہوئے لوگ
حاکمِ شہر کو معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ
عباس تابش