[ہفتہ ٴ غزل] ۔ لہر دریا کو تو کُہسار کو قامت ملی تھی ۔ شہزاد اظہر

غزل

لہر دریا کو تو کُہسار کو قامت ملی تھی
دل کی کیا پوچھتے ہو دل کو محبت ملی تھی

پھول کچھ ہم نے بھی دامن میں اُٹھائے ہوئے ہیں
ہم کو بھی سیرِ گلستاں کی اجازت ملی تھی

توڑ سکتی تھی کسی لفظ کی ٹھوکر مجھ کو
میری مشکل، مجھے شیشے کی طبیعت ملی تھی

ایک میں ہی نہیں افزونیِ خواہش کا شکار
کوئی بتلاؤ کسی دل کو قناعت ملی تھی

دھوپ کے شہر میں سنولا گیا تِتلی کا بدن
پھول سی جان کو پوشاکِ تمازت ملی تھی

مجھ سے آباد ہوا تھا مرے حصے کا ورق
لفظ کا گھر تھا، مجھے جس کی اقامت ملی تھی

شہزاد اظہر

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے ۔ احمد فراز

آج کی معروف غزل

پیام آئے ہیں اُس یارِ بے وفا کے مجھے
جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے

جدائیاں ہوں تو ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے

نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم
کہ لے اُڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے

میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گے آئینہ دکھا کے مجھے

تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار
جو دیکھنا ہو تو دیکھو نظر اٹھا کے مجھے

کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر
فراز دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے

احمد فراز

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تری جستجو میں بتاؤں کیا ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا ۔ مقبول نقش

غزل

تری جستجو میں بتاؤں کیا ، میں کہاں کہاں سے گزر گیا
کہیں دل کی دھڑکنیں رُک گئیں، کہیں وقت جیسے ٹھہر گیا

ترے غم کی عمر دراز ہو، مرا فن اسی سے سنور گیا
یہی درد بن کے چمک گیا، یہی چوٹ بن کے اُبھر گیا

یہ تو اپنا اپنا ہے حوصلہ ، کہیں عزم اور کہیں گِلہ 
کوئی بارِ دوشِ زمیں رہا، کوئی کہکشاں سے گزر گیا

یہ اختلافِ مذاق ہے، یہی فرقِ وصل و فراق ہے
کوئی پائمالِ نشاط ہے، کوئی غم بھی پا کے سنور گیا

ترا لطف ہو کہ تری جفا، مِرے غم کی یہ تو نہیں دوا
مجھے اب تو اپنی تلاش ہے، میں تری طلب سے گزر گیا

وہ اُمنگ اور وہ ہما ہمی، جسے نقشؔ کہتے ہیں زندگی
دلِ نامُراد کے دَم سے تھی، دلِ نامُراد تو مر گیا

مقبول نقش

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہر طرف شورِ فغا ں ہے کوئی سنتا ہی نہیں ۔ عباس رضوی

غزل

ہر طرف شورِ فغا ں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

اک صدا پوچھتی رہتی ہے کوئی زندہ ہے ؟
میں کہے جاتا ہوں ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

میں جو چپ تھا ، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منھ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

ایک ہنگامہ کہ اس دل میں بپا رہتا تھا
اب کراں تابہ کراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

دیکھنے والے تو اس شہر میں یوں بھی کم تھے
اب سماعت بھی گراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

کیا ستم ہے کہ مرے شہر میں میری آواز
جیسے آوازِ سگاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں

عباس رضوی

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے ۔ محمد وارث اسدؔ

غزل

بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے

نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی، حیف، مجھ پہ طاری ہے

یہی متاع ہے میری، یہی مرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے

زبانِ حق گو نہ تجھ سے رکے گی اے زردار
جنونِ عشق پہ سرداری کب تمھاری ہے

اسد نہ چھوڑنا تُو دامنِ وفا داراں
زمیں کی مانگ اسی جہد نے سنواری ہے

محمد وارث اسدؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ حوصلہ دید ہ ٴ بیدار کے سو جاتے ہیں ۔ لیاقت علی عاصم

غزل

حوصلہ دید ہ ٴ  بیدار کے سو جاتے ہیں
نیند کب آتی ہے تھک ہار کے سو جاتے ہیں

روز کا قصہ ہے یہ معرکہ  ٴ یاس و اُمید
جیت کر ہارتے ہیں، ہار کے سو جاتے ہیں

سونے دیتے ہیں کہاں شہر کے حالات مگر
ہم بھی سفّاک ہیں جی مار کے سو جاتے ہیں

چاہتے ہیں رہیں بیدار غمِ یار کے ساتھ
اور پہلو میں غمِ یار کے سو جاتے ہیں

ڈھیر ہو جاتی ہے وحشت کسی آغوش کے پاس
سلسلے سب رم و رفتار کے سو جاتے ہیں

جاگتے تھے تری تصویر کے امکان جن میں
اب تو رنگ بھی دیوار کے سو جاتے ہیں

لیاقت علی عاصم

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے ۔ سید عاطف علی

غزل

شب ِ تاریک میں لرزا ں شرار ِ زندگانی ہے
ترے غم کی رفاقت سے یہ عمر ِجاودانی ہے

مرا پیہم تبسم ہی مرے غم کی نشانی ہے
مرا دھیما تکلّم ہی مری شعلہ بیانی ہے

فقیہِ شہر کا اب یہ وظیفہ رہ گیا باقی،
امیر ِ شہر کی دہلیز پہ بس دُم ہلانی ہے

کوئی زنداں میں جب بھی نو گرفتارِ وفا آیا
مجھے ایسا لگا جیسے یہ میری ہی کہانی ہے

فغاں ہے خام تیری گر تجھے سودا ہے جلووں کا
کہ تو ناواقفِ رمزِ ِ ندائے لن ترانی ہے

سیاہی سے ترے گیسو کی پانی ہیں گھٹائیں بھی
زمیں کے آگے شرمندہ بلائے آسمانی ہے​

سید عاطف علی