غزل
روٹھ گئیں گلشن سے بہاریں، کس سے بات کریں
کیسے منائیں، کس کو پکاریں، کس سے بات کریں
ہم نے خود ہی پیدا کی ہے ایک نئی تہذیب
ہاتھ میں گُل، دل میں تلواریں کس سے بات کریں
محفل پھیکی، ساقی بہکا، زہریلا ہر جام
ہم کیسے اب شام گزاریں، کس سے بات کریں
قاتل وقت ہوا ہے ہم سے کیوں اتنا ناراض
خود کو اور کہاں تک ماریں، کس سے بات کریں
آگ لگانا ہے تو دل میں، پیار کی آگ لگا
تو ہی بتا جلتی دیواریں کس سے بات کریں
شاعر: نامعلوم