جہانگیر کا ہندوستان


جہانگیر کا ہندوستان




"جہانگیر کا ہندوستان" پیلسے ئرٹ (پیل سارٹ) کا سفرنامہ ہندوستان ہے۔ پیلسے ئرٹ نے یہ کتاب (سفرنامہ) ڈچ زبان میں1626ء میں لکھی جس کا انگریزی ترجمہ ڈبلیو ۔ ایچ۔ مورلینڈ نے 1925ء میں کیا ۔ اس انگریزی ترجمہ سے اردو ترجمہ کا کام ڈاکٹر مبارک علی نے 1997ء میں انجام دیا۔

پیلسے ئرٹ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اور زیرِ نظر تحریر اُس نے اپنی کمپنی کے لئے بطور تجارتی رپورٹ لکھی تھی جس میں تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ اُس نے اُس وقت کے ہندوستان کے انتظامی امور، عوامی مزاج ا ور معاشرتی و ثقافتی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ تاریخ کے سنجیدہ قارئین کے ساتھ ساتھ اس تحریر میں عام لوگوں کے لئے بھی دلچسپی کا سامان ہے کہ اُس وقت کے ہندوستان کا عکس ہمارے آج کے منظرنامے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ احباب کو شاملِ مطالعہ کرنے کے لئے اس کتاب سے چیدہ چیدہ اقتباسات درج کئے جارہے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کی اس کتاب کا انتساب بھی قابلِ ذکر ہے۔ انتساب کے عنوان کے تحت ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں " محترم عبدالعزیز کے نام ۔ جنہوں نے سیاسی مسائل پر ملک کے نامور دانشوروں اور سیاست دانوں سے بحث کی اور پھر اُن سے مایوس ہوکر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارے مسائل کا حل ہمیں ہی تلاش کرنا ہے"۔

دیباچہ میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

تاریخ اس وقت ہی سمجھ آتی ہے جب بنیادی ماخذوں کا مطالعہ کیا جائےاس لئے پیلسے ئرٹ کی کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ جہانگیر کے ہندوستان سے آگہی ہو۔کتاب کا ترجمہ کرتے وقت اس چیز کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے کہ اسے عام فہم زبان میں کیا جائے اس لئے وہ حصے شامل نہیں کئے گئے جن کا مقصد ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو تجارتی معلومات فراہم کرنا تھا۔

نوٹ: ڈاکٹر مبارک علی نے جہانگیر کے بارےمیں مختصر تعارف بھی لکھا ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے مغل تاریخ نہیں پڑی ہے وہ اس حکمران کے بارے میں جا ن سکیں بوجہ طوالت یہ تعارف اس مضمون میں شامل نہیں ہے اگر آپ یہ تعارف پڑھنا چاہیں تو یہاں سے اسکیننگ ڈاؤن لوڈ کرلیں۔

کتاب کے تعارف میں ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

ڈچ ہندوستان میں 1602 ء میں بغرضِ تجارت آئے۔ جب ہندوستان میں کپڑے کی زیادہ مانگ ہوئی تو انہوں نے کھمبے، بھڑوچ اور آگرہ میں اپنی تجارتی کوٹھیاں (فیکٹریاں) قائم کیں کہ جہاں کپڑا تیار ہوتا تھا ۔ آگرہ کی فیکٹری ہی میں ڈچ فیکٹر پیلسے ئرٹ آیا تھا۔ اُس کی آمد کا مقصد ڈچ تجارت کو فروغ دینا تھا۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران اس نے جو رپورٹ لکھی اگرچہ اس کا تعلق تجارتی معاملات سے ہے مگر اس میں جہانگیر کے عہد کے بہت سے واقعات ہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ اس نےاس وقت کی سماجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت ہے۔

چونکہ درباری مورخ اور واقعہ نویس صرف تعریفیں لکھتے ہیں اس لئے پیلسے ئرٹ کے مشاہدات میں جو عام لوگوں کی زندگی کے بارے میں مواد ملتا ہے اس سے ہماری تاریخیں خالی ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ بھی آج کی طرح امیر و غریب کے طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ رشوت، بدعنوانیاں، ناجائز طریقوں سے دولت اکھٹی کرنا اس وقت بھی حکمران طبقوں کا کام تھا۔ غریبوں کے طرزِ زندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغل سلطنت کی شان و شوکت اور دولت محلات و حویلیوں سے اُتر کر جھونپڑیوں تک نہیں آئی تھی۔

یہ ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں غربت، مفلسی اور محرومی ہوگی وہ محروم لوگ توہمات میں پناہ لیں گے، اس لئے آج کی طرح ماضی میں بھی مزار لوگوں کی زیارت کا مرکز تھے کہ جہاں وہ نہ پوری ہونے والی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے منتیں مانتے تھے۔

اس لئے ذہن میں یہ سوال بھی آتا ہے کہ کیا ہماری تاریخ کا یہ تسلسل آج بھی اسی طرح سے برقرار ہے کہ جیسا یہ ماضی میں تھا؟ اس رپورٹ کے بہت سے حصوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باتیں جہانگیر کے عہد کی نہیں بلکہ ہمارے زمانے کی ہیں۔ تو کیا تاریخ کے اس پورے سفر میں ہمارا معاشرہ ایک ہی جگہ ٹھہرا رہا ہے یا اس میں کوئی تبدیلی بھی آئی ہے؟ اس میں امراء کی دولت مندی، دولت کی دکھاوٹ کے طریقے، رعونت، اور بدعنوانیوں کے جو تذکرے ہیں، دیکھا جائے تو آج کے حالات میں صرف ماحول بدلا ہے، ورنہ فرق کوئی نظر نہیں آتا ہے۔

اس رپورٹ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جس وقت اہلِ یورپ ہمارے معاشرہ کو جاننے اور سمجھنے میں مصروف تھے، اس وقت بھی ہم یورپ اور اس کے معاشرے سے ناواقف تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ یورپی علماء و فضلاء آکر ہمیں ہماری تاریخ اور روایات و اداروں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ہم اہلِ یورپ کو ان کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ اکثر تو ہم اس پر بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ "تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی" اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہ کب اس خود کشی کی خبر آتی ہے۔
اب چونکہ یورپ جانا زیادہ مشکل نہیں رہا ہے۔ اس لئے لوگ یورپ کے سفر نامے بہت لکھنے لگے ہیں، مگر ذرا مقابلہ کیجئے اس سترہویں صدی کے یورپی مسافر کے مشاہدات اور تاثرات کا اور ہمارے آج کے سیاحوں کا کہ جنہیں یورپ میں سوائے لڑکیوں اور محبوباؤں کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ان سفرناموں کو پڑھ کر نہ تو یورپ کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ ان کے معاشرے کے بارے میں۔ یہ سفرنامے پیسہ کمانے کے لئے ہوتےہیں۔ علم دینے کے لئے نہیں۔

غیر ملکی سیاحوں کے بیانات کو آنکھیں بند کرکے قبول بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سیاح اپنے ملک کی تہذیب و روایات کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ انہیں دوسرے معاشروں میں یہ اجنبی اور بری لگتی ہے۔ ان کے اپنے تعصبات اپنی جگہ، مگر ان کے ہاں وہ مشاہدات بھی مل جاتے ہیں کہ جنہیں ہماری نظریں نہیں دیکھتی ہیں۔

پیلسےئرٹ کے یہ مشاہدات نہ صرف ماضی کو بلکہ ہمارے حال کو بھی سمجھنے میں مدد دیں گے۔

کچھ علاج اس کا بھی ۔۔۔۔



پروین شاکر نے کہا تھا :

ملنا، دوبارہ ملنے کا وعدہ، جدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے

واقعی جب وقت گذر جاتا ہے تو ایسا ہی لگتا ہے حالانکہ لمحہ موجود میں آنے والے سنگِ میل کے لئے سعی اور اس کا انتظار بہت کٹھن ہوتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے سیاسی منظر نامے میں بھی ہوا اپنے مشرف صاحب وردی بلکہ عہدہ صدارت سے بھی عہدہ برا ہوگئے ، عدلیہ آزاد ہوگئی چیف جسٹس بھی بحال ہوگئے ، این آر او بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا، قومی مالیاتی ایوارڈ (عوامی پیسہ کی بندر بانٹ ) کا دیرینہ معاملہ بھی نمٹ گیا اور تو اور اٹھارویں ترمیم بھی اللہ اللہ کرکے پاس ہو ہی گئی جس کے تحت ہمارے صوبہ سرحد کو ایک کی جگہ دو نام مل گئے۔ گو کہ عرصہ دراز تک یہ تمام امور ناممکنات میں سے ہی نظر آتے تھے لیکن وقت آنے پر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گئے ۔

اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ جانے سے میڈیا والوں کے سر پر یہ سوال آ کھڑا ہوا کہ اب کیا کریں بالکل ایسے ہی جیسے ہر گھر میں روز یہ سوال ہوتا ہے کہ آج کیا پکائیں یا پھر ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں بچے امتحانات کے بعد کی فراغت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ یہ سنہری لمحات کیسے گزارے جائیں ۔ امتحانات کے بعد بچوں کی فارغ البالی تو قابلِ دید ہوتی ہی ہے لیکن آج کل میڈیا والوں کی خوش دلی بھی دیدنی ہے۔ اپنی شادی کے سہرے کے علاوہ اس بات کا سہرا بھی شعیب ملک کے سر جائے گا کہ اُنہوں نے عین فراغت کے دنوں میں وہ گُل کھلائے کہ اُن کے ساتھ ساتھ میڈیا والوں کے بھی وارے نیارے ہوگئے۔ اب دن ہو یا رات خبر نامہ انڈین گیتوں اور شعیب اور ثانیہ کی تصاویر اور ویڈیوز سے مزین نظر آتا ہے نہ جانے کہاں کہاں سے حسبِ حال فلمی گیت ڈھونڈے جا رہے ہیں اور ہر دوسری رپورٹ اس مستقبل کی شادی کی مُووی کا سماں پیش کرتی ہے۔

اسی پر بس نہیں ہے بلکہ ہمارے ایک اور"کھلاڑی" اور شو بز کی ایک حسینہ بھی میڈیا والوں کے بُرے وقت میں کام آرہے ہیں اور اپنے بُرے وقت کو دعوت دے رہیں ہیں۔ میڈیا والے بھی روز دونوں کو آن لائن لا کر مناظرے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس قصے میں یہ بات بڑی عجیب ہے کہ کھلاڑی صاحب حسینہ کی محبت کے ساتھ ساتھ کچھ رقم کے بھی مقروض ہیں اور حسینہ اُن سے یہ رقم سرِ عام مانگ رہی ہیں۔ حسینہ کا کہنا ہے کہ کھلاڑی نے اُن کی دولت کے علاوہ اُن میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے لیکن حسینہ کے لئے کھلاڑی موصوف میں کوئی خاص دلچسپی کی بات نہیں ہے ۔ بغیر دلچسپی کے اتنی شاہ خرچیاں بھی کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔

بہر کیف وقت گزاری کے لئے میڈیا کے یہ مشاغل واقعی بہت اچھے ہیں اور اس ضمن میں میڈیا کی کارکردگی بھی لائقِ صد ستائش ہے۔ لیکن کچھ دیر سستا لینے کے بعد میڈیا کو پھر سے کمر باندھنی ہوگی تاکہ عوامی مسائل کی نمائندگی کا فریضہ بہتر سے بہتر طور پر ادا کیا جاسکے کہ یہی حالات کا اولین تقاضہ بھی ہے۔



آگہی کا عذاب


نیوز چینلز کی آمد سے پہلے کسی کو ورغلانا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ زرا کسی کو "اُس کے فائدے" کی بات بتادو تو وہ صاحب ہتھے سے اُکھڑ جاتے اور اول فول بکنے لگتے ۔ ہاں جو لوگ "کچھ" سمجھدار ہوتے وہ وقتی سمجھداری کا مظاہرہ ضرور کرتے اور آپ کی بات کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے اور اُس پر عمل کی سعی بھی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ زرا کسی نے آپ کے "معمول " سے استفسار کر لیا کہ یہ پٹی آپ کو کس نے پڑھائی ہے سب کچھ فر فر بتا دیتے اور آپ کا نام تو گویا نوکِ زبان پر ہی ہوتا ۔ نتیجہ وہی جو اس طرح کے معاملات میں ہوتا ہے یعنی تعلقات کی خرابی۔

اس کے برعکس جب سے نیوز چینلز نے یلغار کی ہے سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب نیوز چینلز والے سارا سارا دن لوگوں کو "پٹیاں پڑھاتے *" رہتے ہیں اور لوگ ناصرف وہ پٹیاں تن من دھن سے پڑھتے ہیں بلکہ من و عن ایمان بھی لے آتے ہیں۔ یہ پٹیاں خبروں کی فوری ترسیل کا کام کرتی ہیں لیکن یہ صرف خبروں کی ہی محتاج نہیں ہوتی اور خبروں کے علاوہ بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتی ہیں۔

نیوز چینلز کی یہ پٹیاں خبروں کی اہمیت اور پروپیگنڈا کی کیفیت کے اعتبار سے اپنی رنگت بدلتی رہتی ہیں اور درجہ شرارت کے حساب سے کبھی سبز، کبھی نیلی اور اکثر شدتِ جذبات سے سُرخ رہتی ہیں۔ یہ پٹیاں اپنی مدد آپ کے تحت ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا جانتی ہیں ۔ آپ کیسا ہی دلچسپ پروگرام دیکھ رہے ہوں پٹیاں بھی آپ کی توجہ اور دلچسپی میں سے اپنا خراج لیتی رہتی ہیں۔

ان پٹیوں میں اکثر باتیں سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں لیکن کچھ فوراً ہی سمجھ آجاتی ہیں پر افسوس کہ جو باتیں فوراً سمجھ آجائیں دوسرے دن اُن کی تردید آجاتی ہے ۔ مثلاً آج وزیرِ اعظم صاحب کا یہ بیان کہ حکومت کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کرے گی "جو" بھی ہوگا وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر کیا جائے گا۔ اب اس میں سے ہم جو بات سمجھے ہیں کل اُس کی تردید آجائے گی اور وزیرِ اعظم صاحب کہیں گے کہ اُن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سمجھا گیا ہے۔

ہمارے وزرا صاحبان الفاظ کا چناؤ کچھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ سمجھو تو بہت کچھ اور نہ سمجھو تو کچھ بھی نہیں یعنی سانپ بھی بچ جائے اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے۔

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ان نیوز چینلز کا آخر مقصد کیا ہے اور انہوں نے آکر کون سی نئی بات بتائی۔ مثلاً یہ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کے سارے وزیر اور مشیر چور معاف کیجے گا بدعنوان ہیں یا یہ کہ پولیس بے گناہ لوگوں پہ تشدد کرتی ہے یا پھر یہ کہ آئی ایم ایف سے لیا جانے والا سارا قرضہ عوام کو اپنی خون پسینے کی کمائی سے چکانا پڑے گا یہ سب باتیں تو ہمیں پہلے سے پتہ ہیں پھر ان نیوز چینلز کا کیا مصرف ہے سوائے اس کے کہ روزانہ کسی نہ کسی پروگرام میں دو مخالف جماعتوں کے حاشیہ برداروں کو مرغوں کی طرح لڑنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ مرغے غالب کے اس فرمان پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ" لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی" اور حقِ نمک ادا کرتے ہوئے اپنے مخالف کو زیر کرنے کے لئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ چوپائے بھی شرمسار ہو کر ان مرغوں کے حق میں دستبردار ہو جاتے ہیں۔

ہاں البتہ کچھ کچھ نیوز سٹوریز کی اُٹھان دیکھ کر یہ شعر ضرور یاد آتا ہے ۔

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
غالب

اور اس طرح کی کارکردگی کی داد نہ دینا یقیناً بڑی بے انصافی کی بات ہے۔

* News Ticker


قصّہ ایک بسنت کا ۔ ۔ ۔


قصہ ایک بسنت کا



پتنگیں لوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
اُنھیں اس سے غرض کیا پینچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آگیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی؟
ہوا کس کی طرف تھی، کونسی پالی کی بیری تھی؟
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم؟
اُنھیں تو بس بسنت آتے ہی اپنی اپنی ڈانگیں لے کے میدانوں میں آنا ہے
گلی کوچوں میں کانٹی مارنی ہے پتنگیں لُوٹنا ہے لُوٹ کے جوہر دکھانا ہے
پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا
اور کس کی ڈور ہلکی تھی؟


افتخار عارف


جو ذرا ہنس کے ملے ۔۔۔۔


آج کل ایک ٹیلی کام کمپنی کو پاکستان کے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے اور وہ ہر ایرے غیرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل کیسا ہوگا۔ ایرے غیرے اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خود اِن کے منتخب نمائندے نہیں پوچھتے ۔ جن سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ پٹرول کے نرخ بڑھا دیئے جا ئیں یا بجلی پر سے سبسڈی (جو کبھی دی ہی نہیں گئی) گھٹا دی جائے۔ جو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے جائیں تو اُن کا بیلیٹ پیپر ایک مُسکراہٹ اور اس جملے کے ساتھ کے ساتھ لے لیا جاتا ہے کہ آپ فکر مت کیجے آپ کا ووٹ کاسٹ ہو جائے گا۔ پھر ایسے میں یہ بات تو خوشی کی ہی ہے کہ کسی کو پاکستان کے مستقبل کا خیال آہی گیا ہے اور تو اور ایرے غیرے لوگوں کو حقِ رائے دہی بھی حاصل ہورہا ہے۔

اس پر شاید کچھ وہمی لوگ یہ خیال کریں کہ یہ سب کچھ کرکے کمپنی یقیناً کچھ تجارتی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہوگی یا یہ پھر یہ لوگ اپنی کسی نئی پروڈکٹس کے اجرا سے پہلے کوئی مارکیٹ ریسرچ کر رہے ہوں گے لیکن ہم ایسا نہیں سوچتے بلکہ ہمارا تو حال بقول احمد ندیم قاسمی یہ ہے کہ

کس قدر قحطِ وفا ہے مری دُنیا میں ندیم
جو ذرا ہنس کے ملے اُس کو مسیحا سمجھوں

سو ہم بھی ہر اُس شخص کے پیچھے ہو جاتے ہیں جو جھوٹے منہ ہی سہی کوئی اچھی بات کرتا ہے یا کم از کم اس بارے میں سوچنے کی دعوت ہی دیتا ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو پاکستان بڑا ہی عجیب ملک ہے شاید اسی لئے اسے مملکتِ خداداد کہا جاتا ہے کہ اسے خدا ہی چلا رہا ہے ورنہ پاکستان کے حصے میں دوست بہت کم اور دشمن بہت زیادہ آئے ہیں اور جو دوست ہیں وہ بھی زیادہ تر نادان دوست ہیں سو جی کا جنجال ہیں۔ پھر ایسے میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس گھسے پٹے شعر کے کہ

مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

اور رہ گئی اُنہیں آئیڈیاز (خیالات یا شاید تجاویز )دینے کی بات ! تو اگر ہمارے پاس اتنے ہی آئیڈیاز ہوتے تو ہمارے بلاگ پر ہر دوسرے دن ایک نئی تحریر ضرور نظر آتی، اب شاید کچھ لوگ یہ سمجھیں کہ ہمارے پاس آئیڈیاز کی کمی ہے تو ہم اُنہیں ایسا سمجھنے نہیں دیں گے اور جھٹ سے صفائی پیش کریں گے کہ ایسا کچھ نہیں بس ذرا وقت نہیں ملتا۔


غزل



کوئی مہرباں نہیں ساتھ میں، کوئی ہاتھ بھی نہیں ہات میں
ہیں اداسیاں مری منتظر سبھی راستوں میں جِہات میں

ہے خبر مجھے کہ یہ تم نہیں، کسی اجنبی کو بھی کیا پڑی
سبھی آشنا بھی ہیں روبرو، تو یہ کون ہے مری گھات میں

یہ اداسیوں کا جو رنگ ہے، کوئی ہو نہ ہو مرے سنگ ہے
مرے شعر میں، مری بات میں، مری عادتوں میں، صفات میں

کریں اعتبار کسی پہ کیا کہ یہ شہر شہرِ نفاق ہے
جہاں مسکراتے ہیں لب کہیں، وہیں طنز ہے کسی بات میں

چلو یہ بھی مانا اے ہمنوا کہ تغیّرات کے ماسوا
نہیں مستقل کوئی شے یہاں، تو یہ ہجر کیوں ہے ثبات میں

مری دسترس میں بھی کچھ نہیں ، نہیں تیرے بس میں بھی کچھ نہیں
میں اسیرِ کاکلِ عشق ہوں، مجھے کیا ملے گا نجات میں


محمد احمدؔ

باقی سب افسانے ہیں


باکسنگ کا مقابلہ زور و شور سے جاری تھا۔ تماشائیوں میں بھی کافی گرم جوشی پائی جاتی تھی ۔ ایک صاحب کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آرہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے۔
مارو ! اور مارو ! دانت توڑ دو اس کے!
ساتھ ہی بیٹھے ایک صاحب نے پوچھا" کیا آپ بھی باکسر ہیں؟"
جواب ملا "نہیں میں ڈینٹسٹ (دانتوں کا معالج)ہوں"۔

یہ تو خیر ایک لطیفہ تھا لیکن روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور اُس کے لئے کوششیں کرنا تو سب کا حق ہے۔ یہ کوششیں اُس وقت تیز تر کرنی پڑتی ہیں جب کوئی آپ کے پیٹ پر لات مار دے۔

چلئے صاف صاف بات کرتے ہیں اور بات ہے قومی مفاہمتی آرڈیننس کی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب ہمارے سابق صدر صاحب کی کُرسی ڈگمگا رہی تھی کیونکہ انہوں نے خود ہی اس کُرسی کے دو پائے بُری طرح سے ہلا دیئے تھے ایسے میں اُن کی نظر بد عنوانیوں کی غلاظت میں سر سے پاؤں تک سنے ہوئے روتے بلکتے سیاست دانوں پر پڑی۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق اُنہوں نے سیاست دانوں کو اے نہ رو (این آر او ) کی لوری سُنائی اور سیاست دانوں کو سینکڑوں مقدمات میں سے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر اپنے پاس رکھ لیا ۔صدر صاحب کیا چاہتے تھے یہ تو سب کو ہی پتہ ہے لیکن اُن کے اس مفاہمتی آرڈینینس کی ہی کرامات ہیں کہ آج

جو رد ہوئے تھے جہاںمیں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
(جون ایلیا)

خیر بات ہو رہی تھی قومی مفاہمتی آرڈینینس کی تو اس بات پر تو کافی بحث ہوئی کہ اس مفاہمت سے کس کس کو کتنا فائدہ پہنچا لیکن یہ بات کسی نے بھی نہ سوچی کہ اس آرڈینینس کا سب سے زیادہ نقصان کس کو ہوا۔ یہ بات بھی اب آہستہ آہستہ سمجھ آ رہی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بہ یک جنبشِ قلم سینکڑوں ہزاروں مقدمات ختم ہونے سے سب سے زیادہ اثر وکلا اور اُن کے روزگار پر پڑا کہ جب مقدمات سے ہی جان چھوٹ جائے تو وکیلوں کے ناز نخرے کوئی کیوں اُٹھائے۔

یہ کہنا تو خیر زیادتی ہوگا کہ اسی کارن وکلا نے اپنی تاریخ ساز تحریک چلائی لیکن اس ایک بات سے اُنہیں اچھی خاصی تحریک ضرور ملی ہوگی کیونکہ وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ
"اپنی ذات سے عشق ہے سچاباقی سب افسانے ہیں

اعتزاز احسن کے معاملے میں مجھے پپلز پارٹی پر بہت رشک آتا تھا کہ اس پارٹی میں ایک ایسا شخص بھی ہے جو اس قدر با وفا ہے کہ بالکل متضاد موقف رکھتے ہوئے بھی پارٹی سے علیحدگی کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جب پارٹی از خود اُسے مرکزی مجلسِ شوریٰ سے الگ کردیتی ہے تب بھی یہ شخص ہے کہ پارٹی سے الگ نہیں ہوتا یعنی میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اعتزاز صاحب ہی وہ برہمن قرار پائے ہیں جنہیں بلا شبہ کعبے میں گاڑا جانا چاہیے (جلدی کوئی نہیں ہے)۔

بہرحال اب جبکہ این آر او کا لحاف کھینچ لیا گیا ہے اور مقدمات کی یخ بستہ ہوائیں پھر سے چل پڑی ہیں قوی اُمید ہے کہ پپلز پارٹی اب اپنے وفا شعار کمبل کو پھر سے گلے لگا لے گی ۔ شاید کمبل کو بھی اسی دن کا انتظار تھا کیونکہ پھر وہی بات کہ

اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں