شہرِ کراچی کے صاحب ِ طرز شاعر رسا چغتائی کی دو غزلیں آپ کے ذوق کی نظر کی جارہی ہیں۔ رسا کے شعری مجموعوں میں"تیرے آنے کا انتظار رہا" سب سے آخر میں شائع ہوئی ہے جبکہ اس سے پہلے ان کے چار شعری مجموعے ریختہ، زنجیرِ ہمسائیگی، تصنیف اور چشمہ ٹھنڈے پانی کا کے نام سے آ چکے ہیں۔
رسا چغتائی کا مختصر سا تعارف محترم قمر جمیل کی زبانی بھی نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔
رسا چغتائی سید ابو العلا ابولعلائی سلسلے کے ایک بزرگ عارفی سے بیت ہے۔ والد کا نام مرزا محمود علی بیگ اور خود اُس کا نام مرزا محتشم علی بیگ ہے۔ یگانہ کی طرح یہ بھی چنگیزی ہے۔ مگر لہجہ میں کڑوا پن نہیں ۔ سوائی ۔ مادھوپور کا رہنے والا یہ شخص ۔ چاروں طرف پہاڑ اور بیچ میں اس کا قصبہ تھا۔ آج بھی اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور بیچ میں اس کا قصبہ ہے۔ اس کی شاعری قصبے سے طلوع ہونے والے غمزدہ چاند کی طرح ہے جس کے سامنے ایک بیکراں رات ہے۔ شاعرانہ علم کی بیکراں رات! جس میں اس کے دکھوں کے داغ چاند کے داغوں کی طرح چمکتے ہیں اور چمکتے ہیں نہیں ، ہمارے آس پاس گھومنے لگتے ہیں! اور اندھیروں میں شاعری کی نئی روشنی جنم لیتی ہے۔ شاعری کی نئی روشنی رسا چغتائی کے چہرے پر بھی پڑ رہی ہے۔
پہلی غزل
کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے
کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے
ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے
****
دوسری غزل
خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے
زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے
تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے
یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے
زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے
قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے
لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے
دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے
خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے
میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے
خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
****