شعراء کا ڈوپ ٹیسٹ

شعراء کا ڈوپ ٹیسٹ
از محمد احمد
کھیلوں کی دنیا سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ بہت سے کھلاڑی /ایتھلیٹس کارکردگی کو بڑھانے کے لئے دوائیں استعمال کرتے ہیں تاہم ان دواؤں کا استعمال کھیل کی روح کے منافی سمجھا جاتا ہے ۔ اور اس عمل کی روک تھام کے لئے کھلاڑیوں کی جانچ بذریعہ ڈوپ ٹیسٹ کی جاتی ہے۔ ٹیسٹ میں مثبت رپورٹ آنے پر کھلاڑیوں کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی جاتی ہے اور اُن کی کارکردگی کو انصاف کے اصولوں کے منافی بھی سمجھا جاتا ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ بعینہ یہی بات ایسے شعراء پر بھی صادق آتی ہے کہ جو اپنی کاکردگی بڑھانے کے لئے مے نوشی کا سہارا لیتے ہیں اور پی پلا کر ایسی ایسی شاعری کرتے ہیں کہ پڑھنے سننے والے دنگ رہ جائیں۔ 

اگر آپ کا اردو شاعری سے تھوڑا بہت بھی علاقہ رہا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارے شعراء ہر دوسری غزل اور چوتھے شعر میں شراب کا ذکر کرتے ہیں تاہم یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کبھی زیادہ موڈ ہو تو یہ لوگ شراب کو ردیف میں شامل کر لیتے ہیں اور ہر شعر میں جام کے جام لنڈھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ 

جہاں تک شاعری میں شراب کے ذکر کی بات ہے تو ہمیں اُس پر کوئی اعتراض نہیں ہے چاہے وہ استعاراتی معنوں میں ہو یا حقیقی معنوں میں۔ ہم تو بات کر رہے ہیں اُن شعراء کی جو شراب پی کر شاعری کرتے ہیں یا شراب پی جانے کی وجہ سے شاعری کرنے لگتے ہیں ۔ 

ہمارے ہاں یہ تاثر بڑا عام ہے کہ جو شعراء دخترِ رز سے آشنائی رکھتے ہیں اُن کی شاعری میں ایک الگ ہی جذب اور گہرائی ملتی ہے۔ اُن کے مضامین طاق ہوا کرتے ہیں اور تخیّل اوج پر ہوتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح بھی ہے کہ ہمارے ہاں بے شمار نامی گرامی شعراء ایسے ہیں اور ماضی میں بھی رہے ہیں کہ جو مے نوشی سے نسبت رکھتے ہیں اور بہت اچھی شاعری اُن کا خاصہ ہوا کرتی ہے۔ نام ہم اس لئے نہیں لے رہے کہ نام بہت سارے ہیں اور نام لکھنے سے یہ مضمون مقالہ معلوم ہونے لگے گا۔ مزید براں بہت سے شعراء اس بات پر معترض ہوں گے کہ مے نوشوں میں اُن کا نام کیوں لکھا اور بہت سے اس بات پر کہ مے نوشوں میں اُن کا نام کیوں نہ لکھا۔ سو نام رہنے دیتے ہیں۔ ویسے بارہ پندرہ نام تو آپ کے ذہن میں بھی آ ہی گئے ہوں گے۔
اگر آپ کا اردو شاعری سے تھوڑا بہت بھی علاقہ رہا ہے تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ہمارے شعراء ہر دوسری غزل اور چوتھے شعر میں شراب کا ذکر کرتے ہیں تاہم یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کبھی زیادہ موڈ ہو تو یہ لوگ شراب کو ردیف میں شامل کر لیتے ہیں اور ہر شعر میں جام کے جام لنڈھانے سے دریغ نہیں کرتے۔

اس تمام پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نشہ اور خمار انسان کے ذہن کو فکرِ سخن کے لئے یکسوئی اور ایسا شاعرانہ نظم فراہم کرتا ہے کہ انسان دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور یوں شاعری کے لئے ایک ایسی فضا ہموار ہو جاتی ہے کہ ہوش وحواس میں رہتے ہوئے جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ 

بقول غالب :
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو 
اک گو نہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے​

گو کہ غالب نے اپنے تئیں اپنی صفائی پیش کی ہے کہ ہمیں شراب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن اسی شعر سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ غالب کو شراب کی ضرورت اس لئے رہی کہ وہ ایک مستقل بے خودی کی کیفیت خود پر طاری رکھنا چاہتے تھے ۔ اور اس کیفیت کے زیرِ اثر فکرِ سخن کے علاوہ بھلا کیا کام ہو سکتا تھا۔ بے خودی میں قدم اُٹھانے کے متمنی تو غالب بھی نہیں ہوں گے۔ 

بعد میں غالب نے اسی شعر کو اُلٹا کرکے بھی پیش کیا۔ 

بے خود ی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے​

حالانکہ پردہ داری کی چنداں ضرورت نہیں تھی اور لوگ جانتے تھے کہ غالب پر کس شے کے باعث بے خودی طاری رہا کرتی تھی۔ 

سو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ جو شاعر اپنی کارکردگی بڑھانے کے لئے دوا دارو کا استعمال کرتے ہیں اُن کا ڈوپ ٹیسٹ ہونا چاہیے اور ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر ان کی شاعری کو شاعری کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اُن پر چھ آٹھ ماہ کی پابندی لگا دینا چاہیے۔ تاحیات پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے لیکن ہم ایسی سخت دلی کی سفارش نہیں کرتے۔ 

اس طرح اُن لوگوں کو تشفی ہوگی جو بن پیے لہراتے ہیں یعنی شاعری کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اُن لوگوں کو سراہنا چاہتے ہیں جو بن پیے شاعری کیا کرتے ہیں کہ یہ بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ 

آپ فکرِ سخن میں ہیں کہ بیگم کہتی ہے دہی لا دیں۔ آپ دہی لانے کے لئے اُٹھنا نہیں چاہتے اور چاہتے ہیں کہ فکرِ سخن کے علاوہ کوئی اور فکر لاحق نہ ہو لیکن بیگم آپ کے دماغ کی دہی بناتی رہتی ہے اور آپ دماغ کی لسی بننے کے خوف سے چار و ناچار دہی لینے کے لیے چلے جاتے ہیں اور غزل اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ 

تاہم اگر آپ پیے ہوئے بیٹھے ہیں تو دہی لانے کی فرمائش ہو سکتا ہے کہ آپ کے کان تک ہی نہ پہنچے ۔ اور اگر پہنچ بھی جائے تو آپ کو اوجِ ثریا سے اُتار کر دہی کی دوکان تک لے جانے والی کرین ابھی ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ سو چار و ناچار بیگم آپ پر تین حرف بھیجے گی اور پڑوسی کے بچے کو دہی لینے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ہوش میں آنے تک دو چار غزلیں تیار ہوں گی۔ اور بیگم کی فرمائش پر دہی لانے والا شاعر دوسرے دن مشاعرے میں آپ کی غزلوں پر سر دھن رہا ہوگا اور کھٹی ڈکاریں لے رہا ہوگا۔ 

اس طرح کے بہت سے منظر ہم آپ کو دکھا سکتے ہیں کہ کس طرح صہبا اور صراحی کے ہم نشین، دہی اور کونڈے کے خاک نشین سے آگے نکل جاتے ہیں تاہم تھوڑے کہے کو بہت سمجھتے ہوئے یہیں پر بس کرتے ہیں اور مزید مناظر آپ کی تخیلانہ صلاحیتوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ 

ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اچھی اور معیاری شاعری کے لئے جس ذہنی بالیدگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اب چیدہ چیدہ لوگوں کے پاس ہی رہ گئی ہے۔ اب یہ چیدہ چیدہ لوگ اگر مے نوشی کر لیں تو ساری سنجیدگی اور بردباری یک بہ یک روانہ ہو جاتی ہے اور یہ لوگ وہ وہ حرکتیں کرنے لگتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔! 

اس کے برخلاف غیر سنجیدہ حضرات پر مے نوشی کا اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ بقول حضرتِ فراق:

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراق
جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہوگئے 
اب ایسی سنجیدگی کے ساتھ جب سنجیدہ شاعری کی جاتی ہے تو وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے اور اس ناہنجار شے کے باعث غیر سنجیدہ لوگ معتبر ٹھہرتے ہیں اور معتبر لوگ غیر سنجیدہ۔ 

اس سب قضیے کے باوجود شاعر اپنے شراب پینے کو جائز قرار دیتا ہے اور چِلا چِلا کر کہتا ہے:

ہنگامہ ہے کیوں برپا ، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے​

تو ہم شاعرِ موصوف کو کہتے ہیں کہ بھائی آپ نے ڈاکہ تو واقعی نہیں ڈالا لیکن اُس بے چارے شاعر کا کیا قصور جس نے کٹھن حالات میں دو شعر کہے اور باقی غزل دہی اور دلیے کی نظر ہو گئی۔ 

سو ہماری پر زور اپیل ہے کہ شعراء کے لئے بھی اینٹی ڈوپنگ ادارہ قائم کیا جائے اور ایسے شعراء کے ٹیسٹ سب سے پہلے کیے جائیں جن کے شاعری شراب اور بے خودی کے گرد گھومتی ہے اور وہ خود صراحی اور پیمانے کے گرد۔ 

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری اس جسارت پر بہت سے شائقینِ مے ناب ہمیں کھری کھری سنائیں گے اور بہت سے تلملا کر یہ تک کہہ دیں گے :

؎ ہائے کم بخت تو پی ہی نہیں

تاہم ہم اس دیرینہ طعنے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا وضاحتی بیان جار ی کریں گے کہ جناب ہمیں آپ کی مے نوشی پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ہمیں تو رخشِ مے نوشی پر سوار ہو کر سخنوری کرنے پر اعتراض ہے۔ جناب آپ دل کھول کر پیئں اور جب دل چاہے پیئں لیکن کبھی بغیر پیے بھی دو چار غزلیں لکھنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ غزل کس طرح ہوتی ہے۔ 

نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے، پوچھو تو کبھی پی ہے؟
اگر آپ اس طرح کا کوئی شعر یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو رہنے دیجے ہم نے یاد دلا دیا ہے اور بھی بہت سے ہیں جو یاد کرنے پر سلسلہ وار یاد آتے چلے جائیں گے۔ لیکن ہم پھر یہی کہیں گے کہ جناب ہماری اس چھوٹی سی گزارش کو دعوتِ مبارزت نہ سمجھیے بلکہ ہوش کے ناخن لیجے اور اُن سے اپنے نادیدہ زخم کرید کر دیدہ و دانستہ باقائمی ہوش و حواش فکرِ سخن کیجے تاکہ آپ بھی کہہ سکیں کہ جناب یہ ہوتی ہے اسپورٹس میں اسپرٹ۔ :)



*****

اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا ۔ مرتضیٰ برلاس

غزل

اپنا تو بس کام یہی ہے سب کے غم اپناتے رہنا 
اپنے ناخن زخمی کرنا اور گتھی سلجھاتے رہنا

لوگ جو تم کو بادل سمجھیں، بارش کی اُمید کریں 
اور تمھارا کام ہمیشہ  پتّھر ہی برساتے رہنا

ہم ہیں وہ آواز جو گُھٹ کے ساری فضا میں گونج رہے ہیں
بعد ہمارے، آوازوں کو زنجیریں پہناتے رہنا

آج یہ جن دیواروں کے تم روزن بند کیے جاتے ہو
کل کو ان دیواروں سے پھر اپنا سر ٹکراتے رہنا

ہم تو چراغِ اوّلِ شب ہیں، اوّل  بجھ جائیں گے ہم
تم ہی یارو! آخرِ شب تک دیپ سے دیپ جلاتے رہنا


مرتضیٰ برلاس

اَک برہمن نے کہا ہے ۔ صابر دت


اک برہمن نے کہا ہے۔۔۔

اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

ظلم کی رات بہت جلد ڈھلے گی اب تو
آگ چولہوں میں ہر اِک روز جلے گی اب تو

بھوک کے مارے کوئی بچہ نہیں روئے گا
چین کی نیند ہر اِک شخص یہاں سوئے گا

آندھی نفرت کی چلے گی نہ کہیں اب کے برس 
پیار کی فصل اُگائے گی زمیں اب کے برس

ہے یقیں اب نہ کوئی شور شرابا ہوگا
ظُلم ہوگا نہ کہیں خون خراب ہوگا

اوس اور دھوپ کے صدمے نہ سہے گا کوئی
اب میرے دیس میں بے گھر نہ رہے گا کوئی

نئے وعدوں کا جو ڈالا ہے وہ جال اچھا ہے
رہنماؤں نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

صابر دتؔ


غزل ۔ بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ ۔ محمد احمدؔ

غزل

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹھہرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ


یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ
محمد احمدؔ

ایک 'جُوں' کا کھلا خط (اردو دان طبقے کے نام ​)

ایک 'جُوں' کا کھلا خط
اردو دان طبقے کے نام ​

اس کھلے خط کی وساطت سے میں مسمات "جُوں" بقائمی ہوش و حواس اردو دان طبقے کے آگے چند حقائق رکھنا چاہتی ہوں تاکہ میرے متعلق ایک گمراہ کن محاورے اور کچھ دیگر قبیح غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے اور آئندگان کی اصلاح کا بندوبست بھی۔

دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخالفین کی بے حسی کا ذکر کرتے ہوئے اُ ن کے کانوں پر جوں کےرینگنے یا نہ رینگنے کا ذکر کرتے ہیں اور اس طرح پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنے نمبر بڑھانے اور دوسروں کے نمبر گھٹانے کا قومی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ جوں رینگنے کا محاورہ زیادہ تر اُن لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے سر پر بال ہی نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو اتنے سرسری کہ جوؤں کی رہائش تو کجا خیمہ گاہ کا کام بھی نہیں کر سکتے۔ اب ان بے انصاف لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب سر میں ہی جوؤں کے معقول قیام و طعام کا بندوبست نہ ہو تو وہ کانوں پر کیونکر رینگنے لگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ جوئیں کسی سیاست دان کی فرزندِ ارجمند تو ہیں نہیں کہ جنہیں براہِ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے کان پر لانچ کر دیا جائے کہ جناب رینگیے ۔


چلیے فرض کرلیا کہ مذکورہ بے حس شخص کے سر پر بال بھی ہیں اور اُس میں کسی حد تک جوؤں کی رہائش کا انتظام بھی ہے تب بھی جوؤں کو کیا پڑی کہ وہ اتنے بڑے سر کو چھوڑ کر کانوں پر آ کر رینگنا شروع کردیں۔ جو ناعاقبت اندیش اس قسم کی لغو باتیں کرتے ہیں اُنہیں شاید کانوں کی بناوٹ ، بے قرینہ اُتار چڑھاؤ اور دُشوار گزار گھاٹیوں کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ کیا جوئیں بے چاری جو پہلے ہی نہ جانے کیسے عسرت میں گزارا کر رہی ہوتی ہیں اس بات کی متحمل ہوسکتی ہیں کہ کان جیسی ناگفتہ بہ جگہ پر اسکیٹ بورڈنگ اور آئس سلائڈنگ قسم کے غیر سود مند کھیل کھیلیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بے حسوں کو گوش کے بل گوشہء احساس میں داخل کرنے کی سعی ِ لاحاصل کریں۔

پھر رینگنے کی ہی کیا تُک ہے۔ جوں بے چاری چل بھی سکتی ہے اور بوقتِ ضرورت دوڑ بھی سکتی ہے۔ آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے کہ جب کوئی حسینہ اپنے بالوں میں کیٹر پلر کی دہشتناک مشنری ٹائپ چیز یعنی کنگھی گھماتی ہے۔ اُس وقت دیکھنے کی ہوتی ہے جوؤں کی برق رفتاری۔ لیکن افسوس کے وہاں دیکھنے والی بھی صرف جوئیں ہی ہوتی ہیں اور اُنہیں اس وقت دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ سو یہ رینگنے والی بات پر سوچیں اور محاورے کو تازہ کریں۔ کان پر جوں رینگنے کے بجائے چلنا ہی کردیں۔ اور کان ہی کیوں ناک پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مو صوف تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے تو ٹھیک ہے ۔ مکھی کو کان پربٹھا دیں اور جوں کو ناک پر رینگوادیں۔ آپ کے کون سے پیسے لگیں گے۔ دو نئے اور تازہ محاورے ہاتھ آ جائیں گے۔

بہرکیف ، میری تمام متعلقین سے درخواست ہے کہ تھوڑے کہے کو بہت جانیں اور فوراً سے پیشتر اِس سلسلے میں معقول اقدامات کیے جائیں۔ آپ لوگ خود بھی اپنی حرکتیں ٹھیک کریں اور بے حسی کو صرف دوسروں کی جاگیر نہ قرار دیں اور اپنے دل میں بھی درد مندی کا احساس پیدا کریں۔ مزید یہ کہ بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں ، یہ کافی ساری بیماریوں کے لئے شافی نسخہ ہے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

والسلام

خیر اندیش

آپ کی 'اپنی'
جُوں

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا

غزل

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا​

محمد احمدؔ

پکسل پرفیکٹ پاکستان

پکسل پرفیکٹ پاکستان​

جب بھی ہم کسی ملک کی بات کرتے ہیں تو دراصل اُس کے لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ اُس ملک کی خوبیاں اُس کے لوگوں کی خوبیاں ہوتی ہیں اور اُس کے عیب اُس کے لوگوں کے معائب ہوتے ہیں۔ 

اگر پاکستان ایک تصویر ہے تو ہم پاکستانی اُس کے پکسلز* ہیں۔ اگر ہر پکسل خود کو اُجلا اور روشن بنا لے تو پاکستان کا چہرہ سنور جائے اور اس تصویر کا تصور تک تابناک ہو جائے۔ 

جتنی پاکستان کی آبادی ہے اُس اعتبار سے دیکھا جائے تو اتنی اچھی ریزولوشن کی تصویر ہر خطے کی قسمت میں کہاں۔ بہت سی تصویریں تو اتنی مبہم ہیں کہ صحیح طرح خط و خال بھی واضح نہیں ہو پاتے۔ بس ضرورت اس بات کہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنی خامیاں کوتاہیاں دور کرنے کی کوشش کرے اور خوبیوں کو فزوں تر کرنے کی۔ 

اقبال نے کہا تھا :

افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اگر ہم سب پاکستانی خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو پاکستان کا مجموعی تاثر بہتر ہو جائے گا۔ اگر پاکستان کی تصویر کا ہر پکسل اپنی جگہ پرفیکٹ ہو جائے تو پھر ہمارا پاکستان "پکسل پرفیکٹ پاکستان" بن سکتا ہے۔ 

تمام دوستوں ، ساتھیوں اور احباب کو یومِ آزادی پاکستان مبارک۔ ​



 پکسل، ایسے نقظوں کو کہتے ہیں کہ جن کی مدد سے ڈجیٹل تصویر مکمل ہوتی ہے۔ *