کراچی آرٹس کونسل میں خوش نویسی کی نمائش


منگل کے روز آرٹس کونسل کراچی میں کیلیگرافی ایگزیبیشن یعنی خوش نویسی / خطاطی کی سہ روزہ نمائش کا افتتاح ہوا ۔ یوں تو یہ نمائش ہر سال ماہِ رمضان میں منعقد ہو ا کرتی ہے لیکن اس بار حکومتی عہدے داروں کو اس غیر ضروری کام کے لئے فرصت ہی نہیں مل پا رہی تھی سو یہ کام رمضان میں نہ ہو سکا اور اُس کے بعد التوا در اِلتوا کا شکار رہا ۔ تاہم آخر کار یہ 15 ستمبر 2015 کو منعقد ہوا ۔ اور سُنا ہے کہ اس بار بھی کمشنر کراچی نہ پہنچ پائے۔

بہرکیف، ہم یوں تو آرٹس کونسل میں جا کر جھانکتے تک نہیں ہیں تاہم ہمارے ایک عزیز دوست محمد وسیم اور اُن کے تین دوست محمد شفیق، سلمان احمد اور نعیم سعید مغل اس نمائش میں حصہ لے رہے تھے تو ہم بھی کشاں کشاں اس موقع پر وہاں پہنچ گئے۔

نمائش میں نو آموز اور تجربہ کار دونوں ہی قسم کے فنکاروں کا کام شامل تھا اور بیشتر کام اسلامی خطاطی سے متعلق تھا۔ بہت سا کام ایسا بھی تھا کہ دیکھتے ہی کلمہ ء تحسین لبوں پر آ کر سج گیا۔ زیادہ تر کام آئل پینٹ سے کیا گیا تھا اور کچھ میں دیگر میڈیا بھی استعمال ہوا تھا۔ ہمارے دوست محمد وسیم اپنی مصروفیات کے باعث صرف ایک ہی شاہکار پیش کر سکے ۔ پاکستانی فنکاروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو زندگی کی گوں ناگوں مصروفیات میں سے بامشکل ہی اپنے شوق کے لئے وقت نکال پاتے ہیں اور اکثر زبانِ حال سے یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ:

ع- تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

قارئین کی دلچسپی کے لئے کچھ تصاویر اس پوسٹ میں شامل کر رہے ہیں۔
(تصاویر چونکہ موبائل کیمرے سے لی گئی ہیں سو معیار زیادہ اچھا نہیں ہے۔)

ہمارے دوست محمد وسیم اپنے فن پارے کے ساتھ

محمد وسیم نمائش میں شرکت کی سند وصول کرتے ہوئے۔

محمد وسیم ، خاکسار اور محمد شفیق ، عقب میں محمد شفیق کے بنائے ہوئے دو فن پارے ۔

مزید کچھ فن پارے جو ہمیں پسند آئے۔













 فن یا آرٹ کے ذریعے ہم اپنی زندگی کے معمولات تو نہیں بدل سکتے لیکن تخلیقی ماحول سے قربت ہمارے محسوسات ضرور بدل سکتی ہے۔ آج کی زندگی بلاشبہ بہت مصروف ہے لیکن کبھی کبھار اس قسم کی تقاریب میں شرکت ہمارے روز و شب میں بہتری لانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتی ہے۔


افسانہ : مہربانی

مہربانی ​
محمداحمدؔ​

آج میں نے پوری سترہ گیندیں بیچیں۔ ایک دو نہیں ۔ پوری سترہ۔ جب سے اسکولوں کی چھٹیاں ہوئی ہیں آٹھ دس گیندیں بیچنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ لیکن آج ہم گھومتے گھومتے ایک بڑے سے پارک تک پہنچ گئے۔ اب پتہ چلا کہ اسکول بند ہو تو بچے کہاں جاتے ہیں۔

میں اور مُنی پارک کے دروازے پر ہی کھڑے ہوگئے۔ پارک میں آتے جاتے بچوں کو رنگ برنگی گیندیں اچھی لگتی تو اُن کے ماں باپ اُن کو خرید ہی دیتے۔ جب پوری سترہ گیندیں بِک گئیں تو منی نے کہا کہ اب چلتے ہیں۔ اُسے بھوک لگی تھی۔ بھوک تو مجھے بھی بہت لگی تھی لیکن میں چاہ رہا تھا کہ کچھ دیر اور رُک جائیں کیا پتہ دو چار گیندیں اور بِک جائیں۔ لیکن پھر مُنی نے بار بار کہا تو میں نے سوچا کہ اب پارک تو دیکھ ہی لیا ہے کل صبح سے یہیں آ جائیں گے۔

گیندوں کا تھیلہ اُٹھا کر میں اور مُنی سڑک پار آ گئے۔ یہاں سے کچھ دور وہ ہوٹل تھی جہاں سے ہم روٹی کھاتے تھے۔ میں نے ہوٹل والے چاچا سے چار روٹیاں (چپاتی) لیں اور سالن والے چاچا سے کہہ کر روٹی پر تھوڑا سا سالن ڈلوالیا۔ روٹی پر سالن ڈالنے سے ساری روٹی ٹھنڈی اور گیلی ہو جاتی تھی لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ الگ سے سالن خرید سکیں۔ میرے کہنے پر مُنی نے بھی اپنی روٹی پر سالن ڈلوالیا۔ روٹی لے کر ہم باہر رکھی میز کُرسی پر بیٹھ گئے۔ یہ میز کُرسی باہر بیٹھے دوکان والے کی تھی۔

*****​

مغرب کی نماز پڑھ کر میں اپنے پسندیدہ فاسٹ فوڈ ڈھابے پر آ گیا۔ تھی تو یہ فُٹ پاتھ پر لگی ایک چھوٹی سی ہوٹل لیکن یہاں کے چکن رول اور بوٹی کے رول کا ذائقہ کسی بھی اچھے فاسٹ فوڈ ریستوران سے کم نہیں تھا۔ جب کبھی میرا یا میرے دوستوں کا کچھ کھانے پینے کا موڈ ہوتا تو ہم یہاں آ جاتے۔ رول، تِکّوں کے علاوہ یہاں کچھ دیگر ڈشز بھی بڑی لاجواب ہوتی تھیں۔ آج میں یہاں اکیلا ہی چلا آیا تھا۔ بھوک تو مجھے نہیں تھی لیکن زبان کا چسکہ البتہ ضرور درکار تھا۔ میں نے اپنے لئے رول کا آرڈر دیا اور انتظار کرنے لگا۔

کچھ ہی دیر میں چکن رول معہ رائتہ اور ٹماٹر کی چٹنی میرے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ گرم گرم رول کھانے کا الگ ہی مزہ ہے۔ میں نے بسمہ اللہ کرنے میں دیر نہیں لگائی رول کا لطف لیتے ہوئے گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا۔ میں جس میز پر بیٹھا تھا وہ پلاسٹک کی تھی ایسی میزیں آج کل گھروں میں لان وغیرہ میں استعمال ہوتی ہیں۔ میز سڑک کے کنارے فُٹ پاتھ پر لگی ہوئی تھی اس سے ذرا سا آگے ایسی ہی ایک میز اور بھی تھی۔ دونوں میزوں کے ساتھ چار چار کُرسیاں تھیں۔

میرے سامنے والی میز پر ایک بچہ کہیں سے تیز تیز چلتا ہوا آیا اور اپنے ہاتھ میں موجود چیز میز پر رکھ دی اور تیزی کے ساتھ کُرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کہیں سے اخبار میں لپٹی چپاتیاں لایا تھا جس پر چنے کا سالن لتھڑا ہوا تھا۔ سالن میں موجود روغن کو گرنے سے بچانے کے لئے وہ کبھی روٹی کو ایک طرف سے اُٹھا تا تو کبھی دوسری طرف سے۔ یا شاید وہ اس طرح ساری روٹی کو سالن سے تر کرنا چاہ رہا تھا۔ سالن بھی کیا تھا کہ اُس میں بامشکل چار چھ چنے کے دانے تھے اور باقی روغن تھا۔ شاید اس بچے نے سالن مفت میں روٹی پر ڈلوا لیا تھا۔ ابھی میں بچے کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ اُس بچے کے سامنے ایک اور چھوٹی بچی آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کے ہاتھ میں بھی ایسی ہی روٹی تھی جس پر سالن لتھڑا ہوا تھا اور وہ بھی سالن روٹی کے ساتھ کافی اُلجھن کا شکار نظر آ رہی تھی۔ دونوں بچوں کی عمریں گیارہ بارہ سال سے زیادہ نہیں تھیں۔ اب بچے بڑی انہماک کے ساتھ کھانے میں لگے ہوئے تھے۔ بچوں کی میز کے ساتھ ایک بڑا سا شفاف تھیلا رکھا تھا جس میں رنگ برنگی گیندیں تھیں۔

اب سمجھ میں آ رہا تھا کہ کھیلنے کی عمر میں یہ بچے اتنی ساری گیندیں لیے کیوں مارے مارے پھر رہے تھے اور رنگ برنگی گیندوں کے انبار کے باوجود اُن کی ساری دلچسپی روغن میں لپٹی چپاتیوں میں کیوں تھی۔

مجھے اُن بچوں پر بڑا ترس آیا کہ بے چارے کس کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ نہ جانے ان کے ماں باپ کون ہیں۔ ہیں بھی یا نہیں؟ شاید ان کا باپ کہیں نشے میں دُھت پڑا ہو اور معصوم بچے اس کم عمری میں بھوک کے عفریت سے لڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔

میں اپنا کھانا پورا کر کے اُٹھا تو پیسے دیتے ہوئے میں نے اُسے دو رول اور بنانے کو کہا۔ اُس نے دو چار منٹ میں ہی دو رول تیار کر دیے۔ بچوں کی روٹی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ فاسٹ فوڈ والے نے اُنہیں میز پر سے اُٹھا دیا، وہ نئے آنے والے گاہکوں کے لئے جگہ بنا رہا تھا۔ بچے ایک بند دوکان کے چبوترے پر جا کر بیٹھ گئے۔ میں نے باقی بچنے والے پیسے جیب میں رکھے اور آگے بڑھ کر دونوں بچوں کو ایک ایک رول تھما دیا۔ بچوں کے چہرے پر شکر گزاری نہیں تھی۔ بلکہ وہاں حیرت تھی۔ صرف حیرت۔

*****​

کل بھائی نے سترہ گیندیں بیچیں تھیں۔ پوری سترہ۔
ہم نے ایک پارک دیکھا تھا۔ بہت بڑا پارک۔ اندر بہت بڑے بڑے جھولے تھے۔ اور بھی بہت کچھ ہوگا لیکن ہم اندر نہیں گئے۔ ہمیں نیلے کپڑوں والے چاچا نے اندر جانے ہی نہیں دیا۔ پارک میں اتنے لوگ، اتنے بچے آ جا رہے تھے کہ ہماری سترہ گیندیں بِک گئیں۔
پھر ہم کھانے کی ہوٹل پر گئے تو ہمیں ایک آدمی نے دو روٹیاں دیں۔ یہ تلی ہوئی روٹیاں تھیں اور اس کے اندر بوٹیاں بھی تھیں۔
میں تو ڈر رہی تھی۔ میں نے بھائی سے کہا مت کھاؤ۔ پتہ نہیں اس نے کیا ملایا ہوگا۔ لیکن بھائی فوراً ہی کھانا شروع ہو گیا۔ پھر میں نے بھی کھائیں۔ یہ بہت مزے کی تھیں۔ اُس دن بھائی بہت خوش تھا اور میں بھی۔ ہم اتنے خوش تھے کہ اماں کے لئے روٹی لے جانا بھی بھول گئے اور ہمیں آدھے راستے سے واپس آنا پڑا۔ وہ بھی میں نے ہی بھائی کو یاد دلایا۔
آج بھی ہم اُسی پارک گئے تھے۔ لیکن آج صرف بارہ گیندیں بِکیں۔
آج بھائی نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ وہ تو بس باہر والی ہوٹل پر آنے جانے والوں کو دیکھے جا رہا تھا۔
میں نے اُسے کہا ۔" بھائی کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟"
وہ مجھ پر ہی غصہ ہوگیا اور بولا "مجھے نہیں اچھے لگتی یہ گیلی روٹی اور چنے کا سالن!"
پھر وہ روٹی چھوڑ کر ہی ہوٹل سے اُٹھ گیا۔
لیکن میں نے روٹی اُٹھا لی۔ مجھے پتہ تھا گھر پر اماں بھوکی ہوگی۔

  *****​
 

 

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا

غزل

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ​

چھلانگ - احمد صغیر صدیقی

چھلانگ
 احمد صغیر صدیقی

 چند نو عمر لڑکے ایک جگہ کھڑے تھے ایک لڑکے کے ہاتھ میں ایک نقشہ دبا ہوا تھا۔ یہ دنیا کا نقشہ تھا۔۔ اُن میں سے ایک لڑکے نے نقشہ چھیننے کے لئے جھپٹا مارا اور پہلے لڑکے کے ہاتھ میں دبے کاغذ کا ایک حصہ نوچتا ہوا لے اُڑا۔

پھر بقیہ لڑکوں نے بھی نقشے کے لئے اُچھال بھری کاغذ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔
ایک لڑکے کے ہاتھ آدھا ایشیا ء اور پورا یورپ آیا۔ دوسرے کو براعظم امریکا اور آدھا ایشیاء ملا تیسرے کو افریقہ اور آسٹریلیا۔
پہلے لڑکے نے  منہ بسور کر ہاتھ میں باقی رہ جانے والے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔ اس کے پاس کچھ نہیں رہا تھا سوائے سمندروں کے ۔ اچانک سارے لڑکوں نے اس ٹکڑے کے لئے بھی  ایک ساتھ چھلانگ لگائی  اور ۔۔۔ سب کے سب ڈوب گئے۔

بشکریہ : سہ ماہی ادبیات

غزل ۔ اک عجب ہی سلسلہ تھا، میں نہ تھا ۔ محمد احمدؔ

غزل 

اک عجب ہی سلسلہ تھا، میں نہ تھا
مجھ میں کوئی رہ رہا تھا ، میں نہ تھا 

میں کسی کا عکس ہوں مجھ پر کُھلا
آئینے کا آئینہ تھا ، میں نہ تھا

میں تمھارا مسئلہ ہرگز نہ تھا
یہ تمھارا مسئلہ تھا، میں نہ تھا

پھر کُھلا میں دونوں کے مابین ہوں
اِک ذرا سا فاصلہ تھا ، میں نہ تھا

ایک زینے پر قدم جیسے رُکیں
تری رہ کا مرحلہ تھا، میں نہ تھا

وہ جو اک گم کردہ رہ تھا دشت میں
وہ تو میرا رہنما تھا، میں نہ تھا

اونچی نیچی راہ محوِ رقص تھی
ڈگمگاتا راستہ تھا ، میں نہ تھا

تم نے جس سے سمت پوچھی دشت میں
وہ کوئی قبلہ نما تھا، میں نہ تھا

یہ کہانی تھی، مگر میری نہ تھی
وہ جو مردِ ماجرا تھا، میں نہ تھا

میں تو اپنی شاخ سے تھا متصل
پات جو وقفِ ہوا تھا، میں نہ تھا

خُود سے مل کر بُجھ گیا تھا میں تو کل
دیپ جو شب بھر جلا تھا، میں نہ تھا

"میں نہ تھا" کہتا تھا جو ہربات پر
وہ تو کوئی دوسرا تھا، میں نہ تھا

میں تو احمدؔ کب سےمحوِ یاس ہوں
کل جو محفل میں ہنسا تھا، میں نہ تھا​

محمد احمدؔ

اسی دن میں دنیا کا سفر - ہمدرد نونہال سے جُڑی ایک یاد


آج ہم جو پڑھنے لکھنے کا تھوڑا بہت شغف رکھتے ہیں اُس کی بڑی وجہ بچپن میں پڑھے جانے والے رسالے اور خصوصاً ہمدرد نونہال رہا ہے۔  ہمدرد نونہال غیر محسوس طریقے سے اپنے ننھے منے قارئین کی اس طرح تربیت کرتا تھا کہ اُن میں تمام تر نیک کاموں   اور اچھی چیزوں سے محبت راسخ ہو جاتی تھی۔ ہر اچھائی بُرائی کا اس خوبی سے احساس دلایا جاتا تھا کہ وہ بغیر جانے ہی لاشعور میں اُتر جاتی تھی۔  آج بھی ہم میں نہ جانے کیا باتیں ایسی موجود ہیں جن  کا  تعلق کہیں نہ کہیں سے نونہال ادب سے جا ملتا ہے۔ 

آج بھی ہمیں بچوں کا کوئی ایسا ماہنامہ نظر نہیں آتا جس کا  پیش لفظ جاگو جگاؤ کی طرح تعمیری  طرز رکھتا ہو۔ حکیم محمد سعید اور مسعود احمد برکاتی  کے قلم میں ایسی مٹھاس ، ایسی شفقت تھی کہ پڑھنے والے پر اثر ہو کر ہی رہتا تھا۔  خیال کے  پھو ل کے نام سے دنیا بھر  کے نامور لوگوں کے اقوالِ زرّیں  بچوں کو بڑی سوچ سے روشناس کراتے تھے۔ پھر دیگر چھوٹی چھوٹی کہانیاں ، مضامین اور کبھی کبھی سفر نامے ، یہ سب تفریحِ طبع کے ساتھ ساتھ زبان پر عبور اور اعلیٰ  عادات  و اوصاف سے قربت کا سبب بھی بنتے تھے۔  بہر کیف ہمدرد نونہال بچوں کے لئے ایک بھرپور اور صحتمند تفریح ہوا کرتا تھا۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہو۔ 

چاہے آپ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جائیں بچپن بھولے نہیں بھولتا ہے۔ سو آج ہم بھی ایک چھوٹی سی کہانی کے وسیلے سے اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گئے۔  

"اسی دن میں دنیا کا سفر" نونہال ادب سے منتخب کی گئی ایک کہانی ہے جس میں ایک شخص نے اُس زمانے میں اسی دن میں دنیا کا سفر طے کرنے کی شرط لگائی جب  یہ سفر کم از کم تین ماہ پر محیط سمجھا جاتا تھا۔  یہ چھوٹی سی کہانی قاری کو اپنے ساتھ لگائے رکھنے کے ہنر سے واقف ہے اور اس میں تجسس،  مہم جوئی، انسانی ہمدردی، ہمت و جواں مردی اور راستی  جیسے بڑے بڑے عناصر باکثرت ملتے ہیں۔  اگر آپ یہ کہانی پڑھنا شروع کر دیں تو پھر اسے ختم کرکے ہی چھوڑیں گے۔ 

یہ کہانی انگریزی سے ترجمہ کی گئی ہے اور ہمیں "اردو کی برقی کتابیں" جو کہ ہمارے استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب کی ای بکس کی سائٹ ہے سے ملی۔ اس خوبصورت کہانی کی ٹائپنگ ہمارے بہت ہی اچھے دوست انیس الرحمٰن بھائی نے کی ہے جو نونہال ادب سے یک گونہ محبت رکھتے ہیں اور ای بک کی تدوین و تشکیل جناب اعجاز عبید صاحب کے بابرکت ہاتھوں سے ہی ہوئی ہے۔ 

اگر آپ یہ مختصر کہانی پڑھنا چاہیں تو یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔ 



اگر آپ اس تحریر کو اپنے اینڈروائڈ   سیٹ پر  پڑھنا چاہیں تو یہاں سے ڈاؤنلوڈ  کر لیجے یہ موبی فائل زو  ریڈر  پر پڑھی جا سکتی ہے۔ 


افطار ڈنر


اسلام میں روزہ افطار کروانے والے کے لئے بڑا اجر ہے۔ حتی کہ اگر آپ کسی شخص کا روزہ ایک کھجور یا ایک گلاس پانی سے بھی افطار کروادیں تو ثواب کے مستحق ٹھہریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص کسی روزدار کا روزہ افطار کروائے گا تو اُسے بھی روزہ دار کے اجر کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

سو جیسا کہ ایک مسلم معاشرے میں ہونا چاہیے ہمارے ہاں بھی بڑے پیمانے پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے دسترخوانوں پر افطار کا بندوبست کرکے عوام الناس کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ یقیناً جو لوگ یہ کام خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں اُن کا اجر اُنہیں مل کر رہے گا۔

تاہم آج کل ایک اور اصطلاح "افطار ڈنر" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ اصطلاح زیادہ تر ہائی پروفائل کاروباری افطار کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ آج کل کاروپوریٹ دنیا میں بھی مختلف کمپنیز افطار ڈنر کا اہتمام کرتی ہیں اور اپنے کاروباری متعلقین کو افطار ڈنر پر مدعو کرتی ہیں ۔ کثیر الاقوامی کمپنیز کے علاوہ بھی بہت سے کاروباری حضرات حسب ِ حیثیت اس طرح کے افطار ڈنر کا بندوبست کرتے ہیں اور اپنے معزز گاہکوں اور دیگر کاروباری متعلقین کو مدعو کرتے ہیں۔ عموماً اس قسم کی بزنس افطار کا مقصد گاہکوں اور دیگر کاروباری لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے اور افطار کے سلسلے میں ہونے والی یہ ملاقاتیں مستقبل میں بہتر کاروباری تعلقات کا سبب گردانی جاتی ہیں۔

خاکسار کا خیال ہے کہ افطار کا اہتمام صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جانا چاہیے اور خصوصاً اس معاملے میں دنیاوی فائدے کے بجائے اُخروی اجر کو فوقیت دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ دیگر کاروباری ملاقاتوں کواگر اس معاملے سے الگ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بہر کیف نیّتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں خود احتسابی سے کام لے کہ اچھائی اور برائی کی تمیز اُسے ودیعت کر دی گئی ہے ۔ یوں بھی انسان ذاتی حیثیت میں ہی خدا کو جواب دہ ہوگا۔

اس کے علاوہ آج کل افطار پارٹیز میں بوفے سسٹم بھی بہت عام ہے۔ بوفے سسٹم سے مراد یہ ہے کہ مخصو ص ریستورانوں میں یہ انتظام ہوتا ہے کہ ایک خاص رقم خرچ کرکے آپ جتنا کھا سکتے ہیں کھائیں*۔ عموماً بوفے میں انواع و اقسام کے اتنے کھانے ہوتے ہیں کہ اُنہیں کھانا تو کُجا گننا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اکثر لوگ تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ اور بہت کھا کر بھی بہت سے کھانوں کو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کاش یہ بھی کھالیتے لیکن اپنی محدود گنجائش کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ اتنے سارے کھانوں اور نایاب اشیاء کی دستیابی کی وجہ سے بوفے ڈنر بہت مہنگا ہوتا ہے نیز حسرت و گنجائش کی کشمکش کے باعث بوفے میں کھانا ضائع بھی بہت ہوتا ہے۔

عموماً ہوتا یوں ہے کہ کاروباری کمپنیز یا وہ شخض جو سب کو افطار پارٹی پر مدعو کرتا ہے اُن سب کے طعام کی رقم بوفے ریستوران والوں کو دے دیا کرتا ہے اور اس طرح افطار پارٹی کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے طور پر ہی یعنی انفرادی طور پر اپنی جیب سے رقم ادا کرکے بھی بوفے افطار ڈنر سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب نعمتیں میسر آتی تھیں تو وہ اِس خوف سے لرز جاتے تھے کہ کہیں اُن کی نیکوں کا بدلہ دنیا میں ہی نہ مل جائے اور آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہ رہے۔ یہ تو بات تھی صحابہ کرام کی کہ جن کے مرتبے کو ایک عام مسلمان کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا بلکہ شاید اُن کے مرتبے کا صحیح ادراک بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

بوفے افطار میں یا افطار ڈنر میں اتنی ساری نعمتیں ایک ساتھ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں جو اس ریستوران کی چار دیواری میں ہوں مجھے یہ سب نعمتیں میسر آ گئیں ہیں لیکن اس دیوار کے اُس طرف نہ جانے کتنے لوگ ہیں کہ جنہیں ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ بلکہ اسی چار دیواری میں ریستوران کے ملازموں میں نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جو اپنی زندگی میں ان سب چیزوں کے بارے میں صرف حسرت سے ہی سوچتے ہوں گے۔ پھر جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ جن کے مرتبے کا صحیح اندازہ کرنا بھی عام مسلمان کے لئے ممکن نہیں ہے، نعمتوں کے میسر آنے پر اس قدر خشیعت میں مبتلا ہو جاتے تھے تو ہمارا ، ہم عام بے عمل مسلمانوں کا کیا حال ہونا چاہیے۔

ہم کس منہ سے اللہ کو جواب دیں گے کہ جب پوچھا جائے گا کہ احمد تم جب اَسّی یا ایک سو بیس کھانوں میں سے فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ کیا کھاؤں اور کیا نہ کھاؤں تب اُس دیوار کے پار ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جس کو صرف ایک روٹی درکار تھی اور تم نے اُس کا احساس ہی نہیں کیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا حل کیا ہے تو اس کا جواب سادہ سا ہے یعنی "میانہ روی" ۔ ہمیں ہر ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔ اور اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔ نعمتیں میسر آئیں تو غرباء اور مساکین کا خیال آنا چاہیے اور حتی المقدور کوشش کرکے اُنہیں بھی کسی نہ کسی حد تک اُن نعمتوں میں حصہ دار بنا لینا چاہیے۔ ذاتی حیثیت میں مجھے بوفے ڈنر پسند نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس سے آدھے پیسے خرچ کرکے انسان بہت سہولت کے ساتھ اچھا کھانا کھا سکتا ہے اور بچنے والے پیسے اُن لوگوں کے کام آ سکتے ہیں کہ جن کی بابت آپ سے حشر میں سوال کیا جا سکتا ہے۔

دعا فرمائیے کہ اللہ رب العزت خاکسار کی نیت کو اور اس معمولی کاوش کو اپنے لئے خالص کرلے اور ہر طرح کی ریاکاری اور نفس و شیطان کی شر سے محفوظ فرمائے۔ مزید یہ کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ماہِ رمضان کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

*Buffet restaurants typically offer all-you-can-eat (AYCE) food for a set price. Wikipedia