ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ

غزل

عادتاً دیکھو تو دیکھو ہر سویرے سبز باغ
بقعہء اُمید میں ڈالیں نہ ڈیرے سبز باغ

اے مرے ہمدم اُلجھتا کیوں ہے تو مجھ سے بھلا
مختلف ہیں بس ذرا سے تیرے میرے سبز باغ

ہاتھ نیچے کرفسوں گر، مت ہمیں پاگل بنا
ہم نے پہلے دیکھ رکھے ہیں یہ تیرے سبز باغ

میں بھی ہوں محوِ تغافل، تو بھی ہے غفلت گزیں
میرے خوابوں سے کہاں بہتر ہیں تیرے سبز باغ

رات اک شب خون میں گزری مگر شاباش ہے
دیکھنے والوں نے دیکھے منہ اندھیرے سبز باغ

ساحر ِ شب تیرے فن کا معترف ہوں، واقعی
دلکش و رنگیں بہت ہیں سب یہ تیرے سبز باغ

اے خدا میرے چمن کو خیر خواہوں سے بچا
ایک نخلِ زرد اور اتنے لُٹیرے سبز باغ

ہم نے سینچا خود سرابوں سے انہیں احمدؔ، سو اب
دشت دل میں اٹ گئے دسیوں گھنیرے سبز باغ

محمد احمدؔ

شادیٔ مرگ ِ شاعری

شادیٔ مرگ ِ شاعری 
(شادی اور شاعری)

کہتے ہیں شاعر کو شادی ضرور کرنی چاہیے، کہ اگر بیوی اچھی مل جائے تو زندگی اچھی ہو جائے گی ورنہ شاعری اچھی ہو جائے گی۔ موخر الذکر صورت تو اللہ نہ کرے کسی کے ساتھ پیش آئے لیکن اول الذکر صورت میں بھی آنے والی آپ کو محرومِ محض نہیں کرتی بلکہ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ شاعری کا بھی دال دلیہ چلتا رہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ دال دلیا پر صبر شکر کریں یا کوئی اور نیا طوطا پال لیں۔ یہ البتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ طوطا دال دلیے سے الرجک ہوتا ہے اور ہری مرچیں چبانے کو ہی اپنے لئے باعث صد افتخار گردانتا ہے۔ طوطا پالنے کی نسبت بکری پالنا ذرا آسان ہے اور تحریک کے لئے مشہور مثل بھی موجود ہے کہ "غم نداری بُز بخر" یعنی اگر آپ کو کوئی غم نہیں ہے تو بکری پال لیجے ۔ تاہم بکری سے ملنے والے غموں کے خام مال سے آپ عاشقانہ اور درد بھری شاعری کرنے کے قابل ہو جائیں تو ہم سفارش کریں گے کہ اس صدی کا سب سے بڑا مبالغہ آرائی اور مغالطہ فرمائی کا ایوارڈ آپ کو ہی دیا جائے۔


جیسا کہ ہم نے بتایا کہ شادی کی صورت میں آپ غم و آلام سے محرومِ محض ہو کر نہیں رہ جاتے بلکہ کچھ نہ کچھ راشن آپ کو ملتا ہی رہتا ہے ۔ اور اسی پر اکتفا کرکے ہمارے ہاں مزاحیہ شاعر اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر "کسی" کا نام۔ یعنی بیگم کا نام۔ مزاحیہ شاعروں سے اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی شاعری صرف بیگم صاحبہ کے ارد گرد ہی کیوں گھومتی ہے تو وہ مسکرا کر کہتے ہیں کہ زندگی کا لطف انہی کھٹی میٹھی باتوں میں ہے۔ اور دل میں کہتے ہیں کہ :

یہ درد کے ٹکڑے ہیں، اشعار نہیں ساغر
ہم کانچ کے دھاگوں میں زخموں کو پروتے ہیں

ہمارا خیال ہے کہ اکثر سنجیدہ شاعر ،شادی کے بعد مزاحیہ شاعری صرف اس لئے کرنے لگتے ہیں کہ اُن کے خیالات پر گرفت ہونے لگے تو وہ کھسیا کر کہیں کہ بھئی یہ تو مزاحیہ شاعری ہے اور مزاحیہ شاعری ایسی ہی ہوتی ہے۔ یعنی بزبانِ حال کہتے نظر آتے ہیں کہ :

اشعار کے پردے میں ہم "کِن" سے مخاطب ہیں
اللہ کرے ہرگز وہ جان نہیں پائیں

کچھ لوگ البتہ شادی کے بعد بھی سنجیدہ شاعری ہی کرتے ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی کے سبب سامعین اُن کی شاعری پر ہنسنے لگتے ہیں اور وہ بے چارے تلملاتے ہوئے مسکراتے ہیں اور مسکرا کر کہتے ہیں کہ یہ مزاحیہ کلام ہی تھا۔

یوں تو ہماری قوم کے لوگ اتنے سفاک اور ظالم نہیں ہیں کہ دوسروں کے غموں پر ہنسنا شروع کر دیں لیکن کیا کیا جائے کہ شادی شدہ لوگوں کے دُکھ کنواروں کو سمجھ نہیں آتے سو وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکرا دیتے ہیں اور شادی شُدہ لوگ چونکہ خود بُھگت کر بیٹھے ہوتے ہیں سو اُن کی ہنسی خودبخود نکل جاتی ہے۔

شادی شدہ شاعروں کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنی بیاض بیگموں سے چھپا کر رکھیں کہ اگر وہ غریب ملی نغمہ بھی لکھیں گے تو اُس پر بھی اُن کی گرفت ہو سکتی ہے کہ ملی نغمہ تو چلو ٹھیک ہے لیکن اس میں فضا، کہکشاں، خوشبو اور چاندنی وغیرہ کا اس قدر ذکر کیوں ہے۔ اب اُنہیں کوئی کیا سمجھائے کہ ہمارے ہاں ایسے تمام الفاظ جو لطافت اور خوبصورتی کے استعارے ہوتے ہیں اُنہیں لڑکیوں کے ناموں کے لئے چُن لیا جاتا ہے یہاں تک بھی ٹھیک ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ یہی لڑکیاں آگے جا کر بیویاں بن جاتی ہیں اور تمام تر جمالیاتی احساسات اور لطافتوں سے عاری و بھاری ہو جاتی ہیں۔

اگر آپ ایک خاتون ہیں او ر ابھی تک یہ تحریر پڑھ رہی ہیں تو ہم اس بات کا اعتراف ضرور کریں گے کہ خواتین میں جمالیاتی حس ختم ہر گز نہیں ہوتی بلکہ اُن بے چاریوں کا مقصد صرف شوہروں کی "آؤٹ آف دی باکس" جمالیاتی حسیات کا قلعہ قمہ کر نا ہوتا ہے، جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوتا۔

یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر شادی شدہ شاعر ملی نغمے ہی لکھ رہا ہو ۔ سو شاعروں کی بیویوں کو بھی اُن پر ظاہر ہونے والے جنوں کے آثار پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اُن کے شوہرِ نامدار کو کون دیوانہ بنا رہا ہے۔ اس کی اشد ضرورت اسلئے بھی ہے کہ اس قسم کے دیوانے "بکار خیر "کافی ہشیار ہوتے ہیں۔

کچھ عاشقانہ شاعری کرنے والے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کی شاعری پر شادی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ۔ تاہم اس بارے میں ہم کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ ایسے حضرات قفس کو ہی آشیاں سمجھ بیٹھتے ہیں یا قفس کی تیلیوں کو دریچہ کور (window blinds) اور دریچہ کور کو پردہء سیمیں سمجھتے ہوئے اپنے تصورات کی دنیا کو مجسم کر لیتے ہیں۔ اور غالباً بڑے غرّے سے یہ کہتے ہوں گے کہ:

اے پردہ نشین تم کو یہ پردہ مبارک ہو
ہم اپنے تصور میں تصویر بنا لیں گے

اور یہ بھی کہ :

ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں "فلاں" کیوں چپ ہے

بہرکیف ،تمام گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہم بہ استفادہء شکیب تمام شادی زدہ شعراء کو مشورہ دیں گے کہ:

شاعری کیجے کہ یہ فطرتِ شاعر ہیں شکیب
جالے لگ جاتے ہیں جب بند مکاں ہوتا ہے

گفتگو کی اجازت تو ویسے بھی آپ کو خال خال ہی ملتی ہوگی۔

اُس راہ پہ جانے سے پہلے اسباب سنبھال کے رکھ لینا

غزل

اُس راہ پہ جانے سے پہلے اسباب سنبھال کے رکھ لینا
کچھ اشک فراق سے لے لینا، کچھ پُھول وصال کے رکھ لینا

اک عُمر کی محرومی اپنے سِینے میں چُھپانا مشکل ہے
جب حدِّ وضاحت آ جائے یہ تِیر نکال کے رکھ لینا

اک حیرت دل میں جھانکے گی آنکھوں میں ستارے ٹانکے گی
جو آنسو تم پر بھاری ہوں دامن میں اُچھال کے رکھ لینا

اک ایسی چُپ طاری کرنا جیسے گویائی سے عاری ہو
خاموشی کے گہوارے میں آوازیں پال کے رکھ لینا

چہرے سے خوشی ثابت کرنا جیسے ہر دُکھ سے غافل ہو
ہاں بابِ تخاطب آئے تو الفاظ ملال کے رکھ لینا

وہ شام بہت جلد آئے گی جو تم کو تم سے ملائے گی
اُس شام تم اپنی آہوں سے کچھ نغمے ڈھال کے رکھ لینا

اس کارِ جہاں کی وحشت پر جب کوئی دستاویز لکھو
سب سے آخر میں کچھ صفحے اپنے احوال کے رکھ لینا

تائید کے سنّاٹے سے اُٹھو، تردید کے شور میں آ جاؤ
اک تلخ جواب سے بہتر ہے الزام سوال کے رکھ لینا

یہ خوابوں، زخموں، داغوں کی ترتیب مناسب ہے لیکن
اس زادِ سفر میں عزمؔ کہیں کچھ صدمے حال کے رکھ لینا

عزم بہزادؔ

تو مِرا انتخاب ہے شاید


ایک شخص نے کسی بزرگ سے پوچھا کہ اگر سب کچھ تقدیر میں ہی لکھا ہے تو پھر انسان کا اختیار کیا معنی رکھتا ہے۔ بزرگ نے اُس شخص سے کہا کہ تم اپنا ایک پیر اوپر اُٹھاؤ۔ تو اُس نے پیر اوپر اُٹھا لیا، پھر بزرگوار نے فرمایا کہ اب دوسرا پیر بھی اُٹھا لو تو وہ شخص ہڑبڑا گیا اور کہنے لگا دوسرا پیر کیسے اُٹھاؤں۔ بزرگ نے کہا بس یہی تیرا اختیار ہے یعنی ایک پیر تو اپنی مرضی سے اُٹھا سکتا ہے اور تجھ سے اس ایک قدم کی بابت ہی پرسش ہونی ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ یہ نصف اختیار تو اُس مالک نے دیا ہے کہ جو اپنے بندے پر مہربان ہے۔ لیکن ہمارے ظالم اور جابر سیاسی اور نام نہاد جمہوری نظام نے لوگوں کو اتنا اختیار بھی نہیں دیا۔ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے ہیں اور عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے اگلے پانچ سال کے لئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد پولنگ اسٹیشن پر جاتی بھی ہے اور اُن میں سے کچھ اپنی مرضی کے نمائندوں کو ووٹ ڈالنے میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ تاہم یہ اُن کی خام خیالی ہی ہوتی ہے کہ اُن کے ووٹ سے آئندہ سیٹ اپ میں کوئی خاص فرق پڑے گا۔

ہمارے سیاسی و انتخابی نظام میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اور اکثر خامیاں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے انتخابات کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

جمہور کا انتخابی شعور

جمہوریت گنتی جانتی ہے یعنی جمہوریت کی نظر میں دس ہاتھی اور دس لگڑ بگے ایک برابر ہیں ۔ جہاں عدد ہی سب کچھ ہے اور عددی برتری چیونٹیوں کو چیتوں پر حکمران ٹھہرا سکتی ہے وہاں کیا حکومت بنے گی اور کیسے چلے گی سب سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے میں جس ملک کی شرحِ خواندگی شرمناک حد تک کم ہو وہاں ووٹ دینے والے کی اپنی قابلیت پر ہی سوال اُٹھتا ہے کہ وہ کسے منتخب کرے گا اور انتخاب کرتے وقت اُس کی ترجیحات کیا ہوں گی۔

اگر آپ کو اس بات کی حقانیت پر یقین نہ ہو تو ذرا پاکستانیوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھ لیجے جہاں بیشتر ووٹ تعصب کی بنیاد پر پڑتے ہیں۔ جہاں کہیں ہماری برادری کا آدمی، ہماری زبان بولنے والا یا ہمارے شہر کا بندہ کھڑا ہو تو پھر ووٹ اُسی کا ہے۔ اُس شخص کی قابلیت کیا ہے ، کردار کیسا ہے اور اُس کی اگلی پچھلی کارکردگی کیسی ہے سب باتیں پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں۔ پھر تعصب تو رہا ایک طرف یہاں تو ایک پلیٹ بریانی ہی ووٹ کا فیصلہ کرنے میں قاطع بُرہان ثابت ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں میں طاقت کے استعمال کا رجحان

ہمارے ہاں کم و بیش ہر سیاسی جماعت کے پاس اپنا کرمنل ونگ ہوتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنے غنڈے، اپنے لٹھیت رکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ جو ہر تنازعہ کا فیصلہ اسلحہ اور زورِ بازو پر کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کی طرف سے آنکھ بند کیے رکھنے کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً کوئی شریف آدمی انتخابات لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بافرض محال اگر کوئی شخص ان زور آور جماعتوں کی مخالفت میں کمر بستہ ہو ہی جائے تو پھر اُسے ان سیاسی جماعتوں کے بد فطرت غنڈے نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں ۔ آپ خود بتائیے کہ ایسی سیاسی جماعتیں انتخابات جیت کر کون سا کارنامہ سر انجام دیتی ہیں۔ 

انتخابی مہمات میں دھن دولت کا بے تحاشا استعمال

ہمارے ہاں انتخابی مہم چلانے کے لئے تمام تر جماعتیں لاکھوں نہیں کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرتی ہیں ۔ ایک ایک جلسے پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ پوسٹرز ، بینرز، جلسے کے انتظامات، ٹرانسپورٹ، بریانی کی دیگیں اور لفافے۔ یہی سب کچھ ریلیوں اور دھرنوں میں ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ آخر اتنا پیسہ ان جماعتوں کے پاس سے آتا کہاں سے ہے کہ ان لوگوں کےٹیکس گوشوارے تو اُنہیں سفید پوش ثابت کرنے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔

پھر دوسری بات یہ ہے کہ پانی کی طرح پیسہ بہا کر اقتدار میں آنے والوں کا مطمحِ نظر آخر ہوتا کیا ہے۔ کیا یہ سب اتنے ہی سیدھے ہیں کہ عوام کی خدمت کے لئے مرے جا رہےہیں یا پھر اقتدار ان کی "سرمایہ کاری" کا پھل کھانے کا نام ہے۔

اب آپ بتائیے کیا کوئی غریب آدمی اپنی پارٹی بنانے یا انتخابات لڑنے کا سوچ بھی سکتا ہے ۔ یقینا ً نہیں۔ جب تک یہی نظام ہے اُسے سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

غیر شفاف انتخابی عمل

پاکستان وہ ملک ہے کہ جہاں ووٹر کے ہاتھ سے بیلٹ پرچی لے کر اُسے کہا جاتا ہے کہ آپ آرام سے گھر جائیے آپ کا ووٹ ڈل جائے گا۔ چلیے یہ ایک انتہائی مثال ہے لیکن افسانوی ہر گز نہیں ہے۔ پاکستان میں حلقہ بندی سے لے کر انتخابی فہرستوں تک ہر ہر موڑ پر بے ایمانی ہوتی ہے ۔ ایک طرف ایک شخص اپنا جائز ووٹ ڈالنے کے لئے بھی سارا دن خوار ہوتا رہتا ہے تو دوسری طرف انتخابی جماعتوں کے ہرکارے اُن لوگوں کے ووٹ بھی اپنے نام کر لیتے ہیں کہ جنہیں مرے ہوئے کئی کئی سال ہو جاتے ہیں۔

عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف بہت طویل مہم چلائی اور بایو میٹرک سسٹم نافذ کرنے پر زور دیا ۔ لیکن عمران خان کی دھاندلی کے خلاف مہم بھی صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہی ثابت ہوئی اور اُنہوں نے بائیو میٹرک نظام کے نفاظ کے لئے کوئی ایماندارانہ کوشش کی ہی نہیں۔ باقی جماعتیں تو خیر چاہتی ہی نہیں ہیں کہ انتخابات میں شفافیت کے امکانات فزوں تر ہوں۔

غیر سیاسی عناصر کی مداخلت

ہمارےہاں سیاست میں غیر سیاسی عناصر کی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ برسوں سے یہ لوگ سیاسی معاملات میں کبھی بلواسطہ اور کبھی بلاواسطہ دخل اندازی کرتے رہے ہیں ۔ اور پہلے جو بات ڈھکی چھپی ہوتی تھی وہ اب ویسی ڈھکی چھپی بھی نہیں رہی۔ غیر سیاسی عناصر کی بے جا مداخلت، مختلف سیاسی تنظیموں کا قیام اور اُن کی دانستہ ترقی و ترویج ہی وہ عمل ہے کہ جس کے باعث پاکستان میں فطری سیاسی نظام پنپ ہی نہیں سکا اور ہر آنے والی سیاسی جماعت کو اسی بے ساکھی کا سہارا لینا پڑا ۔ بے ساکھی کے سہارے آنے والے کسی اور کا کیا سہارا بنیں گے اس بات کا اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود جب ہمارے منتخب حکمران ہمیں آکر کہتے ہیں کہ ہم ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے ہیں تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے ۔ اور میں سوچتا ہوں کہ اگر موجودہ سیاسی نظام میں مجھے پوری طرح ایک پیر اُٹھانے کا اختیار حاصل ہوتا تو میرا یہی پیر میرے ممدوح کے حق میں فلائنگ کک ثابت ہوتا۔ لیکن:


ع ۔ حسرت اُن غنچوں پہ ہے

کھلونے


کھلونوں کی دکانوں میں کھلونے ہی کھلونے ہیں
ہزاروں رنگ ہیں انکے ، ہزاروں روپ ہیں انکے
کبھی ہنستے، کبھی روتے، کبھی نغمے سناتے ہیں
چمکتی موٹروں میں آنے والے خوش لباس و خوش نما بچے
جدھر دیکھیں جہاں پر ہاتھ رکھ دیں ، ان کھلونوں کے
وہی مالک، وہی قابض، وہی آقا ٹھرتے ہیں
وہ چاہیں تو کسی لمحے
جسے چاہیں اٹھائیں اور چکنا چور کر ڈالیں


کھلونوں کی دکانوں میں وہ گڈّے اور گڑیاں اب نہیں  ملتے
کے جو پھٹتے لحافوں سے روئی کے گچھوں
پرانی دھجیوں سے مل کے بنتے تھے
محلے بھر کے بچے جن کی شادی میں باراتی بن کے آتے تھے
تو ایسی ہی مسرت سے بھری دنیا کی بانہوں میں
جواں ہوتے تھے وہ لاکھوں، کروڑوں خوش نظر بچے
کے جو اپنے انہی خود ساختہ ، بھدے نہایت ان گھڑے
سستے کھلونوں کو متاعِ جاں سمجھتے تھے
انہیں اپنے شکستہ گھر کے طاقوں ، کھڑکیوں، الماریوں
میں یوں سجاتے تھے
کے جیسے ان سے بہتر چیز دنیا میں کہاں ہوگی
یہی بچے جو اب حسرت بھری دزدیدہ نظروں سے
کھلونوں کی دکانوں میں کبھی جو جھانکنا چاہیں
تو انکو ایسا کرنے کی اجازت ہی نہیں ملتی
کے شیلفوں میں سجا اک بھی کھلونا انکے وارے میں نہیں ہوتا
یہ دنیا ایسی منڈی ہے
بلا قیمت جہاں انسان بیچے جا تو سکتے ہیں
کھلونوں کا مگر سودا خسارے میں نہیں ہوتا
زمانے بھر کے بچوں کا یہ مشترکہ وتیرہ ہے
کھلونے جب ملیں انکو تو وہ خوش ہو کے ہنستے ہیں
مگر جب ان کھلونوں سے بھری اونچی دکانوں سے
پلٹتے پھول سے بچے ، تہی دامان آتے ہیں
نم آنکھوں میں ، بھرے آنسو، بہ صد مشکل چھپاتے ہیں
تو لگتا ہے
کہ بچے اب نہیں ہنستے
کھلونے ان پہ ہنستے ہیں

امجد اسلام امجد

چاند میں تو کئی داغ ہیں


2013ء میں جب پاکستان میں الیکشن کا انعقاد ہوا تو اُس وقت عمران خان کی تحریکِ انصاف ایک بڑی قوت بن کر اُبھری اور گمان تھا کہ یہ میدان بھی مار جائے لیکن نتائج کچھ مختلف رہے۔

اس وقت عمران خان کے حامیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ عمران خان جیسے بھی ہیں لیکن دوسرے دستیاب آپشنز سے بہرکیف بہتر ہیں۔ یعنی بُروں میں سب سے اچھے عمران خان ہیں۔ یا یوں کہیے کہ بہت سے برے آپشنز میں سے وہ نسبتاً بہتر ہیں۔ اگر بات الیکشن تک رہتی تو شاید تحریک انصاف کامیاب بھی ہو جاتی لیکن سیلیکشن کے مرحلے میں آکر انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وزیرِ اعظم بننے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ الغرض دلہن وہی بنی جو پیا من بھائی ! اور عمران خان دلہن نہ بن پائے تو ولن بن گئے اور آنے والی حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔

عمران خان نے اپنے مخالفین کو کافی شدید زک پہنچائی اور اُن کی بے انتہا کردار کشی کی ۔ اور اسی وجہ سے اور کچھ اُن کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے اُن کا اپنا کردار بھی نظریاتی لوگوں کی نظر میں تاراج ہو گیا، اور عمران خان 2013ء کی طرح لوگوں کے ذہن میں نجات دہندہ رہبر نہیں رہے بلکہ بہت سے آپشنز میں سے ایک آپشن بن گئے۔

انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ اپنی جماعت میں الیکٹیبلز کے نام پر لوٹے بھرتی کیے اور پرانے نظریاتی کارکنوں کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اُن کے نظریات ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہے اور وہ کبھی یکسو ہو کر کوئی مثبت کام نہیں کر پائے۔ خیبر پختونخواہ میں اُن کی صوبائی حکومت کی شہرت گو کہ باقی تمام صوبوں سے بہتر ہے تاہم وہ خیبر پختونخواہ کو وہ نمونہ نہیں بنا سکے کہ جسے دیکھ آئندہ انتخابات میں اُنہیں ووٹ دیے جا سکیں۔ 


وہ ابھی بہت سے بدترین لوگوں سے بہت بہتر ہیں لیکن درحقیقت صاحبِ کردار لوگ ایسے لوگوں سے اپنے تقابلی جائزے ہی کو اپنے لئے باعثِ شرم جانتے ہیں۔ بہرکیف شنید ہے کہ اس بار پیا کے من میں بھی تبدیلی کی جوت جگی ہے اور وہ نئی دلہن کی طرف راغب ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان ایک بار پھر ایک نظریاتی جماعت سے محروم ہو گیا ہے۔

سائے میں پڑی لاشیں


سندھی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ حق بات اپنی جگہ لیکن ساتھ بھائی کا دیں گے۔ اس سے آپ یہ ہر گز نہ سمجھیے گا کہ تعصب پر سندھی بولنے والوں کی ہی اجارہ داری ہے بلکہ یہ بیماری تو ہمارے ہاں موجود ہر قوم میں کسی نہ کسی شکل میں پھیلی ہوئی ہے۔

تعصب عدل کو معزول کر دیتا ہے ۔ یوں تو عدل اور تعصب دونوں ہی اندھے ہوتے ہیں لیکن عدل سب کے لئے کورچشم ہوتا ہے تاہم تعصب اندھا ہوتے ہوئے بھی اتنا ضرور دیکھ لیتا ہےکہ کون اپنا ہے اور کون پرایا اور کسے ریوڑھیاں بانٹنی ہے اور کسے نہیں۔

ہم بڑے عجیب لوگ ہیں، ہم اپنی معاملے میں عدل چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے معاملے میں تعصب سے کام لیتے ہیں۔ جب مصیبت ہم پر آ پڑتی ہے تو ہم انصاف انصاف کی دُہائی دیتے نظر آتے ہیں ۔ لیکن جب بات کسی اور کی ہو تو ہم سوچتے ہیں کہ صاحبِ معاملہ کون ہے۔ کہاں کا رہنے والا ہے؟ کون سی زبان بولتا ہے؟ کس رنگ و نسل کا ہے؟ حتیٰ کہ ہمارے علاقے کا ہے یا کہیں اور کا۔ ہمارے صوبے کا ہے یا کہیں اور کا؟ ہمارے شہر کا ہے یا کہیں اور کا؟

پھر اگر کوئی آپ کا اپنا معاملے کا فریق بن جائے تو پھر آپ عدل سے آنکھیں چرا کر اپنے پرائے کو ہی حق و باطل کا معیار بنا لیتے ہیں۔ آپ کا اپنا ؟ آپ کا اپنا کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کا بھائی، آپ کا رشتہ دار، آپ کے محلے پڑوس کا کوئی شخص ، آپ کا کوئی ہم زبان، ہم رنگ و نسل۔ پھر آپ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف نام کی بھی کوئی شے ہے۔ بس جو اپنا ہے وہ ٹھیک ہے اور دوسرا وہ شخص جو آپ سے کوئی نسبت نہیں رکھتا حق پر ہوتے ہوئے بھی ، غلط ہے ۔ ظالم ہے۔

ہم لوگ اکثر روتے ہیں کہ ہمارے ہاں ظلم بڑھ گیا ہے۔ ہمارے ہاں عدل و انصاف نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی عدل کو پسند کرتے ہیں۔ عدل جو اندھا ہوتا ہے، جسے اپنے پرائے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ جو کبھی ذات پات، رنگ ونسل، علاقہ و لسان کسی چیز سے علاقہ نہیں رکھتا۔

ہم کہتے ہیں ہمارے ہاں عدل کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہاں تو بس جان پہچان چلتی ہے، یہاں تو سیاسی وابستگی کام آتی ہے یہاں ہمارے لئے عدل کا حصول ممکن نہیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن کیا ہم اپنے معاملے میں تعصب کو برا سمجھتے ہیں۔

یا ہم نے سارے معیار صرف اس لئے وضع کیے ہیں کہ اُن سے دوسروں کی پیمائش کی جاتی رہے اور ہماری باری پر ہمیں استثنیٰ مل جائے۔


*****
بہرکیف اگر آپ کسی سے تعصب برتتے بھی ہیں تو اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے کہ روزِ حشر اس کے جواب دہ آپ خود ہوں گے تاہم آپ کا یہ تعصب آپ کے دشمنوں کے لئے ہی نقصان دہ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے اپنے لئے بھی زہرِ قاتل ہے۔

وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ آپ کے سیاست دان آپ کی تعصب کی بیماری سے بہت زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ آپ کو رنگ و نسل اور زبان و علاقے کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں اور اِسی برتے پر آپ کا قیمتی ووٹ لے اُڑتے ہیں۔ اور آپ؟

آپ اتنے سیدھے سادھے ہیں کہ آپ اس سے پوچھتے تک نہیں کہ ٹھیک ہے تم میری قوم سے ہو لیکن پچھلے پانچ سال تمہاری کیا کارکردگی رہی؟ اگلے پانچ سال کے لئے تمہار ا کیا منشور ہے؟ جس منصب پر پہنچنے کے لئے تم میرا ووٹ طلب کر رہے ہو کیا تم اُس کے اہل بھی ہو ۔ یا تمہاری اہلیت صرف یہ ہے کہ تم میری قوم سے ہو، یا میری زبان بولتے ہو۔

کہتے ہیں کہ اپنا تو مار کر بھی سائے میں ڈالتا ہے تو پھر سمجھ لیجے کہ آپ پاکستانیوں کا جو حال ہے وہ سائے میں پڑی لاشوں سے بہتر نہیں ہے جنہیں اُن کے 'اپنوں'نے مار کر بہت محبت سے سائے میں ڈالا ہے۔

یقین کیجے آپ کی آنکھیں بہت اچھا دیکھ سکتی ہے، بس ایک بار تعصب کی ہری نیلی پیلی عینکیں اُتار کر دیکھنے کی ہمت کیجے۔ تب آپ کو اپنوں میں غیر اور غیروں میں موجود اپنے نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔