مژگاں تو کھول

مژگاں تو کھول
محمد احمدؔ​

اگر آپ تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ نے کئی ایک جگہ سنا اور پڑھا ہوگا کہ سنہ سترہ سو فلاں فلاں میں فلاں صاحب کی ولولہ انگیز تقریر سے قوم میں بیداری کے لہر دوڑ گئی ۔ اور پھر 60 سال بعد فلاں فلاں واقعے کے ظہور پذیر ہونے سے ملت جاگ اُٹھی ۔ اور پھر 90 سال بعد فلاں سانحے یا جنگ وغیرہ سے قوم کے جوان بیدار ہوگئے۔ اگر دیکھا جائے تو ہر سو پچاس سال بعد اُٹھنے والی یہ بیداری کی لہریں بتاتی ہیں کہ بیچ کے عرصے میں قوم سوتی رہی ہے اور اُسے جگانے کے لئے درونِ خانہ کوئی بندوبست نہ تھا سو بیرونی بیداری کی لہریں ادھر اُدھر سے تشریف لائیں اور قوم کو خوابِ غفلت سے اس بُری طرح جگایا کہ قوم بھونچکا رہ گئی۔ اور اس نو بیدار قوم کی حالت دیکھ کر شاعر نے کہا کہ: 

ہر کہ اُو بیدار تر، پُر درد تر​

مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ منفی ذہنیت کے لوگوں نے قوم کی میٹھی نیند میں دخل اندازی کرنے والے ان عناصر کو ہیرو بنا کر پیش کیا اور نیند سے نئی نئی جاگی قوم صورتحال کو کماحقہ سمجھ نہ پائی۔ نتیجتاً یہ عناصر آج تک ہیرو لکھے اور پُکارے جاتے ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ اُس زمانے میں قوم کا کوئی نیریٹو یعنی بیانیہ نہیں ہوا کرتا تھا ورنہ ہر سو پچاس سال بعد یہ بیانیہ بیداری کی لہر کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ 

ہمارے ہاں خوابِ غفلت اورنام نہاد بیداری کا کھیل اس تسلسل سے کھیلا جا رہا ہے کہ اگر کچھ عرصے بیداری کی لہر نہ اُٹھے تو اکثر لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں تاہم عقلمندی کا تقاضہ یہ ہےکہ اگر آپ کو اس قسم کی کوئی تکلیف ہو بھی تو ادب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور ناصر کاظمی کی طرز پر شکایت کو ادب کا جامہ پہنایا جائے۔ یعنی طبیب سے کہا جائے کہ "دل میں اِک لہر سی اُٹھی ہے ابھی!" اور جب طبیب مکرر استفسار کرے کہ "دل میں؟" تو کہیں "تھوڑا سا نیچے" ۔ ویسے ہمارا خیال ہے کہ ناصر کاظمی کے ہاں اتنی لہریں نہیں اُٹھیں تھیں جتنی غلام علی صاحب کے بطن سے اُٹھیں ۔ تاہم جن لوگوں نے غلام علی کو نہیں سُنا اُن کے ہاں تو محض سردی اور گرمی کی لہریں ہی رہ جاتی ہیں جو میڈیا والے خبروں کی قلت کے دنوں میں اٹھایا کرتے ہیں۔ 

آپ کہہ رہے ہوں گے کہ ہم پٹری سے اُتر رہے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم کسی طرح پٹری پر چڑھ جائیں تاکہ زندگی کی گاڑی کو کسی سکون والے اسٹیشن پر کھڑی کرکے باقی ماندہ نیند پوری کر سکیں۔ 

بہرکیف بات ہو رہی تھی لمحاتی بیداری کی اور خوابِ غفلت کی ہمیشگی کی۔ ہمارے ہاں بیداری کی تحریکیں مختلف ادوار میں مختلف انداز میں اُٹھتی رہی ہیں۔ ہر مصلح نے اپنے تئیں قوم کو جگانے کی کوشش کی اور کچھ بے چارے کچی نیند کے مارے اُن کی چکنی چپڑی باتوں میں آ بھی گئے جو آگے چل کر خود بھی مصلح کہلائے۔ باقی قوم ہنوز خوابِ خر میں مبتلا رہی اور داعیانِ بیداری کی جانب گوش ِ ناشنوائی کو ڈھال بنائے رکھا۔ 

کسی ایسے موڑ پر جب قوم کو بیدار کرنے کے دشوار گزار کام میں مسلسل ناکامی سے مصلحین عاجز آئے ہوئے تھے ، اُن کی مڈبھیڑ سیانوں سے ہو گئی جیسا کہ سیانے ہر موقع پر کچھ نہ کچھ کہتے ہیں اُنہوں نے اس موقع کو بھی خالی نہیں جانے دیا اور مصلحین کو سمجھایا کہ جب بھی کوئی عظیم کام درپیش ہو تو اُسے ایک دم سے انجام دے دینا ممکن نہیں ہوتا ۔ سو بڑے کام کو ہمیشہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ لیں، درجہ بہ درجہ کام آسانی سے نمٹ جائے گا۔ 

کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے مصلحین نے اس کارِ عظیم کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور پھر سے اپنے محاذ پر جُت گئے ۔ اب اُنہوں نے پوری قوم کو ایک ساتھ جگانے کے بجائے اُنہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر جگانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں تاریخ میں مختلف قسم کے بیداری کے نعرے ملتے ہیں جن کی ٹارگیٹ آڈینس الگ الگ تھی۔ 

اب کبھی وہ جا گ مہاجر جاگ کا نعرہ لگاتے تو کبھی جاگ پنجابی جاگ ۔ باقی زبانوں میں بھی یقیناً لوگوں کو جگانے کا کام کیا جاتا رہا ہو گا تاہم زبان سے ناآشنائی کے باعث ہم قیاس آرائی سے احتراز برتتے ہیں۔ پھر جب لسانی بنیادوں پر لوگ اُن کی نہ سنتے تو مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر جاگ ۔۔۔۔۔ جاگ کا نعرہ لگاتے اور بیچ میں اپنے مخاطب کو اٹکا دیتے۔ 

مجھے یاد ہے بچپن میں کچھ ایسے پمفلٹ دیکھنے کو ملتے کہ جن میں ماؤں بہنوں سے خطاب کیا جاتا اور ان پمفلٹس سے پتہ چلتا کہ فلانی قوم آپ کی قوم کو تباہ برباد کرنے کے درپے ہے اور آپ اب بھی نہ جاگے تو تاریخ میں آپ کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ یقیناً فلانی قوم کو بھی اسی قسم کے دھمکی آمیز پیغام ملتے رہتے ہوں گے۔ یہاں بھی وہ لوگ جو پہلے سے بے خوابی کا شکار ہوا کرتے تھے ان مصلحین کے ساتھ مل جاتے اور خوفِ فساد خلق سے بیگانہ ہو کر نہ جانے کیا کیا کہتے پھرتے۔ 

شعرائے کرام کسی بھی تحریک کی روحِ رواں ہو ا کرتے ہیں سو اُنہوں نے گاہے بہ گاہے اُٹھنے والی بیداری کی لہروں میں بھی اپنی شاعری سے مزید ارتعاش پیدا کیا جن سے بیش تر سونے والوں کے کان جھنّا کر رہ گئے لیکن تب بھی آفرین ہے، شعراء کو نہیں! بلکہ سونے والوں کو کہ اُنہوں نے شعراء کی چارہ سازی کا کوئی بندوبست نہ کیا یعنی اُنہیں گھاس نہیں ڈھالی۔ اس نعمت بہ رنگِ زحمت کے باعث شعراء کرام کا "بے چارہ" طبقہ گھاس کھائے جانے کے الزام سے بچ گیا۔ 

یوں تو اگر اردو شاعری سے بیداری کے لئے لکھی جانے والی شاعری کی تلاش شروع کی جائے تو ڈھیر لگ جائے لیکن یہاں ہم فقط دو چار مثالیں پیش کر رہے ہیں۔ 

مثلاً یہ شعر دیکھیے:

اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا​

اُٹھو اور دوڑو! ارے بھئی اُٹھنے اور دوڑنے کے بیچ میں اگر ناشتہ تیار ہے کی صدا بھی لگا دی جاتی تو شاید کچھ پوستی مارے ناشتہ کرنے کے لئے ہی اُٹھ جاتے ۔ لیکن شاعر نے زورِ بیان پر دھیان دیا اور سونے والوں کی فطرت سے غفلت برتی ۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ 

یہ شعر بھی دیکھیے:

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!​

یہاں بھی مصلحین نے سیانوں والی تکنیک آزمائی یعنی پورے بندے کو جگانے کے بجائے صرف آنکھ پر قسمت آزمائی کی۔ سونے والوں نے یہ تو سنا کہ کوئی اُنہیں کچھ کہہ رہا ہے تاہم نیند میں یہ نہ سمجھ پائے کہ مژگاں کھولنے سے مراد پلکیں اُٹھانا ہے ورنہ وہ اتنے بھی سست نہ تھے کہ پلکیں بھی نہ اُٹھا پاتے۔ 

لیکن جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی اور جس طرح سارے پوستی ایک جیسے نہیں ہوتے اُسی طرح سب شاعر بھی ایک سے نہیں ہوتے اور کچھ ہماری طرح کے بھی ہوتے ہیں جو خود غافلین میں شمار ہوتے ہیں اور کیا خوب شمار ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کسی شاعر کا شعر دیکھیے:

ڈالی ہے اس خوش فہمی نے مجھ کو سونے کی عادت 
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
جب اس مسئلےپر ہم نے غور کیا تو ہمیں ایک ہی بات سمجھ آئی اور وہ یہ کہ اگر بچپن سے ہی لوگوں میں بیداری کی عادت ڈالی جائے تو وہ بعد میں بھی سوتے رہنے کی کیفیت سے نکل کر سونے جاگنے کی کیفیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بچوں میں بیداری کی لہریں بڑوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ قوی ہوتی ہیں۔ تاہم بچوں کی یہ بیداری کی لہریں اکثر بڑوں کی نیند کے اوقات سے متصادم ہوا کرتی ہیں اور بڑے جو مصلحین کو بھی کسی گنتی میں نہیں لاتے بچوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ نتیجتاً ہمارے ہاں مائیں اکثر بچوں کو مار مار کر سُلاتی نظر آتی ہیں کہ "کمبخت سوجا۔ کیا تو نے جینا حرام کیا ہوا ہے میرا"۔ اور سوتے بچوں کو مار مار کر اُٹھایا جاتا ہےکہ"کمبخت اس وقت سو رہا ہے اور جب سونے کا وقت ہو گا تو اُٹھ بیٹھے گا"۔ اس شدید تشدد کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں میں اُٹھنے والی بیداری کی لہریں پسپا ہو جاتی ہیں اور وہ ماں باپ کے ساتھ ساتھ سونے اُٹھنے لگتے ہیں اور کبھی خدانخواستہ بچوں کی آنکھ کھل جائے اور ماں باپ سو رہے ہوں تو بیچارے سہم کر پھر سے سو جاتے ہیں۔ 

نونہالوں میں بیداری کی لہر کا گر کسی نے اہتمام کیا تو وہ ہمارے عزیز ترین مصلح جناب حکیم محمد سعید صاحب تھے کہ جو بچوں کا رسالہ "نونہال" نکالا کرتے تھے اور اُس کا پہلا مضمون ہی "جاگو جگاؤ" ہوا کرتا تھا۔ اس مضمون میں بیدار مغز لوگوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں اور جو بچوں کو عملی زندگی میں غافلین میں شامل ہونے سے روکتی تھیں۔ 

اس جاگو جگاؤ تحریک کا توڑ لوگوں نے یہ نکالا کہ نونہالوں میں بچوں کے رسالے پڑھنے کا ماحول ہی ختم کر دیا ۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ جو بچے بچوں کے رسائل پڑھے بغیر پروان چڑھے وہ بڑے ہو کر بھی یہ طفلانہ رسائل نہیں پڑھ سکتے۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ 



آج کے دور میں بیداری کی سب سے بڑی تحریک کا عَلم موبائل فون کے الارمز نے اُٹھایا ہوا ہے اور اُن کے مقابل وہ ناقابلِ شکست ہاتھ ہیں کہ جن کا عزمِ مصمّم ہر بار الارم بجنے پر اسنوز کی ناب دبانے کا فریضہ جی جان سے انجام دیتے ہیں اور کبھی کبھی اسنوز پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ الارم ہی ڈِس مِس کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر اسکول یا دفتر سے چھٹی ہو جائے تو خود کو بیمار سمجھتے ہیں اور ڈاکٹر سے سفارش کرتے ہیں کہ وہ اُن کے لئے آرام کی سفارش کرے ۔ اگر ڈاکٹر ایسا ہی کرے تو ٹھیک ورنہ وہ ڈاکٹر کے لئے آرام تجویز کرتے ہیں اور دوسرے ڈاکٹر کے ہو جاتے ہیں۔ آخر ڈاکٹر کو اتنا بیدار مغز تو ہونا ہی چاہیے کہ سمجھ سکے کہ مریض کو کس طرح آرام آئے گا۔ 

٭٭٭٭٭​

موسمی شاعری کا دسمبری میلہ

شاعر نے تو بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا

آخری چند دن دسمبر کے 
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں

لیکن ہم سادہ لوح تھے سمجھ نہیں پائے اور باقی نظم پڑھنے بیٹھ گئے۔  شاعر کے لئے دسمبر کیوں بھاری ہو ا کرتا تھا وہ تو شاید شاعر ہی جانتا ہوگا ، غالباً محبوب کا فراق یا  وصال اُس کے لئے سوہانِ روح بن گیا ہو۔ تاہم اردو کمیونٹی کے لئے دسمبر ، موسمی شاعری کا ایسا تکلیف دہ موسم بن کر رہ گیا ہے کہ اب اس دکھ کا مداوا ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ دیکھا گیا ہے کہ مجذوب صفت شعراء دسمبر میں شاعری کے سالانہ عرس پر جوق در جوق جمع ہوتے ہیں اور پھر دسمبر کے نام پر وہ دھمال ڈالتے ہیں کہ عرش تو کیا فرش بھی ہلا دیتے ہیں۔  اتنا تو ہم بھی جانتے ہیں کہ بے یقین بے مراد رہتا ہے اور یقین والوں کو ہی ملتا ہے جو ملتا ہے تاہم اس نامراد دسمبری اور موسمی شاعری سے کسبِ فیض کرنے سے بہتر ہے کہ انسان نامراد ہی رہے بلکہ نامراد ہی مر جائے تو بھی کوئی ایسا حرج نہیں ہے۔ 

اس دسمبری شاعری کو دیکھ کر اور پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ماہِ دسمبر کسی سرکاری دفتر میں رکھا شکایت کا صندوق ہے۔ جسے لوگوں نے  اپنے اپنے رونے رو کر کھچا کھچ بھر دیا  ہے اور کوئی ان فریادوں کا سننے والا روئے ارض پر موجود نہیں ہے۔ 

دسمبر کے نام پر تخلیق کیا جانے والا اولین کلام چونکہ اصل تھا اور اس میں موسمی بہاؤ اور نقالی کے اثرات نہیں تھے سو وہ واقعتاً قابلِ اعتناء تھا۔ ایسے ہی کسی اصلی شاعر نے کہا ہوگا کہ:

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کھُل گیا 
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

تاہم زیادہ مسئلہ جب پیدا ہوا کہ بلبلوں کے ساتھ ساتھ باقی پرندے بھی غزلخواں ہو گئے یعنی بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔ اس  دسمبری بھیڑ چال شاعری نے دسمبر ، شاعری اور خوش ذوق قارئین سے یکساں انتقام لیا  اور اکثر کو ایسا متنفر کر دیا کہ لوگ دسمبر کا نام دیکھ کر ہی کلام کی بساط لپیٹ دیا کرتے ہیں۔ 

ہم نے مانا کہ " فریاد کی کوئی لے نہیں ہے" لیکن شاعری شتر بے مہار اچھی نہیں لگتی بلکہ شتر خود بھی بے مہار اچھا نہیں لگتا۔ 

اقبال نے کہا تھا کہ :

رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا، نرالے میرے نالے ہیں

اگر خدانخواستہ اقبال آج حیات ہوتے تو اُنہیں ستاروں کی خاموشی سنائی ہی نہیں دیتی اور وہ دسمبری شاعری پڑھ پڑھ کر ہی اپنے آنسو خشک کر بیٹھتے۔ 

گو کہ ہم نے بھی ایک بار دسمبری شاعری اپنے بلاگ پر جمع کی تھی تاہم یہ اُن دنوں کی بات تھی کہ آتش ابھی نوجوان ہی تھا اور ابھی دسمبری شاعری کا مجموعہ خیال لخت لخت نہیں ہوا تھا اور نہ ہی اس کے ورق لالے، گُل اور نرگس کو اُٹھانے کی مہلت ملی تھی۔

آخری بات جسے آپ وضاحتی بیان سمجھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم شاعری اور شعر میں اپنے جذبات اور احساسات کے بیان کے خلاف نہیں ہیں (ہم ہو بھی کیسے سکتے ہیں) لیکن جب آپ اپنے جذبات اور احساسات بیان کرتے ہیں تو انداز بھی اپنا ہونا چاہیے۔ تخلیق خونِ جگر مانگتی ہے سو نایاب ہوتی ہے ۔ سو اصل تخلیق کا مقابلہ کسی بھی طرح نقالی سے نہیں کیا جا سکتا۔

****

mosami shairi ka decemberi mela

غزل : وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا

غزل 

وہ تشنگی کا دشت جب سراب رکھ کے سو گیا
تو میں بھی اپنی پیاس پر سحاب رکھ کے سو گیا

میں تشنہ تھا سو خواب میں سراب دیکھتا رہا
جو تھک گیا تو سر تلے حباب رکھ کے سو گیا

فسانہ پڑھتے پڑھتے اپنے آپ سے اُلجھ گیا
عجیب کشمکش تھی میں کتاب رکھ کے سو گیا

جو میرے گرد و پیش میں عجیب وحشتیں رہیں
میں اپنی چشمِ خواب میں عذاب رکھ کے سو گیا

بھٹک رہا ہوں کُو بہ کُو ، نہ رُک سکوں ،نہ بڑھ سکوں
وہ میرے دشت میں کئ سراب رکھ کے سو گیا

رہا حسابِ دوستاں، سو وہ تو دل میں تھا نہاں
معاف کی جفائیں سب! حساب رکھ کے سو گیا

پھر ایک دن سُخن پری، رُکی! نہ اپنے گھر گئی
تھکا ہوا میں درمیاں حجاب رکھ کے سو گیا

سوال ہی سوال تھے لبوں پہ زندگی ترے
دمِ فنا لبوں پہ میں جواب رکھ کے سو گیا

اُسے کبھی نہ کہہ سکا میں احمد ؔ اپنا حالِ دل
سو آج پھر کتاب میں گُلاب رکھ کے سو گیا

محمد احمدؔ​

غزل : اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا

غزل 

اب کس سے کہیں کہ کیا ہوا تھا
اِک حشر یہاں بپا رہا تھا

دستار ، کہ پاؤں میں پڑی تھی
سردار کسی پہ ہنس رہا تھا

وہ شام گزر گئی تھی آ کے
رنجور اُداس میں کھڑا تھا

دہلیز جکڑ رہی تھی پاؤں
پندار مگر اَڑا ہوا تھا

صد شکر گھڑا ہوا تھا قصّہ
کم بخت! یقین آ گیا تھا

اِک بار ہی آزما تو لیتے
در بند نہ تھا ، بِھڑا ہوا تھا

شب خون میں روشنی بہت تھی
تھا کون جو دیکھتا رہا تھا

جزدان میں آیتیں چُھپی تھیں
گلدان میں پھول کھل رہا تھا

اِک شخص کہ تھا وفا کا پیکر
وہ شخص بھی مائلِ جفاتھا

دستور وہی تھا حسبِ دستور
انصاف کا قتل ہو رہا تھا

کچھ پھول کھلے ہوئے تھے گھر میں
کچھ یاد سے دل مہک رہاتھا

کچھ اشک گرے ہوئے تھے خط پر
اک لفظ تھا جو مٹا ہوا تھا

اُس شام تھا دل بہت اکیلا
میں ہنستے ہنستے رو پڑا تھا

تھی بات بہت ذرا سی احمدؔ
اس دل کو نہ جانے کیا ہوا تھا

محمد احمدؔ​

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

غزل 

بجھے اگر بدن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں
جلا لیے سخن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

چمن خزاں خزاں ہو جب، بجھا بجھا ہوا ہو دل
کریں بھی کیا چمن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

شبِ فراق پر ہوا، شبِ وصال کا گماں
مہک اُٹھے ملن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

اُداسیوں کے حبس میں جو تیری یاد آگئی
تو جل اُٹھے پوَن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

سو کیوں نہ دل کے داغ گن کے کاٹ لیجے آج شب 
گِنے تھے کل گگن کے کچھ چراغ تیرے ہجر میں

محمد احمدؔ​

غزل۔ اشک کیا ڈھلکا ترے رُخسار سے

غزل


اس طرح بیٹھے ہو کیوں بیزار سے
بھر گیا دل راحتِ دیدار سے؟

اشک کیا ڈھلکا ترے رُخسار سے
گِر پڑا ہوں جیسے میں کُہسار سے

در کُھلا تو میری ہی جانب کُھلا
سر پٹختا رہ گیا دیوار سے

ایک دن خاموش ہو کر دیکھیے
لُطف گر اُٹھنے لگے تکرار سے

دیکھ لو یہ زرد آنکھیں، خشک ہونٹ
پوچھتے ہو حال کیا بیمار سے

قدر کیجے فیض جس جس سے ملے
سایہ ٴ دیوار ہے، دیوار سے

کل یہاں ویرانیاں نہ ہوں مقیم
ڈر رہا ہوں گرمیِ بازار سے

جھوٹ چلتا ہے مگر اِک آدھ بار
اے قصیدہ خواں حذر! تکرار سے

بِک رہی ہے زندگی کے مول ، موت
جائیے! لے آئیے بازار سے

مانگتے ہیں ووٹ، اُس پر طنطنہ
پیچ و خم نکلے نہیں دستار سے

بند کر ٹی وی کی خبریں، بے خبر!
چل کوئی کالم سنا اخبار سے

دوستی کی محفلیں قائم رہیں
یہ دعا ہے اپنی پالن ہار سے

تجھ میں احمدؔ عیب ہیں لاکھوں مگر
واسطہ ہے تیرا کِس ستّار سے

محمد احمدؔ​

جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں

غزل


جائے گا دل کہاں، ہوگا یہیں کہیں
جب دل کا ہم نشیں ملتا نہیں کہیں

یوں اُس کی یاد ہے دل میں بسی ہوئی
جیسے خزانہ ہو زیرِ زمیں کہیں

ہم نے تمھارا غم دل میں چھپایا ہے
دیکھا بھی ہے کبھی ایسا امیں کہیں

میری دراز میں، ہے اُس کا خط دھرا
اٹکا ہوا نہ ہو، دل بھی وہیں کہیں

ہے اُس کا خط تو بس سیدھا سپاٹ سا
ہاں دل لگی بھی ہے اس میں کہیں کہیں

جتنا وہ دل رُبا ، اُتنا ہی بے وفا
دل کو ملا ہی کیوں ایسا حسیں کہیں

احمدؔ یہ دل مِرا ،کیوں ہے بجھا بجھا
دل سے خفا نہ ہو، دل کا مکیں کہیں

محمد احمدؔ​