منزلِ شوق اور نارسائی ، آخر کیوں؟


ہم میں سے بہت سے لوگ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اور بظاہر اُس مقصد کے لئے سنجیدہ بھی نظر آتے ہیں ۔ لیکن دراصل وہ کبھی بھی اُس مقصد کو حاصل نہیں کر پاتے یا اپنا مدتوں پالا شوق پورا نہیں کر پاتے۔ دراصل ہم اُسی بات کو اہمیت دیتے ہیں جسے ہم واقعتاً اہم سمجھتے ہیں۔ اور جسے ہم اہم نہیں سمجھتے وہ چیز دانستہ یا نا دانستہ طور پر اہمیت کی فہرست میں بہت نیچے چلی جاتی ہے۔ یہاں اہمیت دینے سے مُراد کسی چیز کے حصول کے لئے ضروری مراحل کی تکمیل اور عملی تقاضوں کا پورا کرنا ہے۔

الغرض اصل بات ہے اہمیت کی۔ اور پھر اہمیت کی ترتیب ، یعنی ترجیحات کی۔

ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیں باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ خاص طور پر اپنے شوق کے بارے میں ۔ اور کبھی کبھی ہم محض باتوں سے ہی اپنے شوق کی تسکین کر لیتے ہیں۔ اور اُسی سے ہمیں جھوٹا ہی سہی لیکن تکمیل کا تاثر (Sense of Completion) مل جاتا ہے۔ اور نتیجتاً ہمارے شوق کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ سادے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا شوق، عمل کے لئے جو جذبہ اور جو اُمنگ ہم میں پیدا کرتا ہے، ہم اُس آگ میں ہاتھ سینک لیتے ہیں اور چائے چڑھانا بھول جاتے ہیں۔ خیر یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہےسو اس بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے۔


بات ہو رہی تھی اہمیت کی ترتیب کی، یعنی ترجیحات کی۔ فرض کیجے آپ کی انگریزی زبان کی لیاقت بالکل معمولی سی ہے اور آپ اپنی انگریزی زبان کی استعداد بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اور آپ بارہا اپنے دوستوں میں، عزیز و اقارب میں بیٹھ کر اس کا اعادہ بھی کر چکے ہیں ۔ لیکن بات یہ ہے کہ بات اس سے آگے نہیں بڑھتی۔ ممکن ہے آپ نے چار سال پہلے کہا ہو کہ آپ اپنی انگریزی اچھی کرنا چاہتےہیں اور آپ اب بھی کہتے ہیں کہ آپ اپنی انگریزی اچھی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ممکن ہے کہ اگلے چار سال بعد بھی آپ اپنی محفلوں میں کسی سے یہی کہہ رہے ہوں۔

سُنتے آئے ہیں کہ انسان کی ایسی قَسموں پر گرفت نہیں ہوتی جو اُس نے بس یوں ہی رواروی میں کھالی ہوں یعنی بغیر کسی سنجیدگی اور تدبر کے۔ لیکن ایسی قسمیں جو اُس نے باقاعدہ سوچ سمجھ کر اور پکے ارادے سے کھائی ہوں اور اُنہیں پورا نہ کر سکے تو پھر اُسے کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

سو جب ہم کسی مقصد کے حصول کا اظہار کرتے ہیں اور اکثر کرتے رہتے ہیں تو پھر ہم پر بھی یہی قسم کے کفارے والا فارمولا عائد ہوتا ہے۔ اگر ہم واقعی سنجیدگی سے کوئی بات کرتے ہیں اور اُس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پاتی تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ چُوک ہوئی کہاں۔ اور اب کیسے کفارہ ادا کیا جائے۔

اگر اس بات کا تعین ہو جائے کہ آپ اپنے مقصد یا شوق کے اظہار میں سچے تھے تو پھر اب ایک ہی مسئلہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے ترجیحات میں اُس مقصد کے تعین کا۔ آپ اپنی تمام تر ترجیحات کو ایک کاغذ پر لکھ لیں اور پھر اُن پر اہمیت کے اعتبار سے نمبر ڈال لیجے۔ اگر آپ کا مذکورہ شوق پہلی پانچ ترجیحات (علاوہ بنیادی ضرورتیں) میں جگہ بنانے میں ناکام ہو جائے تو پھر اُس سے دستبردار ہو جائیے اور جگہ جگہ محفلوں میں غیر سنجیدہ دعووں سے گریز کریں۔

تاہم اگر آپ کا شوق شروع کی پانچ ترجیحات (علاوہ بنیادی ضرورتیں) میں شامل ہو جائے تو پھر اس کے لئے باقاعدہ وسائل (وقت اور اخراجات ، اگر درکار ہوں) مختص کریں اور اللہ کا نام لے کر کام میں جُت جائیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ سیوہ بنا میوہ نہیں ملتا تو پھر محنت کریں اور کوئی کسر نہ چھوڑیں، اللہ تعالیٰ آپ کو ضرور کامیاب کریں گے۔ 

*****

2 تبصرے:

  1. احمد بھائی! شاندار تحریر ہے اور کئی ایک باتوں پر تو مجھے بھی شرمندگی ہو رہی ہے کہ بارہا کہا ہے۔ کبھی عملی کوشش نہیں کی۔ آپ کا اس شرمندگی کو بڑھانے کا شکریہ۔۔۔۔ :ڈی

    جواب دیںحذف کریں
  2. ایسے جیسے بھگو بھگو کر پڑ رہی ہوں!
    بہت خوبصورت اور جامع تحریر۔

    جواب دیںحذف کریں