قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ

غزل

قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ

تو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ

اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار ہم ہیں کسی محفل سے اٹھائے ہوئے لوگ

شکل تو شکل مجھے نام بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ

آنکھ نے بور اُٹھایا ہے درختوں کی طرح
یاد آتے ہیں اِسی رُت میں بُھلائے ہوئے لوگ

حاکمِ  شہر کو معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ

عباس تابش

روٹھ گئیں گلشن سے بہاریں، کس سے بات کریں

غزل 

روٹھ گئیں گلشن سے بہاریں، کس سے بات کریں
کیسے منائیں، کس کو پکاریں، کس سے بات کریں

ہم نے خود ہی پیدا کی ہے ایک نئی تہذیب
ہاتھ میں گُل، دل میں تلواریں کس سے بات کریں

محفل پھیکی، ساقی بہکا، زہریلا ہر جام
ہم کیسے اب شام گزاریں، کس سے بات کریں

قاتل وقت ہوا ہے ہم سے کیوں اتنا ناراض 
خود کو اور کہاں تک ماریں، کس سے بات کریں

آگ لگانا ہے تو دل میں، پیار کی آگ لگا
تو ہی بتا جلتی دیواریں کس سے بات کریں

شاعر: نامعلوم

ظالم سماجی میڈیا

ظالم سماجی میڈیا 
محمد احمد​

ہم ازل سے سُنتے آ رہے ہیں کہ سماج ہمیشہ ظالم ہوتا ہے اور سماج کے رسم و رواج زیادہ نہیں تو کم از کم دو محبت کرنے والوں کو جکڑ لیا کرتے ہیں۔ شکر ہے کہ ہم اکیلے ان کی مطلوبہ تعداد کو کبھی نہیں پہنچے سو حضرتِ سماج جکڑالوی سے بچے رہے ۔ تاہم جانے انجانے میں ہم سماجی میڈیا کے شکنجے میں کَس لئے گئے اور :


اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہوگئے​

عموماً سوشل میڈیا کا بھیڑیا اُن بکری نما انسانوں پر حملہ کرتا ہے کہ جو اپنے ریوڑ سے الگ ہٹ کر ادھر اُدھر گھاس چر رہے ہوتے ہیں یا واقعی گھاس کھا گئے ہوتے ہیں۔ یعنی آپ کی سوشل لائف ناپید یا محدود ہے تو آپ سوشل میڈیا کے لئے تر نوالہ ہیں بلکہ مائونیز اور مکھن میں ڈوبے حیواناتی یا نباتاتی پارچہ جات میں سے ایک ہیں۔ ہم بھی اپنی مصروفیات ، کاہلی اور کم آمیزی کے باعث اس بھیڑیے کے خونی اور جنونی جبڑوں میں پھنس گئے۔ جبڑوں میں پھنسنے کا ایک فائدہ ہمیں اور ایک بھیڑیے کو ہوا۔ ہمیں تو یہ فائدہ پہنچا کہ بھیڑیا ہمیں نگل نہیں سکا اور بھیڑیا اسی پر خوش رہا کہ ہم بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ یعنی اس سماجی بھیڑیے کے جبڑوں میں پھنسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ :


شامل ہیں اِک ادائے کنارہ کشی سے ہم ​

لیکن نہ تو کنارہ چلتا ہے اور نہ ناؤ۔ اور لگتا کہ ہےکہ بات چل چلاؤ تک پہنچ کر ہی دم لے گی۔اور ہم نہیں چاہتےکہ بات چل نکلے اور کہیں اور پہنچنے ،پہنچانے کی سعی کرے۔ 


سوشل میڈیا کے سب سے زیادہ قتیل ہمیں فیس بک پر چہرے پر چہرہ چڑھائے نظر آتے ہیں۔ چہرے پر چہرہ چڑھانے سے مراد یہ بھی لی جا سکتی ہے کہ لوگ کتاب چہرے کے چہرے پر اپنا چہرہ چڑھا کر اپنے احباب کو سوشل میڈیا تک محدود رہنے کی دھمکی دیا کرتے ہیں۔یا پھر وہی بات کہ جو سوشل میڈیا سے پہلے بھی گاہے گاہے نظر آتی رہی ہے۔ یعنی: 


ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ​

ڈی پیاں یعنی نمائشی تصاویر بدلنے کا اور بدلتے رہنے کا چلن فیس بک پر بہت عام ہے ۔ سو لوگ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کب اُن کی کوئی تصویر اچھی آ جائے یا کوئی بیوٹیفائیر قسم کی ایپ اُن کے چہرے کو رُخِ روشن بنا دے تو وہ اُسے اپنی پروفائل پر ٹانک دیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی تصاویر لاکھ جتن کرنے کے باجود رقیبِ رو سیاہ کے چہرہء انور کا مقابلہ کر رہی ہوتی ہیں سو وہ اپنے کسی دوست سے خوش خطی میں اپنا نام لکھوا کر اُسے تصویر کے خالی چوکھٹے میں ثبت کر دیتے ہیں ۔ اگر آپ عقل کے دوستوں میں سے نہیں ہیں اور اشارے کنائے آپ کے لئے ناکافی رہتے ہیں تو پھر ہم کہیں گے کہ یہ ہمارا ذکر نہیں ہے۔ 

اگر بات کی جائے صنفِ نازک کی پروفائل پر آویزاں ڈی پیز کی تو ان میں سے اکثر اپنے اصل چہرے سے کوسوں دور حُسن افروز مصنوعات یعنی غازے اور فیس بک غازیوں کے خونِ ناحق سے چپڑے نقاب کو ہی اپنا چہرہ سمجھتی اور سمجھاتی نظر آتی ہیں۔ 

اگر کبھی آپ کو لگے کہ فیس بک ویران ہوتی جا رہی ہے تو فوراً سے پیشتر کسی نازنین کی پروفائل پر پہنچ جائیے۔ عام سی بات پر تبصروں کی ریل پیل اور مہرِ پسندیدگی کی کھٹاکٹ دیکھ سُن کر آپ کی سٹی گم ہو جائے گی۔ یعنی فیس بک کی رنگا رنگی بھی بقول اقبال تصویرِ کائنات کی طرز پر ہی ہے اور اس تصویر میں رنگ بھرنے کےلئے بھی اقبال کا ہی آزمودہ فارمولا لاگو ہوتا ہے۔ 

خیر یہ تو تھی وہ سخن گسترانہ بات کہ جو کبھی مقطع میں آپڑتی ہے تو کبھی مطلع میں اور مطلع اکثر ابر آلود ہو جاتا ہے۔ بات ہو رہی تھی فیس بک کی ۔ہمارے لئے فیس بُک کا معاملہ بڑ ا عجیب ہے کہ جہاں ہر شخص اپنے ناشتے پانی سے لے کر پانی پت تک کی خبریں اور یادداشتیں شامل کرتا رہتا ہے اور ہم تبصرے کرکر کے ادھ موئے ہو جاتے ہیں۔تاہم جب کبھی بھولے سے ہم اپنی غزل لگا دیں تو لوگ لائک کی ناب دبانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا اگر زیادہ فرصت ہو تو ہم سے ہمارے ہی اشعار کے مطلب پوچھنے لگتے ہیں ۔


کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا​

سو ہم کچھ نہیں بتاتے اور آئیں بائیں شائیں کرکے ادھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔

فیس بک کے بعد ٹوئٹر کی باری آتی ہے (فیس بک ٹوئیٹر کی یہ تقدیم و تاخیر دانستہ نہیں ہے بلکہ دیدہ و دانستہ ہے سو اُمید ہے کہ احباب اس بات پر گرفت یا ستائش نہیں فرمائیں گے) ۔ عمومی خیال کیا جاتا ہے کہ ٹوئٹر پر نسبتاً پڑھے لکھے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ تاہم یہ خیال وہ لوگ کرتے ہیں جو خود ٹوئیٹر پر نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو ٹاپ ٹرینڈز کے ہیش ٹیگز کو کلک نہیں کیا کرتے۔ٹوئٹر پر ٹرینڈز کی رینکنگ بھی اُسی طرح سے ہوتی ہے جس طرح ہمارے ٹی وی چینلز خود کو درجہء اُولیٰ پر فائز کیا کرتے ہیں۔ یعنی پیسہ بولتا ہے اور لکھتا بھی ہے۔ ہمارے میڈیا چینلز کی نمبر ون کی دوڑ بھی عجیب ہے کہ پاکستان میں ہوتے ہوئے بھی کبھی نمبر دو کی زیارت نصیب نہیں ہوتی۔ 

ٹوئٹر والوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی ٹوئٹس بھی ری ٹوئٹ کرتے ہیں تاکہ اپنے پیروکاروں کو بتا سکیں کہ وہ کس بات کے جواب میں مغلظات بک رہے ہیں۔ 

ٹوئٹر اپنے لکھنے والوں کو ایک سو چالیس حروف تک محدود کرتا ہے اگر یہ ٹوئٹس کی یومیہ تعداد کو بھی محدود کرپاتا تو باتونی لوگوں سے بچنے کا اس سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں ہوتا۔ ٹوئٹر سے پہلے ہمیں مختصر نویسی کی اثر انگیزی کا اتنا اندازہ نہیں تھا ۔ تاہم اب اس میں شبہ نہیں ہے کہ ایک سو چالیس حروف بھی دشنموں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے کافی ہوتے ہیں اور اگر ٹوئیٹس کو جوڑ جاڑ کر تھریڈ کی شکل دے دی جائے تو اینٹوں کا جواب پتھر سے بلکہ منجنیق سے دینا بھی مشکل نہیں رہتا۔ 

مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ٹوئیٹر پر بھی ناکام و نا مراد ہیں کہ ہمیں کبھی سال دو سال میں کوئی دانائی کی بات سوجھتی بھی ہے تو اُسے مصروفیت، کام چوری اور انکساری کی چھلنیوں سے گزر کر ٹوئیٹر پر پہنچنا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ اور جب کبھی ہمارا دانش پارہ جو حجم میں نمک پارے سے تھوڑا سا ہی بڑا ہوتا ہے ٹوئیٹر پر پہنچ بھی جاتا ہے تو ہمارے پیروکاروں کے نزدیک ( جن کی آدھی اکثریت تو ہماری زبان سے ہی ناواقف ہے) نقار خانے میں ٹٹیری کی آواز سے زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا۔ 

ٹوئیٹر پر بڑے بڑے جغادری موجود ہیں کہ جن کے منہ سے چوبیس گھنٹے فلسفہ اُبلتا رہتا ہے اور کراچی کے مین ہولز کی طرح یہاں بھی نکاسی کا معقول بندوبست نہیں ہے سو اکثر عقیدت مندوں کی ٹائم لائنز کی حالت ناگفتہ بہ نظر آتی ہے۔ شاید یہاں کے کرتا دھرتا بھی کراچی کے ناظمِ نا کمال کی طرح بے اختیار ہیں۔ 

سوشل میڈیائی دنیا میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی ایک شے انسٹا گرام ہے۔ شنید ہے کہ اس پر لوگ زیادہ تر تصاویر دیکھنے دکھانے کا کام کیا کرتے ہیں ۔ہم نے اس کا تجربہ جز وقتی طور پر کیا تھا لیکن جن افراد کی پیروکاری ہم نے کی تو زیادہ تر وہی مواد دیکھنے کو ملا جو فیس بک وغیرہ پر ہوتا ہے سو ایک رنگ کے مضمون کو دور رنگ سے باندھتے باندھتے بے زار ہو گئے اور دو رنگی چھوڑ کر یک رنگی اختیار کی۔ کیا خبر کہ کل اسی یک رنگی سے نیرنگی پھوٹتی نظر آئے۔

غزل ۔ بے حس و کج فہم و لاپروا کہے ۔ مرتضی برلاس

غزل

بے حس و کج فہم و لاپروا کہے
کل مورّخ جانے ہم کو کیا کہے

اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں
جس طرح بہرہ سُنے، گونگا کہے

راز ہائے ضبطِ غم کیا چھپ سکیں
ہونٹ جب خاموش ہوں چہرہ کہے

اس لئے ہر شخص کو دیکھا کیا
کاش کوئی تو مجھے اپنا کہے

ہے تکلّم آئینہ احساس کا
جس کی جیسی سوچ ہو ، ویسا کہے

پڑھ چکے دریا قصیدہ ابر کا
کیا زبانِ خشک سے صحرا کہے

بدگمانی صرف میری ذات سے
میں تو وہ کہتا ہوں جو دنیا کہے

مرتضیٰ برلاس

اقوالِ سعید - حکیم محمد سعید کے سنہرے اقوال . ٢

اقوالِ سعید 
حکیم محمد سعید کے اقوال
انسان ٹھوکریں کھاتا ہے مگر کچھ سبق حاصل نہیں کرتا۔ تاریخ بے چاری ہے کہ اپنا سبق دُہرائے جارہی ہے۔ ناقدریِ وقت سے غلامی کی زنجیریں پیروں میں پڑ جایا کرتی ہیں۔ اپنی شناخت اور اپنے سرمایہء ثقافت کو نظر انداز کرکے ہم علم کے نام پر جو کچھ بھی حاصل کریں گے، اس کے مثبت نتائج کبھی برامد نہیں ہو سکتے۔ ایک غلط کام کرکے انسان بہ ظاہر کتنا ہی خوش ہو ، اُس کا ضمیر اندرونی طور پر اُس کو متنبہ ضرور کرتا ہے۔ جب یہ کیفیت ملامت کی صورت اختیار کرلیتی ہے تو اس سے نظامِ جسم ضرور متاثّر ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم فسادِ اخلاق میں مبتلا ہو گئی وہ صفحہء ہستی سے مٹ گئی۔ جس طرح ایک مسلمان کے دل میں طمع اور تقویٰ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اسی طرح علم و حکمت اور دولت ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آزادیِ صحافت کے ہرگز یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ تعمیرِ وطن نظروں سے اوجھل ہو جائے اور سر بلندیِ ملک اور سرفرازیِ ملّت نظر انداز کر دی جائے۔

حکیم محمد سعید

اقوالِ سعید - حکیم محمد سعید کے سنہرے اقوال

اقوالِ سعید 
حکیم محمد سعید کے اقوال

اہلیانِ پاکستان کے لئے حکیم محمد سعید صاحب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ حکیم محمد سعید صاحب نہ صرف  ایک مایہ ناز حکیم تھے بلکہ مملکتِ پاکستان کے باسیوں کے لئے ایک عظیم مصلح بھی تھے۔ آپ نے مذہب ، طب و حکمت پر بے شمار کتب تصنیف و تالیف کیں۔ آپ کا قائم کردہ ادارہ ہمدرد پاکستان آج بھی اپنی ساکھ کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 

حکیم محمد سعید  نے ہی بچوں کے معروف رسالے  ہمدرد نونہال کا اجراء کیا جو  اطفالِ وطن کی  تعلیم و تربیت میں  مشعلِ راہ کا کام کرتا رہا ہے۔



یہاں ہم حکیم محمد سعید صاحب کے مختصر کتابچے اقوالِ سعید سے کچھ اقوال رقم کریں گے جو نا صرف نونہالانِ پاکستان بلکہ پاکستان کے ہر شہری کے لئے بہت اہم ہیں۔

جس طرح سورج ہر انسان کو بلا امتیا ز اپنی روشنی سے منوّر کرتا ہے اسی طرح ایک انسان کو دوسرے انسان کو روشنی دینا چاہیے۔ روشن ضمیری صرف ایک انسا ن کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو روشنی میں رکھتی ہے۔ انسان جب اپنی ذات کے لئے اضافی آرام و آسائش حاصل کرنے کا خواہاں ہو گا، اُسے خودی اور خود داری کو قربان کرنا پڑے گا۔ قومیں اور افراد چراغِ حُرّیت اپنے خون سے روشن رکھتے ہیں۔ دولت کی بے پناہ محبّت خباثت کی دلیل ہے اس لئے کہ یہ ہمیشہ بُرائی کی طرف لے جاتی ہے۔ مسلمان کی حیاتِ مستعار کا ہر لمحہ قرانِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں بسر ہونا چاہیے اور اُس کی ہر آن اتّباعِ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہونا چاہیے۔ تعلیم ایک ارتقائی عمل ہے جس کے ذریعے اقوام و اُمم اپنے مقصدِ حیات سے آگاہ ہو کر اس کے حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتی ہیں۔
حکیم محمد سعید

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ شکریہ

شکریہ

ہفتہٴ غزل کے اختتام پر ہم اپنے احباب کے شکر گزار ہیں کہ جن سے ہمیں بہت حوصلہ افزائی ملی۔

بالخصوص ہم راحیل فاروق بھائی کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ناصرف ہفتہٴ غزل کے انعقاد پر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اپنے گہر بار قلم سے ایک عدد مضمون بھی اس سلسلے میں رقم کیا۔ اس کے بعد ہم محمد تابش صدیقی بھائی کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے پورے ہفتہ کم و بیش ہر پوسٹ پر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور انتخاب پر اپنے رائے سے بھی نوازا۔



ہمارے عزیز برادران ذوالقرنین سرور المعروف نیرنگِ خیال بھائی اور بلال اعظم بھیا نے بھی ہفتہٴ غزل کے آغاز پرا پنے تبصروں سے اس موقع پر ہماری ہمت بندھائی۔ عزیزی فلک شیر بھائی سے بھی ہمیں گاہے گاہے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی ہمت ملتی رہتی ہے اور اس سلسلے میں بھی اُنہوں نے اپنے احباب کی توجہ ہفتہٴ غزل کی طرف مبذول فرما کر ہمیں حوصلہ بخشا۔

ہمیں اعتراف ہے کہ ہمارے مذکورہ اور غیر مذکورہ احباب کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی تو ہمارا ہفتہٴ غزل بُری طرح فلاپ ہو جاتا جو اب اللہ کا شکر ہے کہ اچھی طرح فلاپ ہوا ہے۔ ☺☺☺

ہم اپنے بلاگ کے قارئین کے بھی شکر گزار ہیں کہ جو گاہے گاہے بلاگ پر آتے رہتے ہیں اور اُن کے تبصروں اور کبھی محض نقشِ قدم سے اُن کی آمد کے نشاں ملتے رہتے ہیں۔