مولانا حسرت موہانی اور سودیشی تحریک



انگریز برِ صغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے ۔ یہ کپاس انگلستان جاتی ۔ وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے ۔ پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

ایک کپاس ہی کیا، برصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی ۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برصغیر میں کارخانے بھی کم تھے ۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

برِ صغیر کے رہنماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کےلئے سودیشی تحریک شروع کی۔ سود یشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی ۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

سودیشی تحریک کو لوگوں نے کامیاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہیے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا ۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی ۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔" مولانا سید صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سید صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا ، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے ہیں ۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے ۔ ہوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا ۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔

مولانا حسرت موہانی اور اردوئے معلیٰ


بہ یک وقت 'رئیس الاحرار' اور 'رئیس المتغزلین' کا لقب پانے والے سید فضل الحسن کو دنیا مولانا حسرت موہانی کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی اودھ کے علاقے موہان کے رہنے والے تھے۔ اور موہان کی نسبت اپنے تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ موہان سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے مولانا علی گڑھ کالج آ گئے۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ہی کالج میں مولانا حسرت کی شہرت ہو گئی تھی۔ وہ کالج یونین کے جلسوں میں تقریریں کرتے اور مباحثوں میں بھی حصہ لیتےتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسرت مشاعروں میں غزلیں بھی پڑھتے تھے۔ مولانا نے علی گڑھ کالج میں ایک ادبی انجمن ادوئے معلیٰ بھی بنائی تھی ۔ مولانا حسرت موہانی نوجوانی ہی میں بڑے بااصول اور بات کے دھنی تھے ۔اپنی بات پر قائم رہتے اور غلط بات گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اُنہیں غلامی سے نفرت تھی اس وجہ سے انگریز حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے اور آزادی کی جد و جہد کرنے والوں کے ساتھ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے سرکار پرست لوگ مولانا سے دوستانہ رویّہ نہیں رکھتے تھے۔

بی اے کے سالِ آخر میں مولانا نے کالج میں ایک مشاعرہ بڑی دھوم دھام سے منعقد کیا تو جہاں اس مشاعرے کا لوگوں میں چرچا ہوا وہیں ایسے لوگ بھی تھے کہ جنہیں مولانا کی شُہرت پسند نہیں تھی ۔ ان لوگوں نے کالج کے پرنسپل سے مولانا کی شکایت کی کہ مشاعرے میں ایسے اشعار پڑھے گئے کہ جن سے طالبِ علموں کے اخلاق بگڑنے کا خدشہ ہے۔ پرنسپل نے آگ بگولہ ہو کر مولانا کو بُلایا اور ان کا موقف سُنے بغیر اُنہیں خوب ڈانٹا اور کالج سے نکالنے کا حکم سُنایا۔گو کہ پرنسپل کو سمجھانے والا کوئی نہیں تھا تاہم مولانا بھی کوئی عام طالبِ علم نہیں تھے اس لئے آخری فیصلہ یہ ہو ا کہ اُنہیں کالج سے تو نکال دیا جائے لیکن امتحان سے نہ روکا جائے۔ اس حکم کے بعد مولانا نے کالج کا ہوسٹل خالی کر دیا اور علی گڑھ شہر میں مکان کرائے پر لے کے رہنے لگے۔

امتحان دینے کے فوراً بعد ہی مولانا نے "اردوئے معلیٰ" کے نام سے ایک رسالے کا اجرا کیا اور اپنے لئے انگریز کی نوکری کے بجائے اخبار نویسی کے آزاد پیشے کا انتخاب کیا ۔ رسالہ نکلتا رہا اور مولانا آزادی کی تحریکوں میں شامل رہے ۔ جلد ہی مولانا اپنی ہمت، جذبے اور آزادی کی لگن کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ لوگ ان کی عزت کرتے تھے اور اُن کو پسند بھی کرتے تھے۔

اردوئے معلیٰ میں دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی چھپتے جن میں زیادہ تر کے محرکات آزادی کی تحریک سے ہی میسر آتے۔ ایک دفعہ ایک مضمون "مصر میں انگریزوں کی پالیسی" بھی اردوئے معلیٰ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون کافی تنقید ی نوعیت کا تھا سو انگریز سرکار نے مولانا کو عدالت میں طلب کیا اور مصنف کی بابت استفسار کیا ۔ تاہم مولانا نے کہا کہ یہ رسالہ میرا ہے سو مضمون بھی میرا ہے اور مصنف کا نام نہیں بتایا۔ انگریز سرکار نے اس مضمون کی اشاعت پر مولانا کو دو سال کی سزا اور پانچ سو روپے کا جرمانہ کیا۔ جرمانے میں ان کا کتب خانہ جس میں بڑی قیمتی کتابیں تھیں کوڑیوں کے مول نیلا م ہو گیا۔ جس کا مولانا کو بہت دُکھ ہوا۔ مگر چونکہ انگریز حاکموں کو اُن سے دشمنی تھی اس لئے کتب خانہ جان بوجھ کر نیلام کر دیا گیا۔

قید میں بھی مولانا کو سخت مشقت میں رکھا گیا ۔ اندھیری کوٹھری میں رہنا ، دوسرے قیدیوں کے ساتھ مل کر دن بھر چکی پیسنا۔ نہ اخبار نہ رسالہ، نہ لکھنے پڑھنے کی اجازت۔ بات بات پر دھمکیاں اور سختیاں۔ مولانا کی نظر کمزور تھی ۔ عینک لگاتے تھے مگر جیل میں عینک بھی چھین لی گئی۔ کھانا اتنا خراب کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔

بہر کیف مولانا حسرت اصول پرست انسان تھے اُنہوں نے لاکھ سختیاں اُٹھائی لیکن اپنے موقف سے کبھی سرِ مو انحراف نہیں کیا۔

************

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔

اشک ہو، آنکھیں بھگونا ہو تو پھر

غزل 

اشک ہو، آنکھیں بھگونا ہو تو پھر
آنکھ میں سپنا سلونا ہو تو پھر

کب تلک بخیہ گری کا شوق بھی
عمر بھر سینا پرونا ہو تو پھر

دوست! انٹرنیٹ پر؟ اچھا، چلو 
اور گلے جو لگ کےرونا ہو تو پھر

وہ مری دلجوئی کو حاضر مگر
اُس کا ہونا بھی نہ ہونا ہو تو پھر

اُس کو پانے کی طلب!پر سوچ لو
اُس کو پا نا ، اُس کوکھونا ہو تو پھر؟

نازُکی تو سیکھی اُس نے پھو ل سے
تتلیوں کا بوجھ ڈھونا ہو تو پھر؟

یوں جو خوش ہو اُس کو ہنستا دیکھ کر
اُس کا ہنسنا ،اُس کا رونا ہو تو پھر؟

یوں تو گجروں سے کلائی سج گئی
چاہ اُس کی چاندی سونا ہو تو پھر؟

لوگ کہتے ہیں کہ دُنیا گول ہے
مفلسی کونہ بہ کونہ ہو تو پھر

احمدؔ اپنے دل کو خوش کرنے چلے
اور غم دل کا کھلونا ہو تو پھر؟

محمد احمدؔ​

افسانہ : مفت ہوئے بدنام

مفت ہوئے بدنام
محمد احمد​


پہلی بار جب یہ بات میڈیا پر نشر ہوئی تو میں بھی دہل کر رہ گیا کہ اب نہ جانے کیا ہوگا ۔ مجھے تو یہ بھی خوف ہو گیا تھا کہ طفیل صاحب سارا معاملہ میرے ہی سر نہ تھوپ دیں ۔ اُن سے بعید بھی نہیں تھی بعد میں شاید وہ مجھ سے اکیلے میں معافی مانگ لیتے لیکن تب تک ہونی ہو چکی ہوتی۔

طفیل صاحب ٹیکنیکل بورڈ میں اسسٹنٹ کنٹرولر ایگزیمینیشن ہیں اور میری بد قسمتی دیکھیے کہ میں اُن کا بھی اسسٹنٹ ہوں۔ تین سال قبل جب میں اس پوسٹ پر تعینات ہو ا تو ان دنوں طفیل صاحب بھی اس عہدے پر نئے نئے ہی تھے۔ کچھ عرصہ کام سمجھنے میں لگا پھر اُس کے بھی کافی بعد یہ سمجھ آیا کہ اصل کام یہ نہیں ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ کنٹرولر صاحب کو یہ بات پتہ تھی یا نہیں لیکن میں اور طفیل صاحب یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ بہت کم بچے محنت کرکے پاس ہوتے ہیں۔ باقی بچے یا تو فیل ہو جاتے ہیں یا پھر اُن کا پاس ہونا دوسروں کی محنت کے مرہونِ منت ہوتا ہے۔ میں اور طفیل صاحب یہی محنت کرتے تھے بلکہ یوں کہیے کہ اس محنت میں طفیل صاحب کا کردار مستری اور میرا مزدور والا تھا۔اُجرت کا حساب بھی اسی طرح تھا یعنی مستری کم محنت کرکے زیادہ اُجرت لیتا تھا اور مزدور گدھے کی طرح محنت کرکے بھی مستری کی اُجرت کا ایک تہائی بھی نہیں سمیٹ پاتا تھا۔ بہرکیف بڑی مچھلیوں کے پیٹ بھی بڑے ہوتے ہیں اس لئے مجھے زیادہ شکایت نہیں تھی۔

یوں تو ہم مختلف 'پیکیجز آفر' کرتے تھے کہ جس میں امتحانی کمرے میں حل شدہ مواد بھجوانے سے لے کر امتحانی کاپی میں موجود سپلیوں کی رد و بدل تک شامل تھی تاہم چونکہ روشنی کا فائدہ بھی آنکھ والے ہی اُٹھا سکتے ہیں سو کچھ لوگوں کے حق میں حل شدہ پرچہ جات بھی بے کار جاتے تھے۔ اُن کے لئے اسپیشل پیکیج تھا اور وہی ہماری صنعت کی کیش کاؤ تھی۔ ہم اپنے "ماہرین" سے اپنی نگرانی میں پرچے حل کرواتے اور اپنے "کسٹمرز" کے پرچے کی جگہ ماہرین کی تیار کردہ کاپی لگا دیتے۔ یہ کام کرنے کی اجرت اتنی معقول تھی کہ اس اُجرت سے پلے توانا بدن کے لئے نحیف و نزار ضمیر سے لڑنا مشکل نہیں رہتا۔

مجھے تو یہ ضمیر نام کی چیز یاد بھی نہیں رہتی لیکن بیڑہ غرق ہو خلیق بھائی کا کہ وہ ہر ملاقات پر نہ جانے کون کون سی دلیلیں گھڑ کر لے آتے اور جس دن خلیق بھائی سے ملاقات ہوتی اُس رات نیند کی رانی کے نخرے بڑھ جاتے ۔ خلیق بھائی کا بیڑہ غرق ہونے کی بات میں اکثر کہا کرتا تھا بلکہ ایک آدھ بار تو میں نے اُن کے منہ پر بھی یہ بات کہدی ۔ اُن کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا لیکن پھر وہ مُسکرانے لگے اور میں دوسری طرف دیکھنے لگا۔ ویسے میں دلی طور پر مطمئن تھا کہ خلیق بھائی کا تو سمندری سفر سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے سو اُن کا بیڑہ کیا غرق ہونا ہے ہاں میرے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے اس طرح۔ خلیق بھائی میرے دوست نہیں تھے لیکن دوستوں کی طرح ہی تھے۔ جس زمانے میں میں ناظم آباد میں رہا کرتا تھا یہ میرے فلیٹ کے اوپر والے فلیٹ میں رہتے تھے۔ اُن دنوں ایک دو بار اُن سے اتفاقی ملاقات ہو گئی تو ہم دونوں ساتھ اُٹھنے بیٹھنے لگے کہ میرا بھی اُس علاقے میں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا اور وہ بھی تقریباً ایسے ہی تھے لیکن تب وہ اتنے سنجیدہ مزاج نہیں تھے ورنہ اُن سے ربط و ضبط شاید ہی استوار ہوتا۔ اب بھی ہم اچھے دنوں کی دوستی ہی نبھا رہے تھے ورنہ اب تو اکثر ہماری ملاقاتوں میں بدمزگی ہو جاتی ہے۔ خلیق بھائی ضرورت سے زیادہ اصول پسند واقع ہوئے ہیں اور میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہوں۔

جس طرح خلیق بھائی میری ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اُسی طرح وہ میری اس کہانی میں بھی گُھس آئے۔ بہرحال ہوا کچھ یوں کہ ایک دن، رات کے وقت طفیل صاحب کی کال آئی مجھے اُن کا نمبر دیکھ کر ہی پریشانی سی ہوئی کیونکہ دفتری اوقات کے بعد وہ مجھے انتہائی ضروری کام کے لئے ہی فون کرتے تھے۔

ذرا "اطلاع" تو لگاؤ ۔ طفیل صاحب نے بڑی عجلت اور گھبراہٹ میں بس اتنا کہا اور فون بند کردیا۔
"اطلاع" ایک نیوز چینل تھا جو سنسی خیز خبروں کے لئے مشہور تھا۔ اسے حسنِ اتفاق کہیے کہ اُس روز بجلی بھی موجود تھی۔ میں نے ٹی وی کھول کر مذکورہ چینل لگایا تو وہاں نیوز اینکر بڑی ہیجانی آواز میں کچھ کہہ رہا تھا اور ٹی وی اسکرین پر مارک شیٹ قسم کا کوئی ڈاکیومنٹ دکھایا جا رہا تھا جس میں ہائی لائیٹر سے مختلف سطور کو جگہ جگہ سے رنگین کیا ہوا تھا۔ وقفےوقفے سے مختلف دستاویزات دکھا کر نیوز اینکر پوری شد و مد سے رواں تبصرہ پیش کر ہا تھا۔ جیسے جیسے بات سمجھ آ رہی تھی میرا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا۔ نیوز اینکر ایک ہی بات کو کم از کم پچیس تیس بار دہرا رہا تھا ۔

"یہ ڈاکیومنٹ ان تک کیسے پہنچے ؟" میں نے خود کلامی کی کیفیت میں خود سے ہی سوال جواب شروع کر دیے۔ ٹی وی پر دکھائے جانے والے کچھ ڈاکیومنٹ واقعی اس بات کا ثبوت تھےکہ بڑے پیمانے پر گڑبڑ ہوئی ہے لیکن بہت سے بے ضرر ڈاکیومنٹس بھی اس طرح لال پیلے کرکے دکھائے جا رہے تھے کہ جیسے وہ چارج شیٹ کا اہم ترین حصہ ہو۔

چار چھ منٹ اس خبر کے چھ آٹھ فقروں کو یکے بعد دیگرے دہرانے کے بعد نیوز اینکر نے وعید سُنائی کہ دس بجے کے بلیٹن میں اس سلسلے میں خصوصی رپورٹ پیش کی جائے گی اس کے بعد دوسری خبریں شروع ہو گئیں۔ میں اس اچانک آنے والی اُفتاد سے پریشان تھا کہ یہ سب اس قدر اچانک کس طرح سے ہو گیا اور اتنے اہم دستاویزات نیوز چینل کے ہاتھ کیسے لگ گئے۔ اسی اُدھیڑ بُن میں مجھے خیال آیا کہ طفیل صاحب سے بات کی جائے۔ لیکن طفیل صاحب کا نمبر مستقل مصروف مل رہا تھا۔ میں اندازہ کر سکتا تھا کہ اُن کا نمبر اس وقت کیوں مصروف ہے۔

صدمے اور خوف کی ملی جلی کیفیات لئے میں آگے کے خدشات کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ نہ جانے اس سب معاملے کا کیا نتیجہ نکلے ۔ لیکن فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ انہی سوچوں میں دس بھی بج گئے۔ نیوز چینل والوں نے وہی خبر کچھ بہتر انداز میں رپورٹ کی شکل میں پیش کر دی۔ رپورٹ میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔

اگلے چار چھ دن بہت پریشانی میں گزرے۔ دوسرے دن ہی میں طفیل صاحب کے ساتھ کنٹرولر ایگزیمنیشن کے روم میں بیٹھا ہوا تھا یہ وہی روم تھا جہاں کبھی سالوں برسوں میں ایک آدھ منٹ کے لئے جانا ہوتا تھا۔ کنٹرولر صاحب کا کمرہ تجدیدِ آرائش کے باعث جگمگا رہا تھا لیکن میرا ذہن اس قابل نہیں تھا کہ نئی آرائش کو سراہ سکوں۔ کم بولنے والے کنٹرولر صاحب اس ملاقات میں سب سے زیادہ بول رہے تھے یہ البتہ شکر ہے کہ اُن کا روئے سُخن میرے بجائے طفیل صاحب کی طرف تھا۔ طفیل صاحب اپنی کچھ باتوں کی تائید کے لئے گاہے گاہے مجھ سے بھی مخاطب ہو رہے تھے اور میں ذہن پر زور دیے بغیر طفیل صاحب کی تائید میں ہی بہتری سمجھ رہا تھا۔ پھر یہ میٹنگز صبح شام ہوئیں اور نہ جانے کون کون سے افسران کنٹرولر صاحب سے ملاقات کے لئے آ تے رہے۔ یہ البتہ شکر ہے کہ پہلی بار کے بعد مجھے ان میٹنگز میں نہیں بُلایا گیا۔

چھٹے دن اُسی ٹی وی چینل سے اطلاع ملی کہ ٹیکنیکل بورڈ کی انتظامیہ نے اس معاملے کی مکمل تحقیق تک محکمے کے دو افراد کو معطل کر دیا ہے ۔ چشمِ تخیل کے زور پر میں دیکھ سکتا تھا کہ ان دو افراد کے سانچوں میں سے پھنسا ہوا ایک سر میرا ہی تھا اور تنگ سانچے سے بامشکل گردن گھما کر دیکھنے پر دوسرے سانچے میں طفیل صاحب کی گردن بھی نظر آ رہی تھی۔ میرے چہرہ فق ہو گیا تھا اور میں صدمے کی کیفیت میں اُس دن کو کوس رہا تھا جب میں نے طفیل صاحب کے ساتھ مل کر اس کام کا آغاز کیا تھا۔

سوچتے سوچتے مجھے خیال آیا کہ اگر مجھے معطل کیا گیا ہے تو مجھ تک اطلاع کیوں نہیں پہنچی ابھی تک۔
" شاید کل تک سسپنشن لیٹر کل تک مل جائے" میں نے سوچا ۔

آج بھی طفیل صاحب کا نمبر مستقل مصروف مل رہا تھا ۔ چار چھ دفعہ کوشش کرکے میں نے فون ایک طرف پٹخ دیا۔

ٹی وی پر کرکٹ میچ میں کامیابی پر ماہرین کھلاڑیوں کوقومی ہیرو قرار دے رہے تھے ۔ یہ وہی ہیروز تھے کہ پچھلی سیریز میں شکست کے بعد ماہرین کا خیال تھا کہ ان کی تو ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی۔ پھر اچا نک ٹی وی اسکرین سُرخ ہو گئی اور بریکنگ نیوز کی وعید سُنائی جا رہی تھی۔
"ٹیکنیکل بورڈ واقعے کے ذمہ داران کی معطلی کے خط کی نقل "اطلاع" کو موصول ہو گئی ہے" نیوز اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ بات دُہرائے جا رہا تھا ۔ اور اسکرین پر جھماکوں کے درمیان دھندلا دھندلا اسکین ہوا خط دکھایا جا رہا تھا۔
میری آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں اور میں بے جا اینی میشن میں لپٹی بریکنگ نیوز کے چوکھٹے میں اپنا نام پڑھنے کی کوشش کر نے لگا۔ کافی کوشش کے باوجود وہ نام تو مجھ سے نہیں پڑھے گئے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہو گیا کہ ان دونوں ناموں میں میرا نام کہیں نہیں تھا بلکہ طفیل صاحب کا بھی کہیں ذکر نہیں تھا۔ خوشی کے ساتھ ساتھ مجھے حیرت بھی ہو رہی تھی۔ عارضی ہی سہی دل کو کچھ قرار آ ہی گیا تھا۔ طفیل صاحب سے آج بھی بات نہیں ہو سکی ۔ میں نے بھی زیادہ کوشش نہیں کی۔ اگلے دن پتہ چل ہی جانا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔

ابھی میں اس کیفیت سے باہر نہیں آیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجنے کی آواز آئی اور چند ہی لمحوں کے بعد بچوں نے بتایا کہ خلیق انکل آئے ہیں۔ میری خوشی ایک دم ہی جیسے ہرن ہو گئی ۔ میں ان دنوں خلیق بھائی سے نہیں ملنا چاہ رہا تھا ۔ دو دن پہلے میں اُن کے محلے میں گیا بھی تو اُن سے نہیں ملا بلکہ آج صبح اُن کی فون کال بھی میں نے جانتے بوجھتے موصول نہیں کی۔

لیکن شاید یہی تو وقت تھا کہ جب خلیق بھائی مجھ سے ملنے کو بے چین ہوں گے تاکہ وہ مجھے بتا سکیں کہ وہ ٹھیک تھے اور میں غلط تھا۔ وہ مجھے سمجھاتے تھے اور میں مانتا نہیں تھا۔ شاید وہ مجھے یہی جتانے آئے ہوں کہ میری بات نہیں مانی تو اب بھگتو۔ مجھے اُس لمحے پر ایک بار پھر افسوس ہوا جب پہلی بار میں نے اُن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔

چونکہ بچے بتا چکے تھے کہ میں گھر پر موجود ہوں سو اب اُن سے نہ ملنا انتہائی بے مروتی کی بات ہوتی ۔ سو برسوں پرانی دوستی کا پاس ایک بار پھر مجھے مجبور کر گیا اور میں چار و ناچار ڈرائنگ روم میں پہنچا۔

خلیق بھائی مجھے دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔
"ارے بھائی کہاں غائب ہو؟ فون بھی ریسیو نہیں کر رہے؟" وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
"کہیں نہیں! آپ کی مس کال بعد میں دیکھی" میں نے کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے جھوٹ بولا اور مسکرانے کی کوشش بھی کی۔
خیر خیریت کے بعد خلیق بھائی نے اِ دھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں۔
میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ نہ جانے کب وہ اپنا پینترا بدلیں اور اگلے پچھلے تمام بدلے نکالنا شروع کر دیں۔
لیکن توقع کے برخلاف وہ کافی اچھے موڈ میں نظر آ رہے تھے ۔
"آج تو اپنے کھلاڑیوں نے کمال ہی کردیا ۔ خوب اچھی کارکردگی دکھائی ۔ حد تو یہ ہے کہ اوپنرز نے بھی کافی اچھا کھیلا۔" خلیق بھائی مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔
"خوشی ہوئی کہ کوئی نہ کوئی تو ملک کا نام روشن کر رہا ہے۔"
آج وہ الگ ہی جون میں نظر آ رہے تھے ورنہ کرکٹ سے ان کی دلچسپی واجبی سی ہی تھی۔
"تو کیا آج کل آپ بھی ٹی وی دیکھ رہے ہیں؟" میں نے ایک اچانک خیال آنے پر پوچھا۔
"نہیں ! نہیں تو! " خلیق بھائی نہ جانے کیوں گڑ بڑا سے گئے۔ "بس کرکٹ کی اپڈیٹس دیکھی تھی"۔ مسکرا وہ اب بھی رہے تھے لیکن اب کی بار مسکراہٹ کافی پھیکی ہو چلی تھی۔
خلیق بھائی باقی سب چیزوں کی طرح ٹی وی میں بھی کیڑے نکالنے کے پرانے عادی تھے، اُنہیں ہر پروگرام میں کوئی نہ کوئی قابلِ اعتراض نکتہ مل ہی جاتا ۔ سو اُنہوں نے ٹی وی دیکھنا ہی تقریباً ختم کر دیا تھا۔
"یار کافی پلواؤ ! اچھی سی" خلیق بھائی نے ایک دم ہی فرمائش کردی حالانکہ ابھی چائے کے کپ بھی میز پر ہی رکھے تھے۔ لیکن چونکہ وہ شاذ ہی کبھی کوئی فرمائش کرتے تھے سو میں کافی کا کہنے اندر چلا گیا۔
کافی کا کہہ کر میں واپس آیا تو خلیق بھائی اپنے بیگ میں کچھ ٹٹول رہے تھے۔ پھر اُنہوں نے ایک کتاب میری طرف بڑھائی۔
"بہت عرصے بعد مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب آئی ہے۔ ہمت کرکے لے ہی لی میں نے ۔ " اُنہوں نے مسکرا کر کہا۔
مشتاق احمد یوسفی کو میں بھی شوق سے پڑھتا تھا اور یہ بات خلیق بھائی اچھی طرح جانتے تھے۔
"آپ نے پڑھ لی؟" میں نے کتاب کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں میں نے کافی پڑھ لی ہے لیکن آج کل زیادہ وقت نہیں مل رہا سو تمھارے پاس لے آیا۔ "
کچھ دیر بعد وہ اس کتاب میں سے اپنی پسندیدہ حصے پڑھ کر سنانے لگے ۔ کافی ، مشتاق احمد یوسفی اور خلیق بھائی کی خوش مزاجی تینوں چیزوں نے مل کر ایسا خوشگوار ماحول بنا دیا کہ میں اپنی تمام تر فکر اور شرمندگی بھول گیا۔
اُس رات خلیق بھائی ساڑھے بارہ بجے تک بیٹھے رہے اور جاتے ہوئے یوسفی صاحب کی کتاب چھوڑ گئے۔
میں تقریباً دو بجے تک کتاب ادھر اُدھر سے پڑھتا رہا اور پھر سو گیا۔ آج تقریباً ایک ہفتے کے بعد مجھے ایسی پرسکون نیند آئی تھی۔

دوسرے دن دفتر پہنچنے پر پتہ چلا کہ جن دو لوگوں کو معطّل کیا گیا ہے وہ ہمارے ہی ڈپارٹمنٹ میں تھے لیکن صرف تنخواہ وغیرہ لینے آتے تھے اور اُن کی نوکری تعلقات اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چل رہی تھی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں اور اِس حساب سے دیکھا جائے تو ہم تو ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔ کم از کم محنت تو کرتے ہیں اور اپنی تنخواہ حرام تو نہیں کرتے۔

دو چار دن مزید افرا تفری رہی لیکن پھر آہستہ آہستہ دفتر کے معاملات معمول پر آگئے۔ میں بھی کافی 'ریلیکس' ہو گیا۔ خلیق بھائی دو چار دن بعد چلے آتے اور بہت اچھا وقت گزرتا۔ پھر شاید اُن کی مصروفیات بڑھ گئیں تو ملاقاتوں کا درمیانی وقفہ بڑھ گیا۔

اسی طرح کرتے کرتے چھ آٹھ ماہ بیت گئے۔ ایک دن طفیل صاحب چھٹی کے بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے
"بھئی عاطف میاں اب کمر کس لو کام شروع ہونے والا ہے۔ " وہ مسکرا تے ہوئے میری میز کے سامنے رکھی کُرسی پر بیٹھ گئے۔
"کون سا کام؟" میں نے اُن کی طرف حیرت سے دیکھا ۔
"ارے بھئی اپنا کام ، اور کونسا کام۔ اس بار کافی زیادہ 'کسٹمرز' آ رہے ہیں بس اب تم تیار ہو جاؤ۔" وہ بدستور مسکرا رہے تھے۔
"نہ جانے میڈیا والوں نے کس نیت سے یہ سب کیا لیکن اس سب کاروائی سے یہ ہوا کہ ہماری مارکیٹنگ اچھی ہوگئی ۔ ورنہ تو بے چارے لوگ ڈر ڈر کر پوچھتے پھاچھتے بڑی مشکل سے ہم تک پہنچتے تھے"۔ اُن کی مسکراہٹ گہری ہو چلی تھی۔
طفیل صاحب کی بات کچھ کچھ میری سمجھ آ رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اب کی بار کچھ اس ترتیب و انتظام سے کام کیا جائے کہ بعد میں 'مشکل' نہ ہو۔ آخر کو یہ ایک اہم کام تھا اور اس سے بچوں کا مستقبل وابستہ تھا۔قریب قریب طفیل صاحب جیسی مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر بھی آ چلی تھی۔


******

رعنائی خیال پر پہلی نثری نظم



شعر و ادب  کی  دیگر نو دریافت  اصناف کی طرح نثری نظم  بھی اب کافی مشہور ہو گئی ہے۔ مقبول اس لئے نہیں کہوں گا کہ شعراء اور اساتذہ کی ایک کثیر تعداد اسے شاعری تسلیم ہی نہیں کرتی۔  میرا خیال ہے کہ یہ بات   ٹھیک  ہی  کہ جس شاعری میں آہنگ نہ ہو، نغمگی نہ ہو اُسے شاعری کیوں کر کہا جائے۔  معنوی اعتبار سے بہت سی  نثری نظمیں بہت اعلیٰ بھی ہوتی ہیں لیکن پھر وہی بات ہے کہ  ہوتی تو وہ "نثری" نظم  ہی ہیں۔  سو بھلا وہ کیسی نظم ہے کہ جسے اپنے  نظم ہونے کے لئے "نثری" کے سابقے کی احتیاج ہے۔ 

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ  اگر کسی نثری نظم کے تمام تر "قاطعِ سطور"  یعنی لائن بریکس ختم کر دیئے جائیں تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ نثر ہے نثری نظم ۔ کیونکہ پابند نظم کو تو بحر کے اُتار چڑھاؤ کی مدد سے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن نثری نظم میں یہ بات مکمل طور پر 'شاعر' کی صوابدید پر ہی منحصر ہوتی ہے۔ 

بہر کیف یہ تو  ادبی حلقوں کی  دیرینہ بحث ہے اور آئندہ بھی نثری نظم  کے حامیوں اور مخالفین کے باہم دست و گریباں رہنے کے امکانات روشن ہیں۔   سو اس بحث سے قطع نظر  آج پہلی بار  بلاگ پر ایک نثری نظم قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کر رہا ہوں ۔ یہ نظم ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی جریدے "شب خون"  کے ایک پرانے شمارے سے لی گئی ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔ 

دشمن
نثری نظم

گواہوں کے بیانات سے 
ثابت ہو چکا ہے 
کہ  ملزم مذہبی کتابیں پڑھتا ہے
اور خدا پر اعتقاد رکھتا ہے
مائی لارڈ ! 
عام آدمی کی طرح نظر آنے والا
یہ شخص 
ایک عادی مجرم ہے
ایمانداری کے کئی معاملوں میں 
رنگے ہاتھوں پکڑا جا چکا ہے
کئی بار 
سچ  بولنے کی  سزا بھی پا چکا ہے
دراصل یہ ایک خطرناک مجرم ہے
جسے چسکا لگ گیا ہے
شریف اور باعزت لوگوں کی 
مخالفت کرنے 
اور حق کے لئے لڑنے کا

صادق

ایلینز ۔۔۔ ممتاز مفتی


یہ  ایک انوکھے سفر کی کہانی ہے۔

آپ نے عجیب و غریب سفروں کی کہانیاں سنی ہیں ۔  سند باد کے سفر۔ الف لیلوی سفر،  گلیور کے سفر، بالشتیوں میں دیو قامتوں میں ۔

لیکن صائم کی ماں کا یہ سفر بالکل انوکھا تھا۔ وہ کبھی عازمِ سفر نہ ہوئی تھی۔  نہ ہی رختِ سفر باندھا۔ نہ ہاتھ میں لگام تھامی تھی نہ پاؤں رکاب پر رکھتا تھا۔

نہ وہ کبھی جہاز میں سوار ہوئی تھی نہ جہاز طوفان سے ٹکرایا تھا نہ وہ بہہ کر کسی انجانے جزیرے کے ساحل پر جا لگی تھی۔ پھر پتہ نہیں کیسے۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ ایک ان جانی بے گانی مخلوق اس کے ارد گرد بھیڑ لگائے کھڑی اُسے یوں دیکھ رہی ہے جیسے وہ عجوبہ مخلوق ہو۔


یہ سفر اس لحاظ سے انوکھا تھا کہ اماں نے خود حرکت نہ کی تھی۔ بلکہ ایک ایلین ماحول خود بخود چل کر اس کے ارد گرد آ کھڑا ہوا تھا۔

وہ  سوچنے لگی۔۔۔! یا اللہ یہ میں کہاں آ گئی ہوں ۔ یہ کون لوگ ہیں ۔ یہ لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں ۔ ان ایلینز میں بہت سے چہرے مانوس سے دکھتے تھے۔  جیسے وہ اُنہیں جانتی تھی، جیسے وہ اُس کے ہم سفر رہے تھے۔  لیکن پتہ نہیں کیوں ایک نظر میں وہ مانوس دکھتے ، دوسری نظر میں ایسا لگتا جیسے بیگانہ ہوں ۔ ایلینز۔

پھر امّاں کو  اپنے آپ پر شک پڑنے لگا۔۔۔ میں کون ہوں ۔۔۔ کہاں ہوں ۔ میرا مصرف کیا ہے۔۔ کس لئے ہوں ۔ کیوں ہوں ۔

اُسے کچھ سمجھ نہ آیا۔۔۔ وہ سوچتی رہی۔  محسوس کرتی رہی۔  سوچتی رہی۔ حتیٰ کہ بیمار پڑ گئی۔ ڈاکٹر نے ٹوٹیاں لگا کر اُسے دیکھا۔

 ڈاکٹر تو صرف (SYMPTOMSدیکھتے  ہیں انہیں بیماری سے دلچسپی ہے۔  انسان سے نہیں ۔  اُنہیں ابھی تک شعور نہیں ہوا کہ بیماری روح سے پھوٹتی ہے۔  ڈاکٹر بھلا کیا کہتا، بولا مریضہ کو کوئی بیماری نہیں ، صرف کمزوری ہے۔  بڑھاپا ہے۔

جس کا فکر جسم تک محدود ہو وہ کیسے سمجھے گا کہ  بڑھاپا عمر سے نہیں ہوتا بلکہ جینے کی امنگ نہ ر ہے تو اعضاء بوڑھے ہو جاتے ہیں ۔


اماں میں جینے کی اُمنگ نہ رہی تھی۔

جینے کی امنگ تبھی قائم رہتی ہے جب کوئی خواہش، کوئی خیال، کوئی اُمید ،کوئی فرد، کوئی مطمحِ نظر ، کوئی سراب آپ کو انگلی پکڑ کر بہلائے ، جینے کی اُمنگ تبھی قائم رہتی ہے جب آپ  کی اپنی حیثیت ہو۔ آپ کو احساس ہو کہ آپ کا کوئی مصرف ہے۔

کئی ایک سال سے اماں محسوس کر رہی تھی کہ اس کا کوئی مصرف نہیں رہا۔ وہ ایک فالتو ہستی ہے۔


رضائی میں پڑی  ہوئی سلوٹ میں جنبش ہوئی۔ ہڈیوں کے ایک ڈھانچے نے سر نکالا۔ بے نور  آنکھوں نے صائم کی طرف دیکھا۔  نگاہیں  صائم سے پار ہو گئیں ۔ اگر آسیہ کے لئے صائم میں کوئی مفہوم ہوتا تو یقیناً  نگاہ صائم پر رُک جاتی۔    آنکھوں میں  لگاؤ کی چمک لہراتی لیکن صائم تو عرصہ دراز سے اس کے لئے ایلین بن چکا تھا۔

صائم آسیہ کا اکلوتا بیٹا تھا جو اس وقت ماں کی چارپائی کی پائینتی پر بیٹھا ہوا تھا۔  اس وقت کمرے میں ماں اور بیٹے کے سوا کوئی نہیں تھا۔

آٹھ دن سے وہ اس کی پائینتی پر بیٹھا تھا۔  آٹھ دن سے آسیہ مر رہی تھی۔

دفعتاً اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں تڑپ پیدا ہوئی۔ آسیہ کی مضطرب لیکن کراری آواز گونجی۔ اب کیا دیر ہے۔  اب کس کا انتظار ہے۔  تم مجھے لے جاتے کیوں نہیں ۔ اس نے ارد گرد کی فضا کو مخاطب کر کے کہا۔  آسیہ کے بات کرنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کمرے میں صائم کے علاوہ اور لوگ بھی موجود تھے۔

شاید روح ہو ،   ہیولے ہوں ، فرشتے ہوں ۔

آٹھ دن سے وہ آسیہ کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔  آٹھ دن سے وہ انہیں ڈانٹ رہی تھی۔

میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ مجھے لے جاتے کیوں نہیں ۔ اب کیا دیر ہے۔

اس نے گھر کے باقی لوگوں سے بات کرنی چھوڑ رکھی تھی۔

گھر میں  چند ایک لوگ ہی تو تھے۔  صائم، اس کی دو نوجوان بیٹیاں سلمیٰ ستارہ ایک بیٹا سمیع  بہو اسما اور صائم کی بیوی ثمینہ۔

عرصہ دراز سے آسیہ ان سب افراد کی زندگیوں سے خارج ہو چکی تھی۔

اگرچہ ان سب کے دلوں میں بوڑھی امّاں کی بڑی عزت تھی۔ لیکن عزت تو کوئی تعلق نہیں ہوتا۔  عزت تو کوئی جذبہ نہیں ۔  عزت تو تہذیب کی ایک مصنوع ہے۔  جس طرح پلاسٹک کے پھول ہوتے ہیں ۔ اماں وہ شہد کی مکھی تھی جس کے ارد گرد پلاسٹک کے پھولوں کا باغ سجا ہوا تھا۔

صرف ایک گھرانے کو اماں سے قلبی تعلق تھا۔ وہ ڈاکٹر صولت کا گھر تھا۔  ڈاکٹر صولت اماں کے بھائی کا بیٹا تھا۔  اس کا گھر ایک جزیرہ تھا جہاں جدید دور کی آندھی  اثر انداز نہ ہوئی تھی۔ جہاں ماضی ابھی تک حال کا بہروپ دھارے آلتی پالتی مار کر بیٹھا تھا۔


ڈاکٹر صولت کا گھر واحد گھر تھا جہاں امّاں کے لئے  ایلینز نہیں بستے تھے۔  جہاں وقت کو دوام مل گیا تھا جہاں ابھی تک سنہ ١٩١٠عیسوی رائج تھی۔ جہاں بڑی امّاں کو محسوس ہوتا کہ وہ اصلی پھولوں پر بیٹھی ہے۔

 لیکن صائم کے لئے ڈاکٹر صولت کا گھر ایک (ODD) مقام تھا۔   اُسے صولت سے شکایت تھی کہ اس نے گھر کو حنوط کر رکھا ہے۔  اور اس حنوط شدہ گھر نے آسیہ کو اس قابل نہ چھوڑا کہ کہیں اور  رہ سکے۔  صولت کی نسبت صائم کا تعلق آسیہ سے کہیں زیادہ  پرانا اور گہرا تھا۔

آسیہ اور صائم نے  سال ہا سال اکھٹے مل کر دکھ سہے تھے۔  اکھٹے مل کر دکھ سہنا گہرا تعلق پیدا کر دیتا ہے۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب گردو  پیش ایلین نہ تھا۔ جب آسیہ اپنے دور میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ جب لوگ اس کی بات سمجھتے تھے۔  اسے اہمیت دیتے تھے۔  جب زندگی میں اس کا ایک مقام تھا ، مفہوم تھا۔

اُن کے دکھوں کی وجہ صرف حالات کی ناسازگاری تھی۔ اس  ناسازگاری کی بنیاد ایک عام سا حادثہ تھا کہ خاوند نے دوسری شادی کر لی تھی  اور آسیہ کو ہمیشہ کے لئے گھر کی نوکرانی کی حیثیت دے دی گئی تھی۔

جس باورچی خانے میں اسے دن رات کام کرنا پڑتا تھا۔ وہاں سے اسے  اپنے اور اپنے بیٹے کے لئے طعام نہیں ملتا تھا۔ اس لئے مالک اور مالکن  کو کھانا کھلانے  کے بعد اسے اپنا چولہا جھونکنا پڑتا۔

مالک کے باورچی خانے کا ایک فائدہ ضرور تھا کہ جب وہاں بھنڈی پکتی تو آسیہ بھنڈیوں سے اتاری ہوئی ٹوپیاں لے آتی اور ان سے اپنی ہانڈی پکاتی۔ جب وہاں کریلے پکتے تو  کریلوں سے چھیلا ہوا بور  پکانے کو مل جاتا۔ نوکرانی کے بیٹے کے لئے بور کریلے تھا۔ ٹوپیاں بھنڈیاں تھیں ۔ چھلکے سبزیاں تھیں ۔

نوکرانی کے بیٹے نے بچپن میں رات کے وقت کبھی کھانا نہ کھایا تھا۔  اس لئے کہ مالک رات گئے گھر آتا تھا اور نوکرانی کو کھانا کھلانے سے پہلے چھٹی نہیں ملتی تھی۔ کھانا کھلا کر جب وہ آوٹ ہاوس پہنچتی تو بیٹا سوچکا ہوتا۔ پھر وہ چولہا جھونکتی۔  چھلکے پکاتی  اور جب ہانڈی تیار ہو جاتی تو بیٹے کو جگاتی۔  اسے کھانا کھلاتی۔

بیٹا کھا تو لیتا مگر جاگتا نہ تھا۔ اس لئے اسے یاد نہیں تھا کہ بچپن میں اس  نے کبھی رات کا کھانا کھایا ہو۔

پھر مالک کا اسٹیٹس اونچا ہو جانے پر  ایک ٹرینڈ با وردی نوکر رکھنا لازم ہو گیا۔ اس لئے آسیہ کو نکال دیا گیا۔ اور ماں بیٹا  آزاد ہو گئے۔

آزادی  نے اُنہیں نئے مسائل سے دو چار کر دیا الاؤنس بہت قلیل تھا ضروریات بڑھتی ہی چلی جا رہی ہی تھیں ۔

بڑھتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ماں بیٹے کو محنت مزدوری کرنی پڑی اُنہوں نے مل کر چار پائیاں بُنیں ۔ کتابوں پر جلدیں باندھیں ۔ کاغذ کے پھول بنائے۔  پتنگ بنائے۔  دھاگا خرید کر اس پر مانجھا لگایا تاکہ دور بیچ سکیں ۔ بچوں کے کھلونے بنائے۔  آسیہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا محنت مزدوری کرے۔  اس کی خواہش تھی کہ ایک سلائی مشین خریدے اور اکیلی  سلائی کا کام کرے لیکن اتنے پیسے نہ تھے۔  پھر کسی مخیر نے قرض کے طور پر ایک پرانی گھسی پٹی مشین خردی دی اور کپڑے سینے لگی۔

آسیہ ہر فن مولا عورت تھی۔ وہ ہر کام کر سکتی تھی۔  وہ ہر عام سے عام کام  میں بھی انفرادیت کی کلیاں ٹانک دیا کرتی تھی۔  انوکھے کام سوچا کرتی، انوکھی چیزیں بنایا کرتی۔ لیکن یہ اس دور کی بات  ہے جب ہاتھ کے کام کی قدر نہ تھی قیمت نہ تھی۔  ان کا باہمی تعلق بہت گہرا تھا۔ اس تعلق کے کئی رُخ تھے۔  ماں بیٹے کا تعلق، مظلومیت کا تعلق، غربت کا تعلق، مزدوری کا تعلق، دکھ کا تعلق۔


اگر  صائم علم حاصل نہ کرتا۔ اور وہ دونوں ہمیشہ کے کے لئے مزدور رہتے۔  محنت اور مشقت بھری زندگی بسر کرتے تو یہ  تعلق جوں قائم رہتا۔ لیکن علم قینچی بن کر آیا اور اس عظیم تعلق کے پُرزے اُڑا دیے۔

شاید علم دوست  اس پر احتجاج کریں اور اپنی جواز پسندی کے تحت تاویل پیش کریں کہ جو خلوص بھرے تعلق کے پُرزے اُڑا دے وہ علم نہیں ہو سکتا۔ مجھے کسی حتمی علم کا تو نہیں پتہ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ جو رائج الوقت ہو  وہی علم ہوتا ہے۔  ہر دور میں رائج الوقت علم کا خصوصی رُخ ہوتا ہے۔

آسیہ کے دور میں ایمان لانا تھا۔ صائم کے دور میں شک کرنا۔  تاریخ شاہد ہے کہ علم کا رُخ ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہا ہے صائم کے زمانے میں عقل و خرد کا دور تھا۔ جوں جوں وہ علم حاصل کرتا گیا۔  جوں جوں عقل و خرد کی آنکھیں کھلتی گئیں توں توں جذبہ مضحکہ خیز ہوتا گیا۔ تعلقات کٹتے گئے۔

صائم کو آسیہ کے خلاف کئی ایک شکایات پیدا ہو گئیں ۔ اماں ایسے مرد سے شادی کرنے پر کیوں رضا مند ہوئی جو ایک عورت کا ہو کر نہیں رہ سکتا تھا بلکہ جسے عورت ذات سے دلچسپی تھی۔ اماں نے اپنے ہی گھر نوکرانی بن کر  رہنے کو کیوں منظور کیا۔ اماں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کیوں نہ کی۔ اماں نے اندھی وفا شعار کو کیوں اپنائے رکھتا۔ شاید امان غم خور۔  شاید اماں ایذا پسند ہو۔

آہستہ آہستہ صائم کی نگاہ میں مظلوم اماں تسکین پسند آسیہ نظر آنے لگی۔ دکھی اماں ایذا پسندی کی لذّت سے سرشار دکھائی دینے لگی۔ یوں باہمی مظلومیت کا تعلق ٹوٹتا گیا۔   دکھ کا تعلق ٹوٹتا گیا۔ مزدوری کا تعلق  ٹوٹتا گیا۔ ایذا پسند کے لئے محنت جد و جہد نہیں ہوتی۔ دکھ دکھ نہیں ہوتا۔ بلکہ انا کی تسکین ہوتی ہے۔  بطخ کے لئے جوہڑ ہوتا ہے۔

اس عقل و دانش  بھری سوچ بچار کی وجہ سے ایک ایسا دن آیا جب دونوں کے درمیان صرف ایک تعلق باقی رہ گیا۔ بیٹے اور ماں کا تعلق۔ لیکن بیٹے اور ماں کا تعلق تو ایک عارضی تعلق ہے جو صرف اس وقت تک قائم رہتا ہے  جب تک بیٹا ماں کا محتاج ہوتا ہے وہ تو ماں کا بیٹے سے تعلق ہے جو واحد دائم تعلق ہے۔

چونکہ صائم  ماں کا محتاج نہیں رہا تھا اس لئے وہ تعلق بھی ٹوٹ چکا تھا۔  صرف برائے نام باقی تھا اس برائے نام تعلق کو ہم رسمی  طور پر احترام بھی کہتے ہیں ۔

احتراماً  صائم آٹھ روز سے امّاں کی پائنتی پہ بیٹھا تھا۔ اور آٹھ روز سے امّاں مسلسل مر رہی تھی۔

دیر تک وہ رضائی میں پڑی ہوئی سلوٹ کی طرف دیکھتا رہا۔  کوئی جنبش نہ ہوئی۔

دفعتاً اس کے ذہن میں ایک خیال اُبھرا۔ شاید اُس نے پھر سے غور سے امّاں کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہ میں ڈر نہیں بلکہ امید کی جھلک تھی۔ جیسے اس امید نے  آنکھوں  میں دیا روشن کر دیا ہو۔

چونکہ اماں نے منہ رضائی میں ڈھانپ رکھا تھا۔  صائم نے بیٹھے بیٹھے اندازہ لگایا کہ ماں کا دل کہاں  ہو گا۔ پھر وہ اس مقام کو ٹکٹکی باند کر دیکھتا رہا۔ دیکھتا رہا کہ حرکت ہے یا نہیں ۔

وہ مقام بالکل ساکت تھا۔

اس کے دل سے ایک ہلکی سی آواز آئی جیسے کسی نے اطمینان کا لمبا سانس لیا ہو۔

پھر ایک سرگوشی سی اُٹھی۔ اچھا  ہوا بچاری اس عذاب سے مخلصی پا گئی۔

اس کے اندر رچی بسی  ہوئی عقل بول رہی تھی۔

پتہ نہیں کبھی کبھی وہ سرگوشیوں میں کیوں بولتی تھی۔ ایسے کیوں بولتی تھی جیسے وہ احساسِ  گناہ  سے بھیگی بھیگی ہو۔

اس کے اندر رچی بسی عقل تو گھر کی ملکہ تھی۔ عرصہ دراز سے گھر پر اس کا راج تھا پھر وہ سرگوشیوں میں بات کیوں کرتی تھی۔ کس  سے ڈرتی تھی۔ صائم کے دل میں وہ کون تھا جس کے ڈر سے سہم جاتی۔ شرمسار ہو جاتی۔ ندامت سے بھیگ جاتی اس کے آواز پر  زیرِ لبی  ہو کر رہ جاتی۔

صائم کو تو اپنی عقل پر ناز تھا۔ وہ اپنے آپ کو دانشور سمجھتا تھا۔ محفلوں میں جان بوجھ کر بلند آواز میں ایسے ادراکی نقطے بیان کرنے کا عادی تھا جو دوسروں کو چونکا دیں ۔

محفلوں کی بات چھوڑیے۔  اس نے کئی بار اپنی عقل وہ دانش کے بل بوتے پر ماں سے کہہ دیا تھا اماں جب تم مرو گی تو میں دیگیں چڑھاؤں گا۔ غریبوں کو کھانا بانٹوں گا۔ شکرانے کے نفل پڑھوں گا کہ یا اللہ تیرا بڑا احسان ہے کہ تو نے میری ماں کو اتنی لمبی عمر  دی اور ماں کے ساتھ اتنی دیر اکھٹے رہنے کا موقع عطا کیا۔ اور اماں میں گھر والوں سے کہہ دوں گا کہ میری ماں کے مرنے پر کوئی نہ روئے۔  کوئی  بین نہ کرے۔  رونا اور بین کرنا تو ناشکری کی مترادف ہے۔

آسیہ کی عمر 95 سال کی تھی۔ صائم سمجھتا تھا کہ ساٹھ ستر سال کے بعد موت زحمت بن جاتی ہے۔

صائم خود ستر سال کا ہو چکا تھا خود اس کے اپنے ارد گرد ایلین ماحول قائم ہو چکا تھا۔ اس کے اپنی بیٹیاں سلمیٰ اور ستارہ اس کے خیالات اور احساسات سے بیگانہ تھیں بالکل ایسے ہی جیسے وہ خود ماضی میں اماں سے بے گانہ ہوا تھا۔

اماں سے ایلین بننے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔  اماں جدید تعلیم سے آراستہ نہیں تھی۔

لیکن سلمیٰ اور ستارہ کے ایلین بننے کی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ صائم کا ماں سے تعلق تو علم نے کاٹا تھا۔ لیکن اولاد سے کٹنے کی ذمہ داری کس پر تھی۔

اس ڈر کے مارے کہ اس کے اپنے بچے اس سے کٹ نہ جائیں وہ مسلسل علم حاصل کرتا رہا تھا۔ رائج الوقت علم  زمانے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا تھا  کہ پیچھے نہ رہ جائے۔  پھر بھی وہ پیچھے رہ  گیا تھا۔ کیوں ؟

اس مسئلے پر وہ سوچتا رہا تھا۔ سوچتا رہا تھا۔  ایک بات تو یقینی تھی کہ وہ بے علمی کی وجہ سے پیچھے  نہیں رہا تھا۔ دانش کی وجہ سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ نئے فکر سے ناواقفیت کی وجہ سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ صائم نے کبھی نہ سوچا تھا کہ وہ علم ہی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا تھا۔ شاید نئی نسل علم و دانش چھوڑ کر پھر سے جذبے کے پیچھے چل پڑی تھی یہ سوچے بغیر کہ جذبہ تو راستہ ہوتا ہے منزل نہیں ۔

منزل کیسی۔   ان کے جذبے کا تو کوئی رُخ ہی نہ تھا۔ صرف شدت ہی شدت تھی۔ ہانڈی آگ پر چڑھی تھی مگر ہانڈی میں تھا کیا؟ سوچ سوچ  کر وہ ہار گیا مگر سمجھ کچھ بھی نہ آیا تھا۔

مثلاً سلمیٰ کو فلم اس لئے پسند آتی کہ اس میں کوئی خاص اداکار ہوتا۔ اگر وہ اداکار ہوتا تو سب کچھ آپ ہی آپ ہو جاتا۔  فلم کی کہانی عمدہ ہو جاتی۔ فوٹو گرافی شاندار ہو جاتی۔ مکالمے چست ہو جاتے۔

ستارہ کو ٹی وی سیریز اس لئے ناپسند ہوتی  کہ اس میں کام کرنے والی کسی ایکسٹرا عورت کی شکل و صورت ایسی ہوتی   کہ دیکھ کر اس ے گھن آتی۔

سلمیٰ سمجھتی کہ کالج کی فلاں پروفیسر اس قدر عمدہ پڑھاتی ہے کہ ایک ایک لفظ دل نشین ہو جاتا ہے۔  اس لئے کہ  وہ بڑی پیاری ہے۔  کتنی پیاری ہے وہ۔  سلمیٰ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہ تھی کہ کوئی بد شکل پروفیسر اچھا پڑھا سکتی ہے۔

ستارہ سمجھتی تھی کہ فلاں مضمون اس لئے اچھا ہے کہ فیشن ایبل سرکلز میں اس کا ذکر رہتا ہے اور فلاں مضمون اس لئے بُرا ہے کہ اس میں دقیانوسی سوچیں بھری پڑی ہیں ۔

اتفاقاً صائم نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں سلمیٰ کھڑی تھی۔ بال لٹک رہے تھے چہرا ستا ہوا تھا۔ سر دروازے کی چوکھٹ سے لگا ہو ا تھا۔  ٹکٹکی باندھے وہ آسیہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔

سلمیٰ حزن و ملال کی تصویر بنی کھڑی تھی۔

گھر کے سارے افراد حزن و ملال سے بھرے ہوئے تھے۔  سارا ماحول حزن و ملال سے  بوجھل ہو رہا تھا۔

اس لئے نہیں کہ ماں یا دادی اماں مر رہی تھی۔

بلکہ اس لئے کہ گھر میں موت گھس آئی تھی چاروں طرف منڈلا رہی تھی۔ سارا گھر موت سے یوں لبالب بھرا ہوا تھا جیسے انار دانوں سے  ہوتا ہے۔

ان  جانے میں گھر کا ہر فرد آرزو مند تھا کہ وہ بوجھ اٹھ جائے۔  بوجھل بورڈم دور  ہو جائے۔  گھر کا موڈ بحال ہو جائے۔  چاہے بوڑھی اماں پر کچھ بیت جائے۔

سلمیٰ نے اشارے سے پوچھا کہ بڑی اماں کا کیا حال ہے۔

صائم نے مایوسی میں سر ہلا دیا۔ سلمیٰ کی اداسی اور گہری ہو گئی۔ سر ڈھلک گیا ، بال لٹکنے لگے اور ساتھ ہی آنکھوں میں اُمید کی کرن ناچنے لگی۔

سلمیٰ ایک جذباتی لڑکی  تھی۔ اسے آسیہ سے بڑی محبت تھ لیکن کیا کرتی، اپنی مصروفیتوں کی وجہ سے مجبور تھی۔ اس کی چہیتی سہیلی شانی کے بیاہ کو صرف آٹھ دن باقی رہ گئے تھے۔  اس نے شانی سے وعدہ کر رکھا تھا کہ اس کے بیاہ پر ملتان آئے گی۔ وہ چاہتی تھی کہ چاہے کچھ ہو جائے لیکن اس کے ملتان جانے میں رخنہ نہ پڑے اور اگر اماں یونہی پڑی رہی تو وہ ملتان نہیں جا سکے گی۔

پہلے ہی اماں کی بیماری کی وجہ سے سلمیٰ کی ساری روٹین تباہ ہو چکی تھی۔

مثلاً فون ہی لیجے۔

فون اس برامدے میں فکس کیا ہوا تھا جو امّاں کے کمرے سے ملحق تھا۔ امّاں کی وجہ سے سلمیٰ فون کو آزادانہ طور پر استعمال نہیں کر سکتی تھی۔

پہلے تو عادی طور پر وہ ہر آنے والی کال کو بڑے شوق سے موصول کیا کرتی تھی۔

ان کالوں  میں زیادہ تر رونگ نمبر ہوتے تھے وہ ان رونگ نمبروں کو بڑے نخرے سے جھاڑ پلا دیا کرتی۔ یا بڑے تہذیب یافتہ  انداز سے رونگ نمبر کا مذاق اُڑا دیتی۔

خاص سہیلیوں کے علاوہ سلمیٰ کو کسی خاص رائٹ یا رونگ نمبر سے دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن رونگ نمبر کو کاٹنے میں کتنا مزا آتا تھا۔

واٹ فن۔۔۔ اظہار لگاؤ کے جواب میں اظہارِ  بے نیازی میں کتنی لذت ہوتی ہے۔

اماں کی بیماری کی وجہ سے وہ سہیلیوں سے بھی بات نہیں کر سکتی تھی۔ پہلے تو وہ  فون پر گھنٹوں  باتیں کیا کرتی تھی۔ پتہ نہیں کیا باتیں کرتی تھی۔ پاس کھڑے شخص کے بھی کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔

فون پر وہ لمبے لمبے وقفوں کے بعد ایک ایک لفظ بولتی رہتی۔ اچھا۔ کیوں ۔ بور۔ موڈ نہیں ۔  وہ کیسے۔  ایسے  الفاظ یا پھر خالی ہنس دیتی۔ چھوٹی ہنسی لمبی ہنسی۔ مہذب ہنسی جس میں ہنسی نہ ہوتی البتّہ آواز کے زیرو بم میں جاذبیت ضروری ہوتی ہے۔

سلمیٰ کے لئے امّاں کی صحت یا بیماری اہم نہ تھے۔  اہم بات تو یہ تھی کہ اس کی روز مرّہ بحال ہو جائے۔

ستارہ کو بھی  اماں سے بڑا لگاؤ تھا لیکن وہ بھی مجبور تھی۔

ستارہ نے اپنی تمام تر اہمیت کا انحصار ہر امتحان میں کلاس میں فرسٹ آنے پر رکھا ہوا تھا۔ امّاں کی بیماری کی وجہ سے سارے گھر پر جو بوجھ پڑا ہوا تھا۔  وہ اس کی پڑھائی میں مخل ہو رہا تھا۔  اسے فکر لگ گئی تھی  کہ کہیں رابعہ اُس کی پوزیشن نہ ہتھیا لے۔

رابعہ وہ بدصورت  بھدی لڑکی تھی جو رٹا لگا لگا کر ہر امتحان میں اس کے پیچھے پیچھے چڑیل کی طرح لگی ہوئی تھی اور ہر بار سیکنڈ آتی تھی۔  کہیں وہ چڑیل میری جگہ نہ لے لے۔   ستارہ کو صرف یہی  ایک فکر لگا رہتا تھا۔  ہے اللہ اماں کی بیماری کیا مصیبت ہے۔  اس مصیبت سے کب جان چھٹے گی اس اس بات پر غصہ آتا تھا کہ امّاں ڈاکٹر کا علاج کیوں نہیں  کراتی۔

ستارہ کی بات سچی تھی۔   عرصہ دراز سے اماں نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ علاج نہیں کرائے گی۔ اسے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں تھا۔

اب کیا حال ہے۔  صائم کی بیوی ثمینہ نے کمرے میں داخل ہو کر پوچھا۔

صائم نے مایوسی میں سر ہلا دیا۔

ثمینہ چار پائی پر بیٹھ گئی وہ حزن و ملالی سے نُچڑ رہی تھی۔

ثمینہ اور آسیہ کے مابین خدا ترسی کے سوا کوئی تعلق نہ تھا۔ ثمینہ ایک مذہبی عورت تھی مذہب اس کے صرف خوفِ خدا تھا۔  وہ بیچاری خود اس گھر میں اکیلی تھی۔ وہ خود ایلینز میں گھری ہوئی تھی۔ وہ کر ہی کیا سکتی تھی۔

اگرچہ آسیہ اور ثمینہ کا ساس بہو کا رشتہ تھا لیکن وہ رشتہ ہمیشہ برائے نام رہا تھا۔ سارا قصور آسیہ کا تھا۔ اگر وہ حکم چلانا  جانتی تو ساس کا مرتبہ حاصل کر لیتی۔ لیکن وہ تو ازل سے حکم بجا لانا جانتی تھی۔ چوکی پر بیٹھ کر حکم چلانا اُس کے بس کا روگ نہیں تھا۔  اس لئے بیتے کے گھر میں اس کی کوئی حیثیت قائم نہ ہو سکی تھی۔  کیسے ہوتی خود بیٹے نے اسے قائم نہ ہونے دیا تھا۔  جب بھی اماں  دل کی بات کرتی تو صائم عقل و دانش کی قینچی سے اسے کاٹ دیتا۔ اماں تم نہیں سمجھتی۔

بیٹے کے گھر سے ماں کا صرف ایک تعلق تھا۔

آسیہ میں خدمت اور کام کا جذبہ اس قدر گھر کر چکا تھا کہ جس گھر میں وہ جا کر ٹھہرتی اس گھرے کے چھوٹے چھوٹے کام شروع کر دیتی۔ ٹوٹی ہوئی چیزیں جوڑ دیتی۔  صوفوں کے کپڑے دھو کر پھر سے چڑھا دیتی۔ پردے رنگ کر کے نئے بنا دیتی۔ ٹوٹے ہوئے سوٹ کیس مرمت کر دیتی۔ پُرانے کپڑوں کو جوڑ کر ٹی کوزیاں بناتی، رضائی کے ابرے تیار کرتی۔ میز پوش تکیے کے غلاف اور کیا۔

آسیہ کی اس عادت کی وجہ سے  لوگ اس کی قدر کرتے تھے۔

بیٹے کے گھر سے ماں کا بس یہی ایک تعلق تھا اسی واسطے ثمینہ اسے عزیز رکھتی تھی۔

کسی نے کبھی نہ سوچا تھا کہ تعلق تو نہیں ۔  یہ تو مفاد ہے۔  بہر طور ثمینہ کا حزن و ملال دلی تھا۔ کیونکہ وہ خدا ترس عورت تھی۔

کیوں ابا۔ سمیع نے داخل ہو کر پوچھا کیا حال ہے اماں کا۔

ویسا ہی ہے۔  صائم نے کہا۔

اوہ۔۔۔ سمیع خاموش ہو گیا۔

کچھ دیر کمرے پر خاموشی طاری رہی۔

اماں کو ضرور دوا کھانی چاہیے۔  سمیع بولا۔

ہاں ۔۔ صائم نے کہا۔ لیکن اماں مانے بھی۔

ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم امّاں کے لئے کچھ نہیں کر رہے۔  سمیع نے کہا۔

ہاں ۔

ایک فیلنگ آف گلٹ ہے۔  سمیع گویا اپنے آپ سے کہہ رہا تھا۔

سمیع ازلی طور پر مشنری کارکن تھا۔ اس کے لئے دفتر دفتر نہ تھا بلکہ مقصدِ حیات تھا۔ کام اس کی زندگی کا مرکز تھا  اور یہ مرکز پھیل کر سارے دائرے پر محیط ہو چکا تھا۔ باقی تمام رشتے اور تعلق لگاؤ سمٹ سمٹا کر دائرے کی لکیر پر یوں کھڑے تھے جیسے اوور لوڈڈ بس میں مسافر پائیدان پر لٹکے ہوتے ہیں ۔

اوہ ! سمیع چونکا۔  مجھے تو جانا ہے۔  دفتر میں فنکشن شروع ہو چکا ہو گا۔ ابو میں واپسی پر ڈاکٹر لے آؤں اس نے یوں کہا جیسے  صرف ڈاکٹر لے آنے سے  امّاں سے تعلق استوار  ہو جائے گا۔ سنس آف گلٹ دور ہو جائے گا۔

اماں سے پوچھ لو۔ صائم نے کہا۔

اماں ۔  اماں جی۔ سمیع نے آواز دی۔

اماں نے کوئی جواب نہ دیا۔

پھر سمیع گھوم کر  اماں کے سرہانے کی طرف جا کھڑا ہوا۔ اس نے اماں کے منہ سے رضائی اتار دی۔

او۔  وہ زیرِ لب چلّایا۔ اماں تو۔  اماں تو۔۔

کیا کہا۔۔ کئی ایک چیخیں گونجیں ۔

اماں گزر گئیں کیا۔

ہائے اللہ۔۔۔۔ اماں چلی گئیں ۔

پڑوس والے کہتے ہیں کہ صائم کے گھر سے چیخوں کی آوازیں بلند ہوئیں ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں ۔ نہیں چیخیں نہیں وہ تو بگڑے ہوئے قہقہوں کی آوازیں تھیں ۔

——–

میں نے وہ آوازیں نہیں سُنیں ۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں جیسے صائم کی ماں مری نہیں بلکہ صائم کے گھرے سے منتقل ہو کر میری مان بن کر میرے گھر آ بیٹھی ہے۔  جیسے یہ  کہانی صائم کی ماں کی نہیں بلکہ میری ماں کی  ہے۔  شاید تمھاری ماں کی ہو۔ ہم سب کی ماؤں کی ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ گھر گھر بیٹھی ہے اور اس کے ارد گرد ایلینز یوں ناچ رہے ہیں جیسے وحشی قربانی کرنے سے پہلے   بَلی کے گرد ناچتے ہیں ۔

بشکریہ : سہ ماہی سمت

غزل ۔ کچھ نہیں آفتاب، روزن ہے ۔ محمد احمد

غزل

کچھ نہیں آفتاب، روزن ہے
ساتھ والا مکان روشن ہے

یہ ستارے چہکتے ہیں کتنے
آسماں کیا کسی کا آنگن ہے؟

چاندنی ہے سفیر سورج کی
چاند تو ظلمتوں کا مدفن ہے

آگ ہے کوہسار کے نیچے
برف تو پیرہن ہے، اچکن ہے

دائمی زندگی کی ہے ضامن
یہ فنا جو بقا کی دشمن ہے

یاد تارِ نفس پہ چڑیا ہے
وحشتوں کا شمار دھڑکن ہے

بھیگتا ہوں تمھاری یادوں میں
خط تمھارا مجھے تو ساون ہے

دیکھتا ہوں بچھڑنے والوں کو
خواب گویا کہ دور درشن ہے

نخلِ گُل ہو کسی کا مجھ کو کیا
مجھ کو تو خار و خس ہی گلشن ہے

تک رہا ہوں جہاں کو حیرت سے
مجھ میں جاگا یہ کیسا بچپن ہے

آپ مجھ کو ہی ڈھونڈتے ہوں گے
سب سے پتلی مری ہی گردن ہے

ہنس دیے میری بات سن کر وہ
مُسکرا کر کہا کہ بچپن ہے

احمدؔ اپنی مثال آپ ہوں میں
ہاں مِرا شعر، میرا درپن ہے

محمد احمدؔ