باقی صدیقی کی سدا بہار غزل

غزل

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے 
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے 

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم 
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے 

یہی رستہ ہے اب یہی منزل 
اب یہیں دل کسی بہانے لگے 

خود فریبی سی خود فریبی ہے 
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے 

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں 
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے 

اس بدلتے ہوئے زمانے میں 
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے 

رخ بدلنے لگا فسانے کا 
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے 

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے 
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے 

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو 
تیر پر اڑ کے بھی نشانے لگے 

ہم تک آئے نہ آئے موسم گل 
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے 

شام کا وقت ہو گیا باقیؔ 
بستیوں سے شرار آنے لگے 

باقیؔ صدیقی

لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

غزل

زندگانی کا بنا لیجے چلن حُسنِ سُلُوک
لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

سعیِ پیہم ہو کہ ہر دن زندگی کا خوب ہو
ہر عمل حسنِ عمل ہو ہر جتن حُسنِ سُلُوک

رہبرو! فتنہ گرو! غارت گرانِ دیں سُنو
الحذر! اب چاہتا ہے یہ وطن، حُسنِ سُلُوک

دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں 
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سُلُوک

مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک

ہم بُرائی کو بُرائی سے بدل سکتے نہیں
راہرو ہو یا ہو کوئی راہزن حُسنِ سُلوک

آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک

محمد احمدؔ


بھرتی کا لفظ


بھرتی کا لفظ
محمد احمد

اُستاد ِ محترم نے کاغذ پر لکھے اکلوتے شعر پر نظر ڈالی اور عینک (جوبا مشکل ناک پر ٹکی ہوئی تھی) کے اوپر سےہمیں عجیب طرح سے دیکھا۔ ہم ابھی سٹپٹانے یا نہ سٹپٹانے کا فیصلہ کر ہی رہے تھے کہ یکایک اُن کے چہرے پر مُسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ کہنے لگے۔ برخوردار شعر تو بہت اچھا ہے لیکن یہ ایک لفظ بھرتی کا ہے۔ اُستادِ محترم کی اُنگلی تلے دبا ہوا بھرتی کا لفظ ناقدانہ جبر و استبداد کی تاب نہ لاتے ہوئے، بہ صد ندامت ہم سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ ایک لمحے کو خیال آیا کہ اُستادِ محترم کی انگشت مبارک کو زحمتِ شاقہ دے کر نادم لفظ سے آنکھیں چار کر لی جائیں لیکن پھر پاسِ ادب مانع ہوااور ہم نے دل ہی دل میں شعر کو دُہرا کر اُس بھرتی کے لفظ کو مجازاً ہی سہی گُدّی سے پکڑ لیا۔

بات استادِ محترم کی دل کو لگی۔ واقعی اگر وہ لفظ نہ بھی ہوتا تو بھی شعر کا مفہوم مکمل تھا۔ لیکن ہائے وہ شعر کا سانچہ کہ جو ایک حرف کے کم یا زیادہ ہونے پر بھی بانکا ہو جاتا ہےاور سجیلا ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ جبکہ یہاں تو معاملہ حرف کا نہیں بلکہ پورے لفظ کا تھا۔

آپ نے شاید بھرتی کے لفظ کے بارے میں سنا ہو۔ نہیں سُنا تو ہم بتا دیتے ہیں۔ شعری اصطلاح میں شعر میں محض وزن پورا کرنے کی خاطر ایسے لفظ شامل کرنا کہ جن کے نہ ہونے پر بھی شعر کے مفہوم پر کوئی فرق نہ پڑے وہ بھرتی کے لفظ یا حشو کہلاتے ہیں۔ اور جن کی عدم موجودگی کے باعث مصرع کی بندش چست قرار دی جاتی ہے۔

شاید آپ کو حیرت ہو لیکن امر واقع یہ ہے کہ بھرتی کے لفظ شاعری کے علاوہ نثر میں بھی کافی استعمال ہوتے ہیں ۔ یہ بات الگ ہے کہ نثر میں ان لفظوں کو کان سے پکڑ کر نکالنے والے ناقد میسر نہیں آتے۔ اور میسر آ بھی جائیں تو عموماً ناقد کو ہی کان سے پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے۔

نثر میں بھرتی کے الفاظ کی مثالوں میں سب سے پہلے وہ لفظ ہیں جو بے چارے شوہر اپنی بیویوں کے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔ جیسے جان ، جانِ من وغیرہ۔ یا جب بیگمات اپنے شوہر سے کہتی ہیں کہ رات کو جلدی آئیے گا مجھے تھوڑی شاپنگ کرنی ہے تو اس قسم کے جملوں میں لفظ "تھوڑی" عموماً بھرتی کا ہوا کرتا ہے۔

ایسے ہی آپ نے اُن پیروں فقیروں، گدی نشینوں کے بڑے بڑے نام سُنے ہوں گے کہ جو شرو ع ہوجائیں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایسے ناموں میں ایک آدھ لفظ واقعی نام کی ادائیگی کے لئے ناگزیر ہوتا ہے لیکن باقی ماندہ زیادہ تر لفظ بھرتی کے ہوتے ہیں اور عموماً مُریدوں کی عقیدت مندی کا شاخسانہ ہوتے ہیں یا پھر نئے عقیدت مند گھیرنے کی پروموشن۔ یعنی حضرت علامہ، مولانا سے لے کر، پیرِطریقت، رہبرِ شریعت تک اور آخر میں لیاری شریف والے یا کیو ٹی وی والے سب کے سب کو آپ ہاتھ پاؤں بچا کر بھرتی کےلفظوں میں شمار کر سکتے ہیں۔

یوں تونثر میں بھرتی کے لفظوں کی کئی ایک مثالیں مزید دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ہم مزید مثالیں آپ کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں کہ بہ شرطِ دلچسپی اپنے ارد گرد بکھرے بھرتی کے الفاظ  آپ خود تلاش کر سکتے ہیں۔ 

رہا قصہ مذکورہ شعر اور اُس میں موجود بھرتی کے لفظ کا۔ تو جناب اُستادِ محترم سے اجازت لے کر جب ہم گھر کو چلے تو راستے میں ہی کئی ایک الفاظ اس سانچے میں بٹھانے کی سعی کرتے رہے، تاہم سانچے میں پورے بیٹھنے والے سب لفظ اُستادِ محترم کے بتائے گئے اصول کے مطابق بھرتی کے ہی لگے۔ گھر پہنچ کر بھی کچھ دیر یہی اُدھیڑ بُن رہی لیکن پھر ہمیں ایک خیال سُوجھا اور ہم سکون کی سانس لے کر سوگئے۔

اگلے روز جب ہم نے استادِ محترم کے سامنے ترمیم شدہ شعر رکھا تو اُستادِ محترم نے ہمیں ایک دم سے گھور کر دیکھا اور پھر مُسکراتے ہوئے بولے۔ تم بہت فنکار ہو گئے ہو۔ بھرتی کے لفظ کی جگہ تخلص ڈال دیا۔ اُستادِ محترم کی جانب سے اپنے 'فن' کے اعتراف پر ہم پھولے نہیں سمائے اور مسکراتے ہوئے سوچنے لگے۔ چلو مقطع تو ہو ہی گیا اب کبھی نہ کبھی غزل بھی ہو ہی جائے گی۔

خواب مرتے نہیں ۔ احمد فراز

خواب مرتے نہیں

خواب مرتے نہیں
خواب دل ہیں نہ آنکھیں نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہوئے تو بکھر جائیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جائیں گے
خواب مرتے نہیں

خواب تو روشنی ہیں
نوا ہیں
ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظُلم کے دوزخوں سے بھی پُھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جُھکتے نہیں

خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں
خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

احمد فراز


غزل ۔ مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مِرا دل ۔ محمد احمدؔ

خاکسار کی ایک پرانی غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مِرا دل
سراب و خواب کے صحرا میں جل بجھا مِرا دل

نہ دیکھے طَور طریقے، نہ عادتیں دیکھیں
کسی کی شکل پہ اِک روز مر مِٹا مرا دل

وفا تو خیر ہوئی اس جہان میں عنقا
جو وہ ملے تو یہ پُوچھوں کہ کیا ہوا مرا دل؟

مآلِ دیدہ وری پُوچھتے ہو، دیکھ لو خود
بُجھی ہوئی مِری آنکھیں، بُجھا ہوا مرا دل

خلوص، مہر و مروّت بجز خسارہ نہیں
کہ دیکھتا ہی نہیں میرا فائدہ مرا دل

میں صاف دل ہوں، ہر اِک بات صاف کہتا ہوں
میں آئنہ ہوں تو ہے مثلِ آئنہ مرا دل

یہ اس کو دیکھ دھڑکنا ہی بُھول ہی جاتا ہے
غنیمِ جاں ہے،اُسی کا ہے، بے وفا! مرا دل

بچھڑ گئے، تھا بچھڑنا نوشتۂِ قسمت
ہے واقعہ جو بناتا ہے سانحہ مرا دل

نہیں تو کوئی نہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں
ذرا سی بات پہ ٹوٹے گا کون سا مرا دل؟

کسی کی یاد میں کھوئی سی ہیں مری آنکھیں
کسی کا دیکھتا رہتا ہے راستا مرا دل

سنا ہے قلب ہے سب تیری انگلیوں کے بیچ
تو اپنی سمت پلٹ لے مرے خدا مرا دل

میں آ گیا ہوں یہاں پر وہاں نہ جاؤں گا
پر اس کا پوچھ رہا ہے اتا پتا مرا دل

گرا دیا ہے قدر نا شناس ہاتھوں نے
ارے سنبھلنا! ذرا بچنا! دیکھنا! مِرا دل

میں اس گلی سے گزرتا ہوں سر جھکائے ہوئے
بنا ہوا ہے عجب موجۂِ صبا مرا دل

میں احمدؔ اپنی ہی دنیا میں شاد رہتا ہوں
یہ میرے خواب ہیں، یہ میں ہوں، یہ رہا مرا دل!

محمداحمدؔ


شکریہ اردو محفل


اگر انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کا ذکر کیا جائے تو پہلا خیال اردو محفل کا ہی آتا ہے۔ اردو محفل بلاشبہ انٹرنیٹ پر یونیکوڈ اردو کو باقاعدہ متعارف کروانے والا پہلا فورم ہے۔ ہماری خوش نصیبی کہ ہم ایک عرصے اس فورم کے ساتھ منسلک رہے۔ ہم اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ہم اردو محفل کی اردو اور اردو دان طبقہ کے لئے جو خدمات ہیں اُن کا کھلے دل سے اعتراف کریں اور ایک بار پھر شکریہ ادا کریں۔


اردو یونیکوڈ کی ترویج

ایک زمانہ تھا کہ انٹرنیٹ پر اردو زبان نظر ہی نہیں آتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ جب انٹرنیٹ پر اردو نظر آنا شروع ہوئی تو وہ تصویری شکل میں تھی۔ یعنی لوگ باگ ان پیچ پر اردو مواد کمپوز کرتے اور اُس کی تصاویر بنا کر مختلف سائٹس پر چسپاں کر دیتے تھے۔ یہ اردو محفل ہی کے لوگ تھے کہ جنہوں نے اردو دان طبقے کو یہ احساس دلایا کہ تصویری اردو ، اردو کی ترویج میں معاون ثابت نہیں ہوتی کہ نہ تو اسے سرچ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ عبارت کسی اور کام آنے ولی ہے ۔ اور یہ کہ یونیکوڈ اردو ہی اردو کا مستقبل ہے۔ ان لوگوں کی یہ محنت رنگ لائی اور آہستہ آہستہ لوگ اردو رسم الخط میں لکھی تحاریر براہِ راست انٹرنیٹ پرشامل کرنے لگےاور رفتہ رفتہ تصویری اردو سے جان چھوٹ گئی۔ اس اہم کام پر ہم اردو محفل کے شکر گزار ہیں۔

اردو کمپیوٹنگ

انٹرنیٹ کے دنیا میں اردو کی ترویج اردو محفل انتظامیہ اور اراکین کی خاص ترجیح رہی ۔ انہوں نے اردو کمپیوٹنگ کو باسہولت بنانے کے لئے شبانہ روز محنت کی۔ اردو لوکلائزیشن، سوفٹ وئیر ڈیولپمنٹ، ٹائپو گرافی وغیرہ میں بہت کام ہوا جو کہ اردو دان طبقے کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ مزید براں اردو محفل پر بہت سے ٹیوٹوریلز بھی گاہے بگاہے شامل ہوتے رہے جو نوواردان کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوئے۔

اردو بلاگنگ کی ترویج بھی اردو محفل کا خاصہ رہی ہے اور شروع کے دور میں بننے والے بیش تر بلاگ محفلین کے ہی تھے۔ خود ہمیں بھی بلاگ لکھنے کی ترغیب اردو محفل سے ہی ملی۔ یعنی اگر اردو محفل نہ ہوتی تو شاید آج رعنائیِ خیال بھی نہ ہوتا۔ ہماری جانب سے شکریہ !

اردو ویب لائبریری

اردو ادب کی ترویج کے لئے اردو محفل کے زیرِ اہتمام بہت سی کتابوں کو ڈجیٹائز کرنے کا کام شروع کیا گیا اور شروع کے ادوار میں اس سلسلے میں خاطر خواہ کام ہوا۔ آج بھی ہمیں جو بہت سی اردو ای بک یونیکوڈ فارم میں مل جاتی ہیں، اُن میں کہیں نہ کہیں محفل یا محفلین کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ شکریہ!

ادب پرور ماحول

یہ اردو محفل اور محفلین کی خوش قسمتی رہی ہے کہ یہاں اردو ادب سے علاقہ رکھنے والے اساتذہ ہر دور میں موجود رہے اور مبتدی اراکین کی داد رسی اور اصلاح کاکام ان احباب نے ہر دور میں بے غرض ہو کر کیا ۔ یہ ایک ایسی بیش بہا نعمت ہے کہ جوبہت سے دیگر فورمز پر مفقود رہی۔خود خاکسار کے لئے ان احباب سے سیکھنے کے مواقع ہر دور میں حاضر رہے اور خاکسار نے حسبِ حیثیت آپ احباب سے بہت کچھ سیکھا۔ میں بطورِ خصوصی جناب اعجاز عبید صاحب، جناب وارث صاحب اور جناب یعقوب آسی صاحب کی خدمات کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

گفتگو کا پلیٹ فارم

انٹرنیٹ کی دنیا میں یوں تو گفتگو کے بہت سے پلیٹ فارم موجود تھے لیکن بیش تر یا تو انگریزی زبان کے تھے یا پھر رومن اردو تک محدود تھے۔ اردو محفل کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ یہاں گفتگو کا ایک ایسا فورم موجود تھا جہاں صرف اردو جاننے والے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار اپنی زبان میں کر سکتے تھے۔ اور یہ احساس بہت خوبصورت تھا۔ خاکسار نے اپنی ایک نظم میں اردو محفل کی اس خصوصیت کا شکریہ ادا کیا ہے جسے آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں اردو محفل کے توسط سے ایسے اچھے دوست ملے کہ جن کی بابت ہم شکریہ بھی ادا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ یہ اردو محفل کا پلیٹ فارم ہی تھا کہ جس کی وساطت سے ہم ایسے دوستوں سے متعارف ہوئے کہ جو جغرافیائی لحاظ سے تو ہم سے قریب نہیں تھے لیکن دل کے بہت قریب نکلے۔ اِن احباب کی دوستی آج بھی ہمارا اثاثہ ہے۔

آخری شکریہ

اور آخری شکریہ یہ کہ اردو محفل نے ہمیں یہ سکھایا کہ انسان کو کسی بھی چیز کا اتنا عادی نہیں ہونا چاہیے کہ اُسے چھوڑنے کا خیال ہی اُسے لرزا دے۔ ایسی باتیں مشکل سے ہی سمجھ آتی ہیں لیکن سکھانے والے اچھے ہوں تو آ ہی جاتی ہیں۔ سو کسی حد تک ہم بھی سیکھ ہی گئے۔

نہ جاننے والوں کے لئے بتا دیتے ہیں کہ محفل آج سے ڈیڑھ دو ماہ قبل کچھ طبقاتی کشیدگی کا شکار رہی۔ چونکہ ہم بھی اپنی سو چ رکھتے ہیں سوہمارا جھکاؤ بھی دو میں سے ایک طبقے کی طرف رہا اور اس کا اظہار بھی ہم نے گاہے گاہے کیا کہ اگر گفتگو کے ایسے اچھے پلیٹ فارم پر بھی انسان اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرے گا تو کہاں کرے گا۔ بہرکیف اس دوران محفل انتظامیہ اپنی مصروفیات کے باوجود ان معاملات سے نمٹنے کی کما حقہ کوشش کرتی رہی اور اپنے تئیں کچھ اقدامات کرکے معاملات بہتر بھی کر لیے۔

اب جب کہ صورتحال بہت بہتر تھی اور محفل پر محفل کی سالگرہ کی تقریبات عروج پر تھیں تو نہ جانے انتظامیہ کس کی کس بات سے مشتعل ہوئی اور انتظامی تبدیلیوں کے نام پر پھر جانبدارانہ اقدامات کرتی نظر آئی۔ ہم محفل پر آن لائن ہی تھے کہ اچانک ہمیں اپنی تین پوسٹس اور ایک کیفیت نامے کے حذف ہونے کی اطلاع ملی اور اُس کے بعد ہمارا اکاؤنٹ جزوقتی طور پر معطل ہوگیا۔

حذف ہونے والی تین پوسٹس میں سے ایک تو ایسی تھی کہ جس میں ہم نے محفل میں کشیدگی کے دوران افتخار عارف کے کچھ اشعار جمع کیے تھے کہ جو محفل کی صورتحال سے کچھ نہ کچھ مماثلت رکھتے تھے یا اُن کی بابت ایسا سمجھا جا سکتا تھا۔ یہ ہماری واحد "شر انگیزی" تھی حالانکہ اس پوسٹ میں بھی اشعار کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

ہمیں حیرت اس بات پر ہوئی کہ نبیل بھیا نے یا اتنظامیہ کے کسی اور رُکن نے پسندیدہ کلام میں لگائی جانے والی افتخار عارف کی دو مزید غزلیات بھی حذف کر دیں۔ شاید اس سراسیمگی کی کیفیت میں اُنہیں رسی بھی سانپ نظر آ رہی ہے۔ اسی طرح ہمارےایک کیفیت نامے کا شعر جو کہ ہم نے نہ جانے کس خیال میں کیفیت نامے میں ارسال کر دیا۔ اُسے بھی حذف کر دیا گیا۔ حالانکہ اس کا تعلق محفل اور محفل انتظامیہ سے ہرگز نہیں تھا۔ شعر یہ تھا:


میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھر ےکوئی

ہم جون ایلیا کے لہجے کی تاثیر کے معترف تو ہیں ہی لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ تیر پر اُڑ کر نشانے از خود بھی لگ سکتے ہیں۔ :)

بہرکیف اس کیفیت نامے کا محفل یا انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی افتخار عارف کی آخری دو غزلوں کا کوئی واسطہ اس سب معاملے سے تھا۔ سُنتے ہیں کہ انتظامیہ نے ہم سمیت کچھ لوگوں کے کچھ اختیارات کو محدود کیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے وہ کر سکتے ہیں کہ اُن کو اختیار ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اگر محفل انتظامیہ شروع سے ہی ایسی حساسیت والی ہوتی تو ہم تو پسندیدہ اشعار کے انتخاب کے باعث 2007 میں ہی انتظامیہ کو پیارے ہو جاتے۔ :)

سب سے آخری بات یہ ہے کہ ہمیں محفل انتظامیہ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے اور درج بالا مندرجات اس سلسلے میں ہماری سوچ کی عکاسی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ محفل انتظامیہ صاحبِ اختیار ہے اُن کا حق ہے کہ وہ اپنے فورم کو جیسے چاہیں چلائیں۔ یہ تحریر اپنے بلاگ پر اس لئے لگائی ہے کہ اگر کوئی دوست اسے پڑھنا چاہے تو یہ پڑھنے والوں کے لئے دستیاب رہے۔

اس آخری شکریے سے ماقبل محفل کی خدمات کے حوالے سے ہم نے جو اعترافات کیے ہیں وہ تمام تر تہہ دل سے کیے ہیں اور ہم واقعتاً ان شاندار کارناموں پر محفل انتظامیہ کے ممنون ہیں۔ بالخصوص ہم نبیل بھائی، ذکریا بھائی، سعود بھائی اور دیگر ابتدائی دور کے اراکین کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اردو محفل کو اردو محفل بنایا۔

کسی کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ نے چاہا تو محفل ایسے ہی آباد رہے گی۔

ہمارا ایک پرانا کیفیت نامہ، جسے شاید ہم نے کچھ پہلے لکھ دیا تھا:

دائم آباد رہے گی 'محفل'
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

غزل ۔ اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں ۔ ندا فاضلی

غزل

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رُخ ہواؤں کا جِدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں

پہلے ہر چیز تھی اَپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کِسی دُوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کِس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مُسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کِس راہ گزر کے ہم ہیں

ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں

گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں

ندا فاضلی