سلیم کوثر شہرِ کراچی کے معروف شاعر ہیں اور اپنا منفرد اسلوب رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری گہری فکر اور بسیط خیالات پر مبنی ہے۔ سلیم کوثر کی شاعری اثر انگیزی اور غنائیت کا حسین امتزاج ہے یوں تو غزل ہی سلیم کوثر کی پہچان ہے لیکن اُن کے ہاں نظم بھی بڑے سلیقے سے کہی گئی ہے۔
آج اُن کے شعری مجموعے "محبت اک شجر ہے" سے دو خوبصورت غزلیں آپ کی نظر۔
دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر
میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مری بیداری پر
آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر
کبھی اِس جرم پہ سر کاٹ دئے جاتے تھے
اب تو انعام دیا جاتا ہے غدّاری پر
تیری قربت کا نشہ ٹوٹ رہا ہے مجھ میں
اس قدر سہل نہ ہو تو مری دشواری پر
مجھ میں یوں تازہ ملاقات کے موسم جاگے
آئینہ ہنسنے لگا ہے مری تیاری پر
کوئی دیکھے بھرے بازار کی ویرانی کو
کچھ نہ کچھ مفت ہے ہر شے کی خریداری پر
بس یہی وقت ہے سچ منہ سے نکل جانے دو
لوگ اُتر آئے ہیں ظالم کی طرف داری پر
✿✿✿✿✿✿✿
اس خرابے کی تاریخ کچھ بھی سہی، رات ڈھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
خیمہء خاک سے روشنی کی سواری نکلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
کیا ہوا جو ہوائیں نہیں مہرباں، اک تغیّر پہ آباد ہے یہ جہاں
بزم آغاز ہونے سے پہلے یہاں، شمع جلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
دامنِ دل ہو یا سایہ ء چشم و لب، دونوں بارش کی طرح برستے ہوں جب
ایسے عالم میں پھر بھیگ جانے کی خواہش مچلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
ابر کے سلسلے اور پیاسی زمیں ، آگ بجھتی ہے پانی سے سورج نہیں
کہساروں پہ جمتی ہوئی برف اک دن پگھلنی تو ہے رُت بدلنی تو ہے
عشق ایجاد ہم سے ہوا ہے سو ہم، اس کے رمز و کنایہ سے واقف بھی ہیں
تیرے بیمار کی یہ جو حالت ہے آخر سنبھلنی تو ہے، رُت بدلنی تو ہے
سلیم کوثر