زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

غزل

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا

اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آ گئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی

ایک شاعر کے دو متضاد اشعار

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت عجیب و غریب بنایا ہے ۔ یہ بہ یک وقت متضاد خیالات میں گھرا رہتا ہے ۔ اس میں نیکی اور بدی ایک ساتھ قیام پذیر رہتی ہے اور یہ اکثر اُمید و نا اُمیدی کے مابین کہیں بہتا نظر آتا ہے۔ مجھے آج جناب پیرزادہ قاسم کے دو اشعار ایک ساتھ یاد آئے جو دیکھا جائے تو ایک دوسرے کے بالکل متضاد ہیں۔ لیکن انسانی زندگی اسی مد و جزر کا نام ہے۔

اشعار یہ ہیں۔

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو طاقتِ پرواز پر میں رہنے دو


عجب نہ تھا کہ قفس ساتھ لے کے اُڑ جاتے
تڑپنا چاہیے تھا، پھڑپھڑانا چاہیے تھا

 

اب میں یہ سو چ رہا ہوں کہ شاعر نے ان میں سے پہلے کون سا شعر کہا ہوگا۔ اور کیا شاعر کو خود بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ اس کے یہ دو اشعار بالکل ایک دوسرے کے متضاد ہیں؟

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
نظم

گریباں پسینے میں تر ہو رہا ہے
کمر بند گردن کے سر ہو رہا ہے
سفینہ جو زیر و زبر ہو رہا ہے
اُدھر کا مسافر اِدھر ہو رہا ہے

جو دیوار تھی اس میں در ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کوئی پہلواں سیٹ میں دھم گیا ہے
بہت بھی گیا تو بہت کم گیا ہے
کوئی ہاتھ پتلون میں جم گیا ہے
کوئی ناک دیوار پہ تھم گیا ہے

کوئی سرو قد مختصر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جواں کچھ سرِ پائے داں اور بھی ہیں
دریچوں میں سروِ رواں اور بھی ہیں
قطاروں میں بیوی میاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ہجوم اور بھی معتبر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

وہ اک پیل تن یوں سمٹ کر کھڑا ہے
کہ پیٹ اس کا دھڑ سے الگ جا پڑا ہے
کسی کی گھڑی پر کسی کا گھڑا ہے
مقدر کو دیکھو کہاں جا لڑا ہے

تماشا سرِ رہگزر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو خوش پوش گیسو سنوارے ہوئے تھا
بہت مال چہرے پہ مارے ہوئے تھا
بڑا قیمتی سوٹ دھارے ہوئے تھا
گھڑی بھر میں سب کچھ اتارے ہوئے تھا

بے چارے کا حلیہ دگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کوئی بے خبر گُل فشاں ہو گئی ہے
تو لاری کی لاری جواں ہو گئی ہے
طبیعت اچانک رواں ہو گئی ہے
ملاقات اُن سے کہاں ہو گئی ہے

نظر سے طوافِ نظر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

کبھی پیش سے گھٹ کے پس ہو گئی ہے
کسی پیچ میں پیچ کس ہو گئی ہے
چلی ہے تو بانگِ جرس ہو گئی ہے
رکی ہے تو ٹھَس ہو کے بَس ہو گئی ہے

نہیں ہو رہا ہے مگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے

جو کالر تھا گردن میں، 'لر' رہ گیا ہے
ٹماٹر کے تھیلے میں 'ٹر' رہ گیا ہے
خدا جانے مرغا کدھر رہ گیا ہے
بغل میں تو بس ایک پر رہ گیا ہے

کوئی کام ہم سے اگر ہو رہا ہے
کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے
 
سید ضمیر جعفری


ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ

غزل

عادتاً دیکھو تو دیکھو ہر سویرے سبز باغ
بقعہء اُمید میں ڈالیں نہ ڈیرے سبز باغ

اے مرے ہمدم اُلجھتا کیوں ہے تو مجھ سے بھلا
مختلف ہیں بس ذرا سے تیرے میرے سبز باغ

ہاتھ نیچے کرفسوں گر، مت ہمیں پاگل بنا
ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ

میں بھی ہوں محوِ تغافل، تو بھی ہے غفلت گزیں
میرے خوابوں سے کہاں بہتر ہیں تیرے سبز باغ

رات اک شب خون میں گزری مگر شاباش ہے
دیکھنے والوں نے دیکھے منہ اندھیرے سبز باغ

ساحر ِ شب تیرے فن کا معترف ہوں، واقعی
دلکش و رنگیں بہت ہیں سب یہ تیرے سبز باغ

اے خدا میرے چمن کو خیر خواہوں سے بچا
ایک نخلِ زرد اور اتنے لُٹیرے سبز باغ

ہم نے سینچا خود سرابوں سے انہیں احمدؔ، سو اب
دشت دل میں اٹ گئے دسیوں گھنیرے سبز باغ

محمد احمدؔ

شادیٔ مرگ ِ شاعری

شادیٔ مرگ ِ شاعری 
(شادی اور شاعری)

کہتے ہیں شاعر کو شادی ضرور کرنی چاہیے، کہ اگر بیوی اچھی مل جائے تو زندگی اچھی ہو جائے گی ورنہ شاعری اچھی ہو جائے گی۔ موخر الذکر صورت تو اللہ نہ کرے کسی کے ساتھ پیش آئے لیکن اول الذکر صورت میں بھی آنے والی آپ کو محرومِ محض نہیں کرتی بلکہ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ شاعری کا بھی دال دلیہ چلتا رہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ دال دلیا پر صبر شکر کریں یا کوئی اور نیا طوطا پال لیں۔ یہ البتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ طوطا دال دلیے سے الرجک ہوتا ہے اور ہری مرچیں چبانے کو ہی اپنے لئے باعث صد افتخار گردانتا ہے۔ طوطا پالنے کی نسبت بکری پالنا ذرا آسان ہے اور تحریک کے لئے مشہور مثل بھی موجود ہے کہ "غم نداری بُز بخر" یعنی اگر آپ کو کوئی غم نہیں ہے تو بکری پال لیجے ۔ تاہم بکری سے ملنے والے غموں کے خام مال سے آپ عاشقانہ اور درد بھری شاعری کرنے کے قابل ہو جائیں تو ہم سفارش کریں گے کہ اس صدی کا سب سے بڑا مبالغہ آرائی اور مغالطہ فرمائی کا ایوارڈ آپ کو ہی دیا جائے۔


جیسا کہ ہم نے بتایا کہ شادی کی صورت میں آپ غم و آلام سے محرومِ محض ہو کر نہیں رہ جاتے بلکہ کچھ نہ کچھ راشن آپ کو ملتا ہی رہتا ہے ۔ اور اسی پر اکتفا کرکے ہمارے ہاں مزاحیہ شاعر اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر "کسی" کا نام۔ یعنی بیگم کا نام۔ مزاحیہ شاعروں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی شاعری صرف بیگم صاحبہ کے ارد گرد ہی کیوں گھومتی ہے تو وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ زندگی کا لطف انہی کھٹی میٹھی باتوں میں ہے۔ اور دل میں کہتے ہیں کہ :

یہ درد کے ٹکڑے ہیں، اشعار نہیں ساغر
ہم کانچ کے دھاگوں میں زخموں کو پروتے ہیں

ہمارا خیال ہے کہ اکثر سنجیدہ شاعر ،شادی کے بعد مزاحیہ شاعری صرف اس لئے کرنے لگتے ہیں کہ اُن کے خیالات پر گرفت ہونے لگے تو وہ کھسیا کر کہیں کہ بھئی یہ تو مزاحیہ شاعری ہے اور مزاحیہ شاعری ایسی ہی ہوتی ہے۔ یعنی بزبانِ حال کہتے نظر آتے ہیں کہ :

اشعار کے پردے میں ہم "کِن" سے مخاطب ہیں
اللہ کرے ہرگز وہ جان نہیں پائیں

کچھ لوگ البتہ شادی کے بعد بھی سنجیدہ شاعری ہی کرتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی کے سبب سامعین اُن کی شاعری پر ہنسنے لگتے ہیں اور وہ بے چارے تلملاتے ہوئے مسکراتے ہیں اور مسکرا کر کہتے ہیں کہ یہ مزاحیہ کلام ہی تھا۔

یوں تو ہماری قوم کے لوگ اتنے سفاک اور ظالم نہیں ہیں کہ دوسروں کے غموں پر ہنسنا شروع کر دیں لیکن کیا کیا جائے کہ شادی شدہ لوگوں کے دُکھ کنواروں کو سمجھ نہیں آتے سو وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکرا دیتے ہیں اور شادی شُدہ لوگ چونکہ خود بُھگت کر بیٹھے ہوتے ہیں سو اُن کی ہنسی خودبخود نکل جاتی ہے۔

شادی شدہ شاعروں کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیاض بیگموں سے چھپا کر رکھیں کہ اگر وہ غریب ملی نغمہ بھی لکھیں گے تو اُس پر بھی اُن کی گرفت ہو سکتی ہے کہ ملی نغمہ تو چلو ٹھیک ہے لیکن اس میں فضا، کہکشاں، خوشبو اور چاندنی وغیرہ کا اس قدر ذکر کیوں ہے۔ اب اُنہیں کوئی کیا سمجھائے کہ ہمارے ہاں ایسے تمام الفاظ جو لطافت اور خوبصورتی کے استعارے ہوتے ہیں اُنہیں لڑکیوں کے ناموں کے لئے چُن لیا جاتا ہے یہاں تک بھی ٹھیک ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہی لڑکیاں آگے جا کر بیویاں بن جاتی ہیں اور تمام تر جمالیاتی احساسات اور لطافتوں سے عاری و بھاری ہو جاتی ہیں۔

اگر آپ ایک خاتون ہیں او ر ابھی تک یہ تحریر پڑھ رہی ہیں تو ہم اس بات کا اعتراف ضرور کریں گے کہ خواتین میں جمالیاتی حس ختم ہر گز نہیں ہوتی بلکہ اُن بے چاریوں کا مقصد صرف شوہروں کی "آؤٹ آف دی باکس" جمالیاتی حسیات کا قلعہ قمہ کر نا ہوتا ہے، جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوتا۔

یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی شدہ شاعر ملی نغمے ہی لکھ رہا ہو ۔ سو شاعروں کی بیویوں کو بھی اُن پر ظاہر ہونے والے جنوں کے آثار پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اُن کے شوہرِ نامدار کو کون دیوانہ بنا رہا ہے۔ اس کی اشد ضرورت اسلئے بھی ہے کہ اس قسم کے دیوانے "بکار خیر "کافی ہشیار ہوتے ہیں۔

کچھ عاشقانہ شاعری کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی شاعری پر شادی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ تاہم اس بارے میں ہم کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسے حضرات قفس کو ہی آشیاں سمجھ بیٹھتے ہیں یا قفس کی تیلیوں کو دریچہ کور (window blinds) اور دریچہ کور کو پردہء سیمیں سمجھتے ہوئے اپنے تصورات کی دنیا کو مجسم کر لیتے ہیں۔ اور غالباً بڑے غرّے سے یہ کہتے ہوں گے کہ:

اے پردہ نشین تم کو یہ پردہ مبارک ہو
ہم اپنے تصور میں تصویر بنا لیں گے

اور یہ بھی کہ :

ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں "فلاں" کیوں چپ ہے

بہرکیف ،تمام گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم بہ استفادہء شکیب تمام شادی زدہ شعراء کو مشورہ دیں گے کہ:

شاعری کیجے کہ یہ فطرتِ شاعر ہیں شکیب
جالے لگ جاتے ہیں جب بند مکاں ہوتا ہے

گفتگو کی اجازت تو ویسے بھی آپ کو خال خال ہی ملتی ہوگی۔

اُس راہ پہ جانے سے پہلے اسباب سنبھال کے رکھ لینا

غزل

اُس راہ پہ جانے سے پہلے اسباب سنبھال کے رکھ لینا
کچھ اشک فراق سے لے لینا، کچھ پُھول وصال کے رکھ لینا

اک عُمر کی محرومی اپنے سِینے میں چُھپانا مشکل ہے
جب حدِّ وضاحت آ جائے یہ تِیر نکال کے رکھ لینا

اک حیرت دل میں جھانکے گی آنکھوں میں ستارے ٹانکے گی
جو آنسو تم پر بھاری ہوں دامن میں اُچھال کے رکھ لینا

اک ایسی چُپ طاری کرنا جیسے گویائی سے عاری ہو
خاموشی کے گہوارے میں آوازیں پال کے رکھ لینا

چہرے سے خوشی ثابت کرنا جیسے ہر دُکھ سے غافل ہو
ہاں بابِ تخاطب آئے تو الفاظ ملال کے رکھ لینا

وہ شام بہت جلد آئے گی جو تم کو تم سے ملائے گی
اُس شام تم اپنی آہوں سے کچھ نغمے ڈھال کے رکھ لینا

اس کارِ جہاں کی وحشت پر جب کوئی دستاویز لکھو
سب سے آخر میں کچھ صفحے اپنے احوال کے رکھ لینا

تائید کے سنّاٹے سے اُٹھو، تردید کے شور میں آ جاؤ
اک تلخ جواب سے بہتر ہے الزام سوال کے رکھ لینا

یہ خوابوں، زخموں، داغوں کی ترتیب مناسب ہے لیکن
اس زادِ سفر میں عزمؔ کہیں کچھ صدمے حال کے رکھ لینا

عزم بہزادؔ

تو مِرا انتخاب ہے شاید


ایک شخص نے کسی بزرگ سے پوچھا کہ اگر سب کچھ تقدیر میں ہی لکھا ہے تو پھر انسان کا اختیار کیا معنی رکھتا ہے۔ بزرگ نے اُس شخص سے کہا کہ تم اپنا ایک پیر اوپر اُٹھاؤ۔ تو اُس نے پیر اوپر اُٹھا لیا، پھر بزرگوار نے فرمایا کہ اب دوسرا پیر بھی اُٹھا لو تو وہ شخص ہڑبڑا گیا اور کہنے لگا دوسرا پیر کیسے اُٹھاؤں۔ بزرگ نے کہا بس یہی تیرا اختیار ہے یعنی ایک پیر تو اپنی مرضی سے اُٹھا سکتا ہے اور تجھ سے اس ایک قدم کی بابت ہی پرسش ہونی ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ یہ نصف اختیار تو اُس مالک نے دیا ہے کہ جو اپنے بندے پر مہربان ہے۔ لیکن ہمارے ظالم اور جابر سیاسی اور نام نہاد جمہوری نظام نے لوگوں کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں اور عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اگلے پانچ سال کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن پر جاتی بھی ہے اور اُن میں سے کچھ اپنی مرضی کے نمائندوں کو ووٹ ڈالنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ تاہم یہ اُن کی خام خیالی ہی ہوتی ہے کہ اُن کے ووٹ سے آئندہ سیٹ اپ میں کوئی خاص فرق پڑے گا۔

ہمارے سیاسی و انتخابی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اور اکثر خامیاں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے انتخابات کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

جمہور کا انتخابی شعور

جمہوریت گنتی جانتی ہے یعنی جمہوریت کی نظر میں دس ہاتھی اور دس لگڑ بگے ایک برابر ہیں ۔ جہاں عدد ہی سب کچھ ہے اور عددی برتری چیونٹیوں کو چیتوں پر حکمران ٹھہرا سکتی ہے وہاں کیا حکومت بنے گی اور کیسے چلے گی سب سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں جس ملک کی شرحِ خواندگی شرمناک حد تک کم ہو وہاں ووٹ دینے والے کی اپنی قابلیت پر ہی سوال اُٹھتا ہے کہ وہ کسے منتخب کرے گا اور انتخاب کرتے وقت اُس کی ترجیحات کیا ہوں گی۔

اگر آپ کو اس بات کی حقانیت پر یقین نہ ہو تو ذرا پاکستانیوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیجے جہاں بیشتر ووٹ تعصب کی بنیاد پر پڑتے ہیں۔ جہاں کہیں ہماری برادری کا آدمی، ہماری زبان بولنے والا یا ہمارے شہر کا بندہ کھڑا ہو تو پھر ووٹ اُسی کا ہے۔ اُس شخص کی قابلیت کیا ہے ، کردار کیسا ہے اور اُس کی اگلی پچھلی کارکردگی کیسی ہے سب باتیں پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ پھر تعصب تو رہا ایک طرف یہاں تو ایک پلیٹ بریانی ہی ووٹ کا فیصلہ کرنے میں قاطع بُرہان ثابت ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں میں طاقت کے استعمال کا رجحان

ہمارے ہاں کم و بیش ہر سیاسی جماعت کے پاس اپنا کرمنل ونگ ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے غنڈے، اپنے لٹھیت رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جو ہر تنازعہ کا فیصلہ اسلحہ اور زورِ بازو پر کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی طرف سے آنکھ بند کیے رکھنے کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی شریف آدمی انتخابات لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بافرض محال اگر کوئی شخص ان زور آور جماعتوں کی مخالفت میں کمر بستہ ہو ہی جائے تو پھر اُسے ان سیاسی جماعتوں کے بد فطرت غنڈے نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں ۔ آپ خود بتائیے کہ ایسی سیاسی جماعتیں انتخابات جیت کر کون سا کارنامہ سر انجام دیتی ہیں۔ 

انتخابی مہمات میں دھن دولت کا بے تحاشا استعمال

ہمارے ہاں انتخابی مہم چلانے کے لئے تمام تر جماعتیں لاکھوں نہیں کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرتی ہیں ۔ ایک ایک جلسے پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پوسٹرز ، بینرز، جلسے کے انتظامات، ٹرانسپورٹ، بریانی کی دیگیں اور لفافے۔ یہی سب کچھ ریلیوں اور دھرنوں میں ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر اتنا پیسہ ان جماعتوں کے پاس سے آتا کہاں سے ہے کہ ان لوگوں کےٹیکس گوشوارے تو اُنہیں سفید پوش ثابت کرنے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ پانی کی طرح پیسہ بہا کر اقتدار میں آنے والوں کا مطمحِ نظر آخر ہوتا کیا ہے۔ کیا یہ سب اتنے ہی سیدھے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے مرے جا رہےہیں یا پھر اقتدار ان کی "سرمایہ کاری" کا پھل کھانے کا نام ہے۔

اب آپ بتائیے کیا کوئی غریب آدمی اپنی پارٹی بنانے یا انتخابات لڑنے کا سوچ بھی سکتا ہے ۔ یقینا ً نہیں۔ جب تک یہی نظام ہے اُسے سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

غیر شفاف انتخابی عمل

پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں ووٹر کے ہاتھ سے بیلٹ پرچی لے کر اُسے کہا جاتا ہے کہ آپ آرام سے گھر جائیے آپ کا ووٹ ڈل جائے گا۔ چلیے یہ ایک انتہائی مثال ہے لیکن افسانوی ہر گز نہیں ہے۔ پاکستان میں حلقہ بندی سے لے کر انتخابی فہرستوں تک ہر ہر موڑ پر بے ایمانی ہوتی ہے ۔ ایک طرف ایک شخص اپنا جائز ووٹ ڈالنے کے لئے بھی سارا دن خوار ہوتا رہتا ہے تو دوسری طرف انتخابی جماعتوں کے ہرکارے اُن لوگوں کے ووٹ بھی اپنے نام کر لیتے ہیں کہ جنہیں مرے ہوئے کئی کئی سال ہو جاتے ہیں۔

عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بہت طویل مہم چلائی اور بایو میٹرک سسٹم نافذ کرنے پر زور دیا ۔ لیکن عمران خان کی دھاندلی کے خلاف مہم بھی صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہی ثابت ہوئی اور اُنہوں نے بائیو میٹرک نظام کے نفاظ کے لئے کوئی ایماندارانہ کوشش کی ہی نہیں۔ باقی جماعتیں تو خیر چاہتی ہی نہیں ہیں کہ انتخابات میں شفافیت کے امکانات فزوں تر ہوں۔

غیر سیاسی عناصر کی مداخلت

ہمارےہاں سیاست میں غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ برسوں سے یہ لوگ سیاسی معاملات میں کبھی بلواسطہ اور کبھی بلاواسطہ دخل اندازی کرتے رہے ہیں ۔ اور پہلے جو بات ڈھکی چھپی ہوتی تھی وہ اب ویسی ڈھکی چھپی بھی نہیں رہی۔ غیر سیاسی عناصر کی بے جا مداخلت، مختلف سیاسی تنظیموں کا قیام اور اُن کی دانستہ ترقی و ترویج ہی وہ عمل ہے کہ جس کے باعث پاکستان میں فطری سیاسی نظام پنپ ہی نہیں سکا اور ہر آنے والی سیاسی جماعت کو اسی بے ساکھی کا سہارا لینا پڑا ۔ بے ساکھی کے سہارے آنے والے کسی اور کا کیا سہارا بنیں گے اس بات کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود جب ہمارے منتخب حکمران ہمیں آکر کہتے ہیں کہ ہم ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے ۔ اور میں سوچتا ہوں کہ اگر موجودہ سیاسی نظام میں مجھے پوری طرح ایک پیر اُٹھانے کا اختیار حاصل ہوتا تو میرا یہی پیر میرے ممدوح کے حق میں فلائنگ کک ثابت ہوتا۔ لیکن:


ع ۔ حسرت اُن غنچوں پہ ہے