[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے ۔ ظہیر احمد ظہیر

غزل

پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے
ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے

قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا
مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے

ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان
ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے

خاشاکِ زمانہ ہیں ، نہیں خوف ہمیں کوئی
آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے

ہم چھوڑ بھی دیتے ہیں کُھلا توسنِ دل کو
تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے

روحوں میں اتر جاتے ہیں تیزاب کی صورت
لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے

احساس کے موسم کبھی ہوجائیں جو بے رنگ
خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے

اونچا نہ اُڑو اپنی ضرورت سے زیادہ
تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے

دستار بنے جاتے ہیں اب شہرِ طلب میں
کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے

اس خانہ بدوشی میں خدا لائے نہ وہ دن
جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے


ظہیر احمد ظہیر

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ نمکین غزل

نمکین غزل

سوچتے ہیں کہ ہفتہ ء غزل میں ایک آدھ نمکین غزل بھی شامل کی جائے لیکن ہم تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ یہ نمکین غزل آخر ہوتی کیا ہے۔ گو کہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ نمکین غزل کیا ہوتی ہے لیکن بات آتی ہے وجہ تسمیہ پر۔

کہا جاتا ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہنچانی جاتی ہیں۔ یعنی روشنی کو پہچاننے کے لئے اندھیرے کو سمجھنا ضروری ہے اور کھرے کی شناخت کے لئے کھوٹے کی پہچان ضروری ہے تاہم نمکین غزل اِ س فارمولے کے تحت بھی درونِ خانہ رسائی دینے کو تیار نہیں ہے۔ نمکین غزل کو براستہ ضد سمجھنے نکلیں تو ہم میٹھی غزل تک پہنچتے ہیں تاہم پتہ یہ چلتا ہےکہ اس قسم کی کوئی غزل کہیں نہیں پائی جاتی ۔ یہاں تک کہ وہ 'غزل' بھی جو دیکھنے میں کافی میٹھی نظر آتی ہے، سُننے میں کافی ترش معلوم ہوتی ہے اور دشمنوں حتیٰ کہ دوستوں کے بھی دانت کھٹے اور ارمان ٹھنڈے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔بہرکیف اُس والی غزل کی بات پھر کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں اور واپس آتے ہیں میٹھی غزل کی طرف کہ جس کی مدد سے ہم نمکین غزل کو سمجھنا چاہ رہے تھے ۔ تاہم تلاش بسیار کے باوجود غزل کے ساتھ مٹھاس کا تصور ہمیں کہیں نہیں ملا کہ زیادہ تراردو شاعری آہوں اور آنسوؤں سے گندھی ہوئی ملا کرتی ہے اور تلخیوں اور اشکوں کی آماجگاہ ہونے کے باعث تلخی اس کا لازمی جز۔ سو شیرینی کا عشرِ عشیر بھی یہاں میسر نہیں ہے۔


اسی نکتے پر مزید غور کرنے سے بہرکیف اس گتھی کا ایک سِرا ضرور ہاتھ آتا ہے اور وہ یہ کہ چونکہ زیادہ تر شاعری غم و آلام اور آہ و اشک کی بھرمار کے باعث تلخ یعنی کڑوی ہوتی ہے سو ایسی شاعری جس میں آنسوؤں کے ساتھ کچھ قہقہے بھی شامل کردیے جاتے ہیں اور اُس کی کڑواہٹ کچھ کم ہو کر نمکینی میں بدل جاتی ہے ، نمکین شاعری یا نمکین غزل کہلاتی ہے۔

ہمیں نہیں پتہ کہ 'نمکین غزل' کی اصطلاح سب سے پہلی بار کس نے، کب، کہاں اور کیوں وضع کی تاہم مزاحیہ غزل کے لئے یہ نام خوب جچتا ہے۔ تو پھر آئیے کہ کچھ منہ کا ذائقہ بدلیں اور دلاور فگار کی نمکین غزل کا مزہ لیں۔

میں نےکہاکہ شہر کے حق میں دعا کرو
اس نے کہا کہ بات غلط مت کہا کرو

میں نےکہاکہ رات سے بجلی بھی بند ہے
اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو

میں نےکہاکہ شہر میں پانی کا قحط ہے
اس نے کہا کہ پیپسی کولا پیا کرو

میں نےکہاکہ کار ڈکیتوں نے چھین لی
اس نے کہا کہ اچھا ہے پیدل چلا کرو

میں نےکہاکہ کام ہے نہ کوئی کاروبار
اس نے کہا کہ شاعری پر اکتفا کرو

میں نےکہاکہ سو کی بھی گنتی نہیں ہے یاد
اس نے کہا کہ رات کو تارے گنا کرو

میں نےکہاکہ ہے مجھے کرسی کی آرزو
اس نے کہا کہ آیت کرسی پڑھا کرو

میں نےکہا غزل پڑھی جاتی نہیں صحیح
اس نے کہا کہ پہلے ریہرسل کیا کرو

میں نےکہاکہ کیسے کہی جاتی ہے غزل
اس نے کہا کہ میری غزل گا دیا کرو

ہر بات پر جو کہتا رہا میں بجا بجا
اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو

دلاور فگار

کچھ نمک پارے مزید

سیب سے گال ہیں، خوبانی کے جیسی تھوڑی
شربتی آنکھیں بھی چہرے پہ بڑی پیاری ہیں
ساری چیزیں اگر ایسی ہیں تو تقصیر معاف
وہ تو پھر آپ کی بیگم نہیں افطاری ہیں

عنایت علی خان




اقبالِ جرم

شوق سے لختِ جگر، نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو ! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
ڈاکٹر اقبال کا شاہیں تو ہم سے اُڑ چکا
اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری





[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ستارے دیکھتا ہوں زائچے بناتا ہوں ۔ محمد اظہار الحق

غزل 

ستارے دیکھتا ہوں زائچے بناتا ہوں
میں وہم بیچتا ہوں وسوسے بناتا ہوں

گراں ہے اتنا تو کیوں وقت ہے مجھے درکار
مزے سے بیٹھا ہوا بلبلے بناتا ہوں

مسافروں کا مرے گھر ہجوم رہتا ہے
میں پیاس بانٹتا ہوں آبلے بناتا ہوں

خرید لاتا ہوں پہلے ترے وصال کے خواب
پھر اُن سے اپنے لئے رت جگے بناتا ہوں

یہی نہیں کہ زمینیں میری اچھوتی ہیں
میں آسمان بھی اپنے نئے بناتا ہوں

مرے ہُنر کی تجھے احتیاج کیا ہوگی
کہ میں زمانے ہی گزرے ہوئے بناتا ہوں

محمد اظہار الحق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے ۔ اجملؔ سراج

غزل

ہر نئی شام سہانی تو نہیں ہوتی ہے
اور ہر عمر جوانی تو نہیں ہوتی ہے

تم نے احسان کیا تھا سو جتایا تم نے
جو محبت ہو جتانی تو نہیں ہوتی ہے

دوستو! سچ کہو کب دل کو قرار آئے گا
ہر گھڑی آس بندھانی تو نہیں ہوتی ہے

دل میں جو آگ لگی ہے وہ لگی رہنے دو
یار ! ہر آگ بجھانی تو نہیں ہوتی ہے

دور رہ کر بھی وہ نزدیک ہے  ، قربت یعنی
از رہِ قربِ مکانی تو نہیں ہوتی ہے

موج ہوتی ہے کہیں اور بھنور ہوتے ہیں
صرف دریا میں روانی تو نہیں ہوتی ہے

شائبہ  جس میں حقیقت کا نہیں ہو اجملؔ
وہ کہانی بھی کہانی تو نہیں ہوتی ہے

اجملؔ سراج

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں ۔سردار جعفری

غزل 

کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں
کتنے سورج ڈوب گئے ہیں چہروں کے پیلے پن میں

بچّوں  کے میٹھے ہونٹوں پر پیاس کی سوکھی ریت جمی
دودھ کی دھاریں گائے کے تھن سے گر گئیں ناگوں کے پھن میں

ریگستانوں  میں جلتے ہیں پڑے ہوئے سو نقشِ قدم
آج خراماں کوئی نہیں ہے اُمیدوں کے گلشن میں

چکنا چُور ہوا خوابوں کا دلکش،  دلچسپ آئینہ
ٹیڑھی ترچھی تصویریں ہیں ٹوٹے پھوٹے درپن میں

پائے جنوں میں پڑی ہوئی ہیں حرص و ہوا کی زنجیریں
قید ہے اب تک ہاتھ سحر کا تاریکی کے کنگن میں

آنکھوں کی کچھ نورس کلیاں  نیم شگفتہ غنچہ ٴ لب
کیسے کیسے پھول بھرے ہیں گلچینوں کے دامن میں

دستِ غیب کی طرح چھپا ہے ظلم کا ہاتھ ستم کا وار
خشک لہو کی بارش دیکھی ہم نے کوچہ و برزن میں

سردار جعفری

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلےہو گئے ۔ شاہد کبیر

آج کی معروف غزل 

آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلےہو گئے
میری آنکھیں سرخ، تیرے ہاتھ پیلےہو گئے

اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے

کب کی پتھر ہو چکی تھیں  منتظر آنکھیں مگر
چھو کے  جب دیکھا تو میرے  ہاتھ  گیلےہو گئے

جانے کیا احساس سازِحسن کے تاروں میں ہے
جن کو چھوتے ہی میرے نغمے رسیلےہو گئے

اب کوئی اُمید ہے شاھدؔ  نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلےہو گئے

شاہدکبیر 

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہمیشہ آتے رہے تغیر، ورق اُلٹتا رہا زمانہ ۔ صادق القادری صادق

غزل

ہمیشہ آتے رہے تغیر، ورق اُلٹتا رہا زمانہ
کبھی فسانہ بنا حقیقت، کبھی حقیقت بنی فسانہ

غمِ محبت کو دل نے سمجھا تھا سہل، جیسے غمِ زمانہ
مگر اُٹھایا یہ بوجھ میں نے تو جُھک گیا زندگی کا شانہ

ہم اپنی روداد کیا سنائیں، کچھ اس میں ہیں واقعات ایسے
اگر کوئی دوسرا سُناتا، ہمیں سمجھتے اُسے فسانہ

نظر ہے مہر و کرم کی مجھ پر، لبوں پہ اک طنزیہ تبّسم
شکست تسلیم کی ہے اس نے مگر بہ اندازِ فاتحانہ

کسی کے جانے کے بعد صادق کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے
کہ ایک مرکز پہ جیسے آکر ٹھہر گئی گردشِ زمانہ

صادق القادری صادق