زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں
نوید رزاق بٹ
زندگی کی فوٹو کے
ایک ایک پِکسَل سے
روشنی تِری جھلکے
اور تُو نہیں تو پھر
اِک سیاہ پردے پر
گمشدہ نشاں ہوں میں
وہم ہُوں، گُماں ہُوں میں
نوید رزاق بٹ
غزل
زمیں سے رشتۂ دیوار و در بھی رکھنا ہے
سنوارنے کے لیے اپنا گھر بھی رکھنا ہے
ہوا سے آگ سے پانی سے متصل رہ کر
انہیں سے اپنی تباہی کا ڈر بھی رکھنا ہے
مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے
بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے
یہ کیا سفر کے لیے ہجرتیں جواز بنیں
جو واپسی کا ہو ایسا سفر بھی رکھنا ہے
ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو
سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے
ہوا کے رخ کو بدلنا اگر نہیں ممکن
ہوا کی زد پہ سفر کا ہنر بھی رکھنا ہے
نشان راہ سے بڑھ کر ہیں خواب منزل کے
انہیں بچانا ہے اور راہ پر بھی رکھنا ہے
جواز کچھ بھی ہو اتنا تو سب ہی جانتے ہیں
سفر کے ساتھ جواز سفر بھی رکھنا ہے
****
کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا
جو اک الاؤ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا
جسے بھی دیکھو چلا جا رہا ہے تیزی سے
اگرچہ کام یہاں کچھ نہیں ہے عجلت کا
دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا
یقین کرنے لگے لوگ رت بدلتی ہے
مگر یہ سچ بھی کرشمہ نہ ہو خطابت کا
سنوارتی رہی گھر کو مگر یہ بھول گئی
کہ مختصر ہے یہ عرصہ یہاں سکونت کا
چلو کہ اس میں بھی اک آدھ کام کر ڈالیں
جو مل گیا ہے یہ لمحہ ذرا سی مہلت کا
فاطمہ حسن
اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا
عربی نے اس کو خاص ترابی بنا دیا
اہلِ زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل
پنجابیوں نے اس کو گلابی بنا دیا
دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک
اور لکھنئو نے اس کو نوابی بنا دیا
بخشی ہے کچھ کرختگی اس کو پٹھان نے
اس حسنِ بھوربن کو صوابی بنا دیا
باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب
یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنا دیا
قسمت کی بات آئی جو تو رانیوں کے ہاتھ
سب کی نظر میں اس کو خرابی بنا دیا
حرفِ تہجی ساری زبانوں کے ڈال کر
اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا
ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین
اتنا بہت ہے اس کو نصابی بنادیا
سید معین اختر نقوی
منقول از ادبیات - فیس بک
وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں غم گیت گاتے ہیں ، جہاں ہر درد ہنستا ہے
وہیں ہے گھر محبت کا ، وہیں تو عشق رہتا ہے
جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے
سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے
ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے کر
شفق کی زرد تختی پر گلابی شام لکھتی ہے
جہاں اقرار وپیماں کے گھنے شیشم تلے سورج
نئے اک دن کی خاطر تیرگی کے وار سہتا ہے
جہاں اک آس کی خوشبو میں لپٹا یاس کا سایہ
کسی کی نظم لکھتا ہے ، کسی کے شعر کہتا ہے
اداسی جب کبھی دل پر کمندیں ڈال دیتی ہے
تھکن جب دھڑکنوں میں نا امیدی گھول دیتی ہے
تو اُس لمحے دبے پاؤں کسی احساس کا پیکر
قریب آکر بجھی آنکھوں پہ رکھ کر ہاتھ پیچھے سے
دبی سرگوشیوں کے نرمگیں لہجے میں کہتا ہے
" یہ غم میری امانت ہے ، تم اِس سے ہار مت جانا
تمہیں میری قسم دیکھو کبھی اُس پار مت جانا
جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں
جہاں کوئی نہیں بستا ، جہاں کوئی نہیں رہتا"
پلٹ کر دیکھئے اُس پل تو کوئی بھی نہیں ہوتا
بس اک موہوم سی آہٹ اور اک مانوس سی خوشبو
فضا میں جیسے بکھری ہو ، ہوا جیسے مہکتی ہو
تبسم کی چنبیلی اور ترنم کے گلابوں سے
ڈھکے ٹیلوں کے دامن میں ، ذرا سی دور خوابوں سے
منقش جھلملاتی یاد کی پگھلی ہوئی چاندی
کا اک آئینہ بہتا ہے
وہیں تو گھر ہمارا ہے ، وہیں تو عشق رہتا ہے
وہیں تو عشق رہتا ہے
ظہیؔر احمد
'پیاری زمین' مشہور امریکی مصنفہ مسز پرل بک کے ناول گُڈ ارتھ (Good Earth) کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مصنفہ کو نوبل پرائز دیا گیا اور یہ ناول بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مصنفہ ایک امریکی خاتون ہیں لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزرا اور اس ناول کے کردار و واقعات بھی چینی دیہاتی زندگی کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ مصنفہ پرل بک 1892ء میں پیدا ہوئیں اور 1934ءتک زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزارا۔ اسی اثناء میں انہوں نے بیسوی صدی کے چین کی دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہی یہ ناول رقم کیا۔
کسان وانگ لنگ نے عروج و زوال کے کئی ایک زمانے دیکھے اور آخر کار وہ ایک بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ ناول ہمہ وقت کئی ایک ذیلی موضوعات میں بھی گھرا رہتا ہے کہ جن میں انسانی فطرت، غربت کے مسائل، امارت کے ساتھ در آنے والی خرابیاں شامل ہیں ۔ مزید براں اس ناول کی کہانی انسانی زندگی کی ذاتی اور سماجی نفسیات سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ ناول پڑھ کر آپ یہ تو شاید نہ کہیں کہ یہ آپ کے پڑھے ہوئے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک یادگار ناول ہے۔ اور اردو دان طبقے کے لئے اس میں مصنفہ کے ساتھ ساتھ مترجم کی محنت بھی شامل ہے۔
غزل
وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے
نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
ہزار مجھ سے وہ پیمان وصل کرتا رہا
پر اس کے طور طریقے مکرنے والے تھے
تمہیں تو فخر تھا شیرازہ بندیٔ جاں پر
ہمارا کیا ہے کہ ہم تو بکھرنے والے تھے
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے
جمال احسانی
انور مقصود، افتخار عارف اور جمال احسانی ۔ دائیں سے بائیں