غزل
گردِ سفر میں بُھول کے منزل کی راہ تک
پھر آ گئے ہیں لوگ نئی قتل گاہ تک
اِک بے کسی کا جال ہے پھیلا چہار سُو
اِک بے بسی کی دُھند ہے دل سے نگاہ تک
بالائے سطحِ آب تھے جتنے، تھے بے خبر
اُبھرے نہیں ہیں وہ کہ جو پہنچے ہیں تھاہ تک
اِک دُوسرے پہ جان کا دینا تھا جس میں کھیل
اب رہ گیا ہے صرف وہ رشتہ نباہ تک
اہلِ نظر ہی جانے ہیں کیسے اُفق مثال!
حدِّ ثواب جاتی ہے حدِّ گناہ تک
زنجیرِ عدل اب نہیں کھینچے گا کوئی ہاتھ
رُلنے ہیں اب تو پاؤں میں تاج و کُلاہ تک
پُھولوں سے اِک بھری ہوئی بستی یہاں پہ تھی
اب دل پہ اُس کا ہوتا نہیں اشتباہ تک
آتی ہے جب بہار تو آتی ہے ایک ساتھ
باغوں سے لے کے دشت میں اُگتی گیاہ تک
جانا ہے ہم کو خواب کی کشتی میں بیٹھ کر
کاجل سے اِک بھری ہُوئی چشمِ سیاہ تک
جذبات بجھ گئے ہوں تو کیسے جلے یہ دل
میرِ سپہ کا نام ہے اُس کی سپاہ تک
امجدؔ اب اس زمین پہ آنے کو ہے وہ دن
عالم کے ہاتھ پہنچیں گے عالم پناہ تک
امجد اسلام امجدؔ