غزل : وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا

غزل 

وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا
تو میں بھی اپنی پیاس پر سحاب رکھ کے سو گیا

میں تشنہ تھا سو خواب میں سراب دیکھتا رہا
جو تھک گیا تو سر تلے حباب رکھ کے سو گیا

فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا

جو میرے گرد و پیش میں عجیب وحشتیں رہیں
میں اپنی چشمِ خواب میں عذاب رکھ کے سو گیا

بھٹک رہا ہوں کُو بہ کُو ، نہ رُک سکوں ،نہ بڑھ سکوں
وہ میرے دشت میں کئ سراب رکھ کے سو گیا

رہا حسابِ دوستاں، سو وہ تو دل میں تھا نہاں
معاف کی جفائیں سب! حساب رکھ کے سو گیا

پھر ایک دن سُخن پری، رُکی! نہ اپنے گھر گئی
تھکا ہوا میں درمیاں حجاب رکھ کے سو گیا

سوال ہی سوال تھے لبوں پہ زندگی ترے
دمِ فنا لبوں پہ میں جواب رکھ کے سو گیا

اُسے کبھی نہ کہہ سکا میں احمد ؔ اپنا حالِ دل
سو آج پھر کتاب میں گُلاب رکھ کے سو گیا

محمد احمدؔ​

غزل : اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا

غزل 

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ​

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

غزل 

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب 
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

محمد احمدؔ​

غزل۔ اشک کیا ڈھلکا ترے رُخسار سے

غزل


اس طرح بیٹھے ہو کیوں بیزار سے
بھر گیا دل راحتِ دیدار سے؟

اشک کیا ڈھلکا ترے رُخسار سے
گِر پڑا ہوں جیسے میں کُہسار سے

در کُھلا تو میری ہی جانب کُھلا
سر پٹختا رہ گیا دیوار سے

ایک دن خاموش ہو کر دیکھیے
لُطف گر اُٹھنے لگے تکرار سے

دیکھ لو یہ زرد آنکھیں، خشک ہونٹ
پوچھتے ہو حال کیا بیمار سے

قدر کیجے فیض جس جس سے ملے
سایہ ٴ دیوار ہے، دیوار سے

کل یہاں ویرانیاں نہ ہوں مقیم
ڈر رہا ہوں گرمیِ بازار سے

جھوٹ چلتا ہے مگر اِک آدھ بار
اے قصیدہ خواں حذر! تکرار سے

بِک رہی ہے زندگی کے مول ، موت
جائیے! لے آئیے بازار سے

مانگتے ہیں ووٹ، اُس پر طنطنہ
پیچ و خم نکلے نہیں دستار سے

بند کر ٹی وی کی خبریں، بے خبر!
چل کوئی کالم سنا اخبار سے

دوستی کی محفلیں قائم رہیں
یہ دعا ہے اپنی پالن ہار سے

تجھ میں احمدؔ عیب ہیں لاکھوں مگر
واسطہ ہے تیرا کِس ستّار سے

محمد احمدؔ​

جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں

غزل


جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں
جب دل کا ہم نشیں ملتا نہیں کہیں

یوں اُس کی یاد ہے دل میں بسی ہوئی
جیسے خزانہ ہو زیرِ زمیں کہیں

ہم نے تمھارا غم دل میں چھپایا ہے
دیکھا بھی ہے کبھی ایسا امیں کہیں

میری دراز میں، ہے اُس کا خط دھرا
اٹکا ہوا نہ ہو، دل بھی وہیں کہیں

ہے اُس کا خط تو بس سیدھا سپاٹ سا
ہاں دل لگی بھی ہے اس میں کہیں کہیں

جتنا وہ دل رُبا ، اُتنا ہی بے وفا
دل کو ملا ہی کیوں ایسا حسیں کہیں

احمدؔ یہ دل مِرا ،کیوں ہے بجھا بجھا
دل سے خفا نہ ہو، دل کا مکیں کہیں

محمد احمدؔ​

شعراء کا ڈوپ ٹیسٹ

شعراء کا ڈوپ ٹیسٹ
از محمد احمد
کھیلوں کی دنیا سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ بہت سے کھلاڑی /ایتھلیٹس کارکردگی کو بڑھانے کے لئے دوائیں استعمال کرتے ہیں تاہم ان دواؤں کا استعمال کھیل کی روح کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ اور اس عمل کی روک تھام کے لئے کھلاڑیوں کی جانچ بذریعہ ڈوپ ٹیسٹ کی جاتی ہے۔ ٹیسٹ میں مثبت رپورٹ آنے پر کھلاڑیوں کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی جاتی ہے اور اُن کی کارکردگی کو انصاف کے اصولوں کے منافی بھی سمجھا جاتا ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ بعینہ یہی بات ایسے شعراء پر بھی صادق آتی ہے کہ جو اپنی کاکردگی بڑھانے کے لئے مے نوشی کا سہارا لیتے ہیں اور پی پلا کر ایسی ایسی شاعری کرتے ہیں کہ پڑھنے سننے والے دنگ رہ جائیں۔ 

اگر آپ کا اردو شاعری سے تھوڑا بہت بھی علاقہ رہا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارے شعراء ہر دوسری غزل اور چوتھے شعر میں شراب کا ذکر کرتے ہیں تاہم یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کبھی زیادہ موڈ ہو تو یہ لوگ شراب کو ردیف میں شامل کر لیتے ہیں اور ہر شعر میں جام کے جام لنڈھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ 

جہاں تک شاعری میں شراب کے ذکر کی بات ہے تو ہمیں اُس پر کوئی اعتراض نہیں ہے چاہے وہ استعاراتی معنوں میں ہو یا حقیقی معنوں میں۔ ہم تو بات کر رہے ہیں اُن شعراء کی جو شراب پی کر شاعری کرتے ہیں یا شراب پی جانے کی وجہ سے شاعری کرنے لگتے ہیں ۔ 

ہمارے ہاں یہ تاثر بڑا عام ہے کہ جو شعراء دخترِ رز سے آشنائی رکھتے ہیں اُن کی شاعری میں ایک الگ ہی جذب اور گہرائی ملتی ہے۔ اُن کے مضامین طاق ہوا کرتے ہیں اور تخیّل اوج پر ہوتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح بھی ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار نامی گرامی شعراء ایسے ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں کہ جو مے نوشی سے نسبت رکھتے ہیں اور بہت اچھی شاعری اُن کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔ نام ہم اس لئے نہیں لے رہے کہ نام بہت سارے ہیں اور نام لکھنے سے یہ مضمون مقالہ معلوم ہونے لگے گا۔ مزید براں بہت سے شعراء اس بات پر معترض ہوں گے کہ مے نوشوں میں اُن کا نام کیوں لکھا اور بہت سے اس بات پر کہ مے نوشوں میں اُن کا نام کیوں نہ لکھا۔ سو نام رہنے دیتے ہیں۔ ویسے بارہ پندرہ نام تو آپ کے ذہن میں بھی آ ہی گئے ہوں گے۔
اگر آپ کا اردو شاعری سے تھوڑا بہت بھی علاقہ رہا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارے شعراء ہر دوسری غزل اور چوتھے شعر میں شراب کا ذکر کرتے ہیں تاہم یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کبھی زیادہ موڈ ہو تو یہ لوگ شراب کو ردیف میں شامل کر لیتے ہیں اور ہر شعر میں جام کے جام لنڈھانے سے دریغ نہیں کرتے۔

اس تمام پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نشہ اور خمار انسان کے ذہن کو فکرِ سخن کے لئے یکسوئی اور ایسا شاعرانہ نظم فراہم کرتا ہے کہ انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور یوں شاعری کے لئے ایک ایسی فضا ہموار ہو جاتی ہے کہ ہوش وحواس میں رہتے ہوئے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ 

بقول غالب :
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو 
اک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے​

گو کہ غالب نے اپنے تئیں اپنی صفائی پیش کی ہے کہ ہمیں شراب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن اسی شعر سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ غالب کو شراب کی ضرورت اس لئے رہی کہ وہ ایک مستقل بے خودی کی کیفیت خود پر طاری رکھنا چاہتے تھے ۔ اور اس کیفیت کے زیرِ اثر فکرِ سخن کے علاوہ بھلا کیا کام ہو سکتا تھا۔ بے خودی میں قدم اُٹھانے کے متمنی تو غالب بھی نہیں ہوں گے۔ 

بعد میں غالب نے اسی شعر کو اُلٹا کرکے بھی پیش کیا۔ 

بے خود ی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے​

حالانکہ پردہ داری کی چنداں ضرورت نہیں تھی اور لوگ جانتے تھے کہ غالب پر کس شے کے باعث بے خودی طاری رہا کرتی تھی۔ 

سو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ جو شاعر اپنی کارکردگی بڑھانے کے لئے دوا دارو کا استعمال کرتے ہیں اُن کا ڈوپ ٹیسٹ ہونا چاہیے اور ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر ان کی شاعری کو شاعری کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اُن پر چھ آٹھ ماہ کی پابندی لگا دینا چاہیے۔ تاحیات پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے لیکن ہم ایسی سخت دلی کی سفارش نہیں کرتے۔ 

اس طرح اُن لوگوں کو تشفی ہوگی جو بن پیے لہراتے ہیں یعنی شاعری کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اُن لوگوں کو سراہنا چاہتے ہیں جو بن پیے شاعری کیا کرتے ہیں کہ یہ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ 

آپ فکرِ سخن میں ہیں کہ بیگم کہتی ہے دہی لا دیں۔ آپ دہی لانے کے لئے اُٹھنا نہیں چاہتے اور چاہتے ہیں کہ فکرِ سخن کے علاوہ کوئی اور فکر لاحق نہ ہو لیکن بیگم آپ کے دماغ کی دہی بناتی رہتی ہے اور آپ دماغ کی لسی بننے کے خوف سے چار و ناچار دہی لینے کے لیے چلے جاتے ہیں اور غزل اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ 

تاہم اگر آپ پیے ہوئے بیٹھے ہیں تو دہی لانے کی فرمائش ہو سکتا ہے کہ آپ کے کان تک ہی نہ پہنچے ۔ اور اگر پہنچ بھی جائے تو آپ کو اوجِ ثریا سے اُتار کر دہی کی دوکان تک لے جانے والی کرین ابھی ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ سو چار و ناچار بیگم آپ پر تین حرف بھیجے گی اور پڑوسی کے بچے کو دہی لینے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہوش میں آنے تک دو چار غزلیں تیار ہوں گی۔ اور بیگم کی فرمائش پر دہی لانے والا شاعر دوسرے دن مشاعرے میں آپ کی غزلوں پر سر دھن رہا ہوگا اور کھٹی ڈکاریں لے رہا ہوگا۔ 

اس طرح کے بہت سے منظر ہم آپ کو دکھا سکتے ہیں کہ کس طرح صہبا اور صراحی کے ہم نشین، دہی اور کونڈے کے خاک نشین سے آگے نکل جاتے ہیں تاہم تھوڑے کہے کو بہت سمجھتے ہوئے یہیں پر بس کرتے ہیں اور مزید مناظر آپ کی تخیلانہ صلاحیتوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ 

ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور معیاری شاعری کے لئے جس ذہنی بالیدگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب چیدہ چیدہ لوگوں کے پاس ہی رہ گئی ہے۔ اب یہ چیدہ چیدہ لوگ اگر مے نوشی کر لیں تو ساری سنجیدگی اور بردباری یک بہ یک روانہ ہو جاتی ہے اور یہ لوگ وہ وہ حرکتیں کرنے لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔! 

اس کے برخلاف غیر سنجیدہ حضرات پر مے نوشی کا اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ بقول حضرتِ فراق:

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراق
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہوگئے 
اب ایسی سنجیدگی کے ساتھ جب سنجیدہ شاعری کی جاتی ہے تو وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے اور اس ناہنجار شے کے باعث غیر سنجیدہ لوگ معتبر ٹھہرتے ہیں اور معتبر لوگ غیر سنجیدہ۔ 

اس سب قضیے کے باوجود شاعر اپنے شراب پینے کو جائز قرار دیتا ہے اور چِلا چِلا کر کہتا ہے:

ہنگامہ ہے کیوں برپا ، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے​

تو ہم شاعرِ موصوف کو کہتے ہیں کہ بھائی آپ نے ڈاکہ تو واقعی نہیں ڈالا لیکن اُس بے چارے شاعر کا کیا قصور جس نے کٹھن حالات میں دو شعر کہے اور باقی غزل دہی اور دلیے کی نظر ہو گئی۔ 

سو ہماری پر زور اپیل ہے کہ شعراء کے لئے بھی اینٹی ڈوپنگ ادارہ قائم کیا جائے اور ایسے شعراء کے ٹیسٹ سب سے پہلے کیے جائیں جن کے شاعری شراب اور بے خودی کے گرد گھومتی ہے اور وہ خود صراحی اور پیمانے کے گرد۔ 

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری اس جسارت پر بہت سے شائقینِ مے ناب ہمیں کھری کھری سنائیں گے اور بہت سے تلملا کر یہ تک کہہ دیں گے :

؎ ہائے کم بخت تو پی ہی نہیں

تاہم ہم اس دیرینہ طعنے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا وضاحتی بیان جار ی کریں گے کہ جناب ہمیں آپ کی مے نوشی پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ہمیں تو رخشِ مے نوشی پر سوار ہو کر سخنوری کرنے پر اعتراض ہے۔ جناب آپ دل کھول کر پیئں اور جب دل چاہے پیئں لیکن کبھی بغیر پیے بھی دو چار غزلیں لکھنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ غزل کس طرح ہوتی ہے۔ 

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟
اگر آپ اس طرح کا کوئی شعر یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو رہنے دیجے ہم نے یاد دلا دیا ہے اور بھی بہت سے ہیں جو یاد کرنے پر سلسلہ وار یاد آتے چلے جائیں گے۔ لیکن ہم پھر یہی کہیں گے کہ جناب ہماری اس چھوٹی سی گزارش کو دعوتِ مبارزت نہ سمجھیے بلکہ ہوش کے ناخن لیجے اور اُن سے اپنے نادیدہ زخم کرید کر دیدہ و دانستہ باقائمی ہوش و حواش فکرِ سخن کیجے تاکہ آپ بھی کہہ سکیں کہ جناب یہ ہوتی ہے اسپورٹس میں اسپرٹ۔ :)



*****

اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا ۔ مرتضیٰ برلاس

غزل

اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا 
اپنے ناخن زخمی کرنا اور گتھی سلجھاتے رہنا

لوگ جو تم کو بادل سمجھیں، بارش کی اُمید کریں 
اور تمھارا کام ہمیشہ  پتّھر ہی برساتے رہنا

ہم ہیں وہ آواز جو گُھٹ کے ساری فضا میں گونج رہے ہیں
بعد ہمارے، آوازوں کو زنجیریں پہناتے رہنا

آج یہ جن دیواروں کے تم روزن بند کیے جاتے ہو
کل کو ان دیواروں سے پھر اپنا سر ٹکراتے رہنا

ہم تو چراغِ اوّلِ شب ہیں، اوّل  بجھ جائیں گے ہم
تم ہی یارو! آخرِ شب تک دیپ سے دیپ جلاتے رہنا


مرتضیٰ برلاس