رعنائی خیال پر پہلی نثری نظم



شعر و ادب  کی  دیگر نو دریافت  اصناف کی طرح نثری نظم  بھی اب کافی مشہور ہو گئی ہے۔ مقبول اس لئے نہیں کہوں گا کہ شعراء اور اساتذہ کی ایک کثیر تعداد اسے شاعری تسلیم ہی نہیں کرتی۔  میرا خیال ہے کہ یہ بات   ٹھیک  ہی  کہ جس شاعری میں آہنگ نہ ہو، نغمگی نہ ہو اُسے شاعری کیوں کر کہا جائے۔  معنوی اعتبار سے بہت سی  نثری نظمیں بہت اعلیٰ بھی ہوتی ہیں لیکن پھر وہی بات ہے کہ  ہوتی تو وہ "نثری" نظم  ہی ہیں۔  سو بھلا وہ کیسی نظم ہے کہ جسے اپنے  نظم ہونے کے لئے "نثری" کے سابقے کی احتیاج ہے۔ 

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ  اگر کسی نثری نظم کے تمام تر "قاطعِ سطور"  یعنی لائن بریکس ختم کر دیئے جائیں تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ نثر ہے نثری نظم ۔ کیونکہ پابند نظم کو تو بحر کے اُتار چڑھاؤ کی مدد سے ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن نثری نظم میں یہ بات مکمل طور پر 'شاعر' کی صوابدید پر ہی منحصر ہوتی ہے۔ 

بہر کیف یہ تو  ادبی حلقوں کی  دیرینہ بحث ہے اور آئندہ بھی نثری نظم  کے حامیوں اور مخالفین کے باہم دست و گریباں رہنے کے امکانات روشن ہیں۔   سو اس بحث سے قطع نظر  آج پہلی بار  بلاگ پر ایک نثری نظم قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کر رہا ہوں ۔ یہ نظم ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی جریدے "شب خون"  کے ایک پرانے شمارے سے لی گئی ہے اور لائقِ صد ستائش ہے۔ 

دشمن
نثری نظم

گواہوں کے بیانات سے 
ثابت ہو چکا ہے 
کہ  ملزم مذہبی کتابیں پڑھتا ہے
اور خدا پر اعتقاد رکھتا ہے
مائی لارڈ ! 
عام آدمی کی طرح نظر آنے والا
یہ شخص 
ایک عادی مجرم ہے
ایمانداری کے کئی معاملوں میں 
رنگے ہاتھوں پکڑا جا چکا ہے
کئی بار 
سچ  بولنے کی  سزا بھی پا چکا ہے
دراصل یہ ایک خطرناک مجرم ہے
جسے چسکا لگ گیا ہے
شریف اور باعزت لوگوں کی 
مخالفت کرنے 
اور حق کے لئے لڑنے کا

صادق

3 تبصرے:

  1. بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت ہی اعلیٰ۔۔۔ زبردست نثر اوہ نظم ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ صنف نئی نہیں ۔ اسکا پہلا تنقید نگار شیطان ہے۔ نہ ہی یہ ایسی عورت ہے ۔۔۔۔ جس کو اپنی مرضی کے کپڑے پہنا کر محفل میں بیٹھا دیا جائے
    یہ قدیم صنف ہے۔ ایسی وسیع صنف،جو کائنات میں سما نہیں سکتی ، جو اس سے محبت کرتے ہیں۔ان کے دل میں سما جاتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں