عالمی یومِ امن



آج دنیا بھر میں عالمی یومِ امن منایا جا رہا ہے ۔ جب جب اس طرح کے دن منائے جاتے ہیں مجھے بڑی ہنسی آتی ہے کس ڈھٹائی سے ہم لوگ یہ سب کارِ منافقت سر انجام دیتے ہیں۔تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔طرح طرح کے بیانات داغے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہےکہ یا تو یہ بیانات دینے والے کسی اور ہی دُنیا سے آئے ہیں یا پھر اس دنیا کی تمام تر بد امنی اور جنگوں کے ذمہ دار اہلِ زمین نہیں بلکہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے.

آج پاکستان، افغانستان اور عراق سمیت دنیا بھر میں امن کا جو حال ہے ایسے میں عالمی یومِ امن کی رسمی تقریبات منافقت نہیں تو اور کیا ہیں۔

امن کا خدا حافظ۔ جب کے نخل زیتوں کا
شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں

احمد ندیم قاسمی

نہ جانے کب تک یہ دُہرے معیار اس زمین کا مقدر رہیں گے۔






ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

غزل

ڈال دی حُرمتِ وصال پہ خاک
اِس گُناہوں بھرے خیال پہ خاک

روح جیسا بدن بکھیر دیا
اے محبت تری مجال پہ خاک

آئینہ ٹوٹ ہی گیا آخر
ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

ایک لمحے میں پڑ گئی کیسے
سال ہا سال کے کمال پہ خاک

درد آگے نکل گیا ہم سے
اے دلِ خستہ تیری چال پہ خاک

اور بے حال کر لیا خود کو
خاک اس شوقِ عرضِ حال پہ خاک

غیر اپنا ہے اور اپنا غیر
حاصلِ مُمکن و مُحال پہ خاک

زخم، اے وقت! داغ بن بیٹھا
جا ترے نازِ اندمال پہ خاک

لیاقت علی عاصم

امیرالمومنین کی عید

عید کے دن لوگ کاشانہ خدمت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیران ہو کر تعجب سے عرض کیا۔
یا امیر المومنین ! آج تو عید کا دن ہے، مسرت و شادمانی اور خوشی منانے کا دن ۔ یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟
آنسو پونچھتے ہوئے آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا۔
"اے لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔ آج جس کے نماز روزے مقبول ہوگئے بلاشبہ آج اس کے لئے عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز اور روزہ کو اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے آج وعید کا دن ہے۔ اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوں یا رد کردیا گیا ہوں ۔

بشکریہ : کرن ڈائجسٹ

عید آنے والی ہے



عید آنے والی ہے


ماں!
ہم اپنے گھر کب جائیں گے
یہاں کیمپ میں دل نہیں لگتا
نہ کھلونے ہیں نہ دوست
بس آنسو ہی آنسو ہیں

دیکھو!
میرے کپڑوں پہ
مفلسی کے داغ لگ چکے ہیں
انہیں تبدیل کرنا ہے
اور
نئے جوتے بھی لینے ہیں

تم بولتی کیوں نہیں ہو ماں!
کیا روزِ عید بھی میں
بھوک کا روزہ
صبر کے ساتھ افطار کروں گا
بابا سے کہو نا
گھر چلتے ہیں۔

شاعرہ : سحر


بشکریہ : کامی شاہ

ہدیہء نعت بحضورِ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم

ہدیہء نعت بحضورِ سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وسلم)

نہ رخشِ عقل، نہ کسب و ہنر کی حاجت ہے
نبیؐ کی نعت ریاضت نہیں، سعادت ہے

یہ کافروں کا بھی ایماں تھا اُن کے بارے میں
جو اُنؐ کے پاس امانت ہے، باحفاظت ہے

ہے امر اُنؐ کا ہمارے لیے خدا کا امر
کہ جو ہے اُن کی اطاعت، خدا کی طاعت ہے

ہے اُن کا ذکرِ گرامی عروجِ نطق و بیاں
یہ اُنؐ کی نعت مِرے شعر و فن کی عظمت ہے

مجھ ایسا عاصی و تقصیر وار کیسے کہے
رُسولِ پاکؐ مجھے آپ سے محبت ہے

کہاں ہے لائقِ شانِ نبیؐ مرا لکھا
مگر یہ حرفِ شکستہ بھی رشکِ قسمت ہے

محمد احمدؔ


خاموش رہو

خاموش رہو

ابنِ انشا


کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ ۔۔۔کچھ نہ کہو، خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو۔۔۔ ہاں اے لوگو، خاموش رہو

سچ اچھا، پر اس کے جلو میں، زہر کا ہے اک پیالا بھی
پاگل ہو؟ کیوں ناحق کو سقراط بنو، خاموش رہو

حق اچھا، پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سُولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو

اُن کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر، سورج ہی کو گھومنے دو، خاموش رہو

مجلس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، خاموش رہو

گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں ، من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگھیا کے بھید نہ کھولو، سیر کرو، خاموش رہو

آنکھیں موند کنارے بیٹھو، من کے رکھو بند کواڑ
انشا جی لو دھاگہ لو اور لب سی لو، خاموش رہو


***********

نوشتۂ قمیص



نوشتۂ قمیص


آپ نے وہ ٹی شرٹس تو دیکھی ہی ہوں گی جن پر نوجوانوں کے اقوالِ زرّیں درج ہوتے ہیں، یہ اقوال چونکہ نوجوانوں کے ہوتے ہیں لہٰذا اقوال کم اور زرّیں زیادہ ہوتے ہیں ۔ ان ٹی شرٹس کو پہنتے بھی نوجوان ہی ہیں اور وہ اُن پرہی جچتی ہیں۔ یعنی آج کے نوجوانوں کو اظہارِ ذات کے لئے بلاگ لکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اظہارِ ذات کا یہ نسخہ آپ کے لئے بھی ضرور کام کرے گا بس خود کو نوجوان سمجھنا ہوگا اورایسا نہ سمجھنے والوں کو حاسد۔

ان ٹی شرٹس پرآپ کو اس قدر متنوع موضوعات کی تحریریں مل جائیں گی کہ بس ذرا سی کوشش سے آپ کو بھی اپنی مطلوبہ شرٹ مل جائے گی جو آپ کی جگہ کلام کرے گی۔شاید آپ سوچیں کہ یہ ٹی شرٹ کیسی ہونی چاہیے تو بس اتنا سمجھ لیجے کہ شرٹ کیسی بھی ہو بس اُس پر ایک عجیب و غریب قسم کا جملہ درج ہونا چاہیے ۔ انداز کچھ جارحانہ ہو اور تھوڑی سی بے باکی۔ ٹی شرٹ پسند کرتے ہوئے اپنے بزرگوں سمیت اُن سب لوگوں کو بالکل یاد نہ کریں جو ہمہ وقت نصیحتوں میں مشغول رہتے ہیں اور جنہیں ہر دوسری بات بے ہودہ لگتی ہے اور پہلی واہیات۔

بس ، اب تو آپ کو امجد اسلام امجد بھی نہیں کہ سکیں گے کہ " کرو جو بات کرنی ہے۔ اگر اس آس پہ بیٹھے کہ دنیا بس تمھیں سننے کی خاطرگوش بر آواز ہوکر بیٹھ جائے گی تو ایسا ہو نہیں سکتا" سو اب اگر ایسا نہیں ہوگاتو پھر ویسابھی نہیں ہوگا بلکہ اب تو آپ اجنبیوں سے بھی کلام کریں گے عین ممکن ہے کہ وہ آپ کا نوشتۂ قمیص پڑھ کر تلملا جائیں لیکن جواباً کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ یعنی وہ جو آپ اپنے بلاگ کے قاریوں اور تبصرہ نگارو ں کو صفائیاں پیش کر کر کے عاجز ہوجاتے ہیں اُس سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔

بزرگوں سے درخواست ہے کہ ان ٹی شرٹس پر درج اقوالِ زرّیں سے نوجوانوں کی شخصیت کا اندازہ لگانے کی غلطی ہرگز نہ کریں کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو آدھے سے زیادہ نوجوانوں کو اوباش اور آوارہ قرار پانے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ آدھے سے زیادہ نوجوانوں کو نہ تو اس بات کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی اس بات سےکوئی سروکارکہ اُن کی شرٹ پرجو کچھ لکھا ہے اس کا کیا مطلب نکلتا ہے اور مزید کیا کیا مطالب نکالے جا سکتے ہیں۔

بہر کیف ٹی شرٹ کہانی کو مختصر کرتے ہوئے آپ کو بتانا یہ ہے کہ خاکسار نے بھی خاص الخاص اردو بلاگرز کے لئے اُن کے رجحانات اور میلانات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کچھ ٹی شرٹس ڈیزائین کی ہیں۔یعنی وہ تمام باتیں جو آپ اکثر کہتے ہیں اور وہ بھی جو "خیال و خاطرِ احباب"کی رٹ لگانے والوں کی وجہ سے یا پھر " خوفِ فساد خلق" کے باعث نا گفتہ رہ جاتیں ہیں اب نہیں رہیں گی۔ یعنی :

جو حق کی بات تھی وہ ہم نے برملا کہہ دی
خیال و خاطر احباب کب تلک کرتے؟

تو پھر آئیے شرٹس دیکھتے ہیں:


گو امریکہ







آزادی اظہار






کراچی








جلوہ






دینِ ملا








دیا جلائے رکھنا ہے






بات






ناصح








پاکستان



بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے








میں نہیں مانتا



اور یہ آخری ٹی شرٹ کمپلیمینٹری سب بلاگرز کے لئے


میرا اعتبار کیجے



آپ چاہیں تو آپ بھی اپنی ٹی شرٹ کے لئے اقوالِ زرّیں تجویز کر سکتے ہیں۔







یہ تحریر اور تصاویر صرف ازراہِ تفنن پیش کی جارہی ہیں اور کسی کی دل آزاری ہرگز مقصود نہیں ہے۔