نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا



غزل


نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا


مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
و ہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا


کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا


اُدھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا


جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا


فیض احمد فیض

Not all SMS are "Waste of Time"

I asked myself how to handle life’s affairs?


My room gave me perfect answer:


Roof said: Aim high
Fan: Be Cool
Clock: Value time
Calendar: Be up to date
Wallet: Save now for future
Mirror: Observe yourself
Wall: Share other’s load
Window: Expand the vision
Floor: Always be down-to-earth.


Thanks to Mr. Khurram, Ahsan Library

تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر نہیں ہے؟ وزارتِ صحت؟

گذشتہ شام ہم ایک دوست کے ساتھ بیٹھے ‘انڈائریکٹ اسموکنگ’ کر رہے تھے کہ باتوں کے درمیان ہم سگریٹ کی ڈبیہ اُٹھا کے اُس کا (سگریٹ کی ڈبیہ کا )ازسرِ نو جائزہ لینے لگے ۔ بڑی عجیب سی (شاید بُری لکھنا چاہیے تھا )عادت ہو چلی ہے کہ جب تک کسی چیز کا چاروں اور سے اچھی طرح جائزہ نہیں لے لیتے ہمیں چین ہی نہیں آتا۔ خیر ڈبیہ کی پُشت پر باریک حروف میں اردو میں لکھا تھا ‘تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے’ ۔ لیکن نہیں! اُس پر ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ شاید ہم وہاں یہ عبارت دیکھنا چاہ رہے تھے جو ہمیں وہاں نہیں ملی۔ ہمارے ایک دوست نے کہا تھا کہ ‘ہم وہی دیکھتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں’ شاید میر صاحب نے بھی یہی سوچ کر کہا ہوگا کہ

؂ یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

لیکن ہمارا تجربہ تو ہمیشہ اس کے برعکس ہی رہا ۔پھر بھی جتنے منہ کم از کم اُتنی باتیں تو ہونی ہی چاہیے سو ‘ دُنیا کب چپ رہتی ہے کہنے دو جو کہتی ہے ’۔

بہر حال سگریٹ کی ڈبیہ پر موجود عبارت کچھ یوں تھی۔



















یہ پڑھ کر تو فوراً دل یہی چاہا کہ کاش ہم بھی بچے ہوتے اور اس ‘پروٹیکشن زون’ میں ہی کہیں پائے جاتے ۔

بہر کیف ہم نے اس کا مطلب یہی لیا کہ یا تو شاید‘ اب تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر نہیں ہے’

یا آپڑی یہ شرم کے تکرار کیا کریں

(‘یاں’ کا نون غنہ ہم نے از خود حذف کردیا ہے اسے ٹائپو نہ سمجھا جائے)


وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

غزل

شکستہ پر ، شکستہ جان و تن ہوں
مگر پرواز میں اپنی مگن ہوں

خود اپنی دھوپ میں جلتا رہا ہوں
خود اپنی ذات پر سایہ فگن ہوں

میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں
وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

وہ کب کا منزلوں کا ہو چکا ہے
میں جس کا منتظر ہوں خیمہ زن ہوں

بلا کی دھوپ نے چٹخا دیا ہے
میں جیسے کچی مٹی کا بدن ہوں

ستمگر ہو کہ بھی شکوہ کناں وہ
یہ میں ہوں کہ جبینِ بے شکن ہوں

یہ میں کیا ہو گیا ہوں تجھ سے مل کر
کہ خوشبو ہوں، ستارہ ہوں، پون ہوں

جنوں کی اک گرہ مجھ پر کھلی ہے
تو سرشاری کے خط پر گامزن ہوں

رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے
وطن میں ہو کے احمد بے وطن ہوں

محمد احمدؔ

اُسے فرصت نہیں ملتی ۔ برائے ہفتہ بلاگستان یومِ مزاح

ایسا مہینے میں ایک آدھ بار تو ضرور ہی ہوتا ہے کہ ہمیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اُن کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا ہے پھر بھی موصوف ہماری اس سعادت مندی کو ہرگز خاطر میں نہیں لاتے بلکہ خاطر میں لانا تو ایک طرف جناب تو ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ اس سے پہلے کے آپ کے ذہن میں ہمارے اور اُن کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے سر اُٹھائیں ہم آپ کو بتا ہی دیں کہ آج ہم اپنے زلف تراش کا رونا رو رہے ہیں۔ زلف تراش کی ترکیب شاید آپ کو اچھی نہ لگے یا پھر آپ کو اس میں تصنّعُ کا پہلو نظر آئے۔ لیکن کیا کیجے کہ اس مقام پر ہم بھی بے حد مجبور ہیں کہ یا تو ’ ہئیر ڈریسر ‘ لکھ کرزبانِ غیر میں شرح ِ آرزو کے مجرم ٹھہریں یا ’حجام‘ جیسا کریہہ لفظ استعمال کرکے اپنے ہی ہاتھوں ، مطلب اُن کے ہاتھوں اپنی حجامت کا بندوبست کریں۔ گو کہ ہم یہاں اسی واسطے آتے ہیں لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کس قسم کی حجامت کے ذکر ِ شر سے خوفزدہ ہیں۔

یہاں آپ کو شاید اتنی ہی اہمیت ملے جتنی زرداری صاحب کو چائنہ میں ملی، یا شاید اس سے تھوڑی سی زیادہ مل جائے ، لیکن اس سے زیادہ کی توقع مت رکھیے گا کہ نام تو موصوف کا ’ویلہ ہیئر ڈریسر‘ ہے لیکن مجال ہے جو کبھی آپ کو ویلے(فارغ) نظر آئیں۔ آپ جب بھی پہنچیں کوئی نہ کوئی اُن کے زیرِ عتاب نظر آئے گا ۔ اول تو آپ اُنہیں نظر ہی نہیں آئیں گے لیکن اگر انہوں نے آپ کو دیکھ لیا تو پھر آپ کی خیر نہیں فوراً اُسترا ہاتھ میں لئے بیٹھنے کا اشارہ کریں گے ۔ اُن کے جان لیوا تیور اور اُسترے کی چمک دمک دیکھ کر آپ چاہیں بھی تو یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو کب تک اُن کے تختہٗ مشق تک رسائی ہوسکے گی ۔ چار و نا چار انتظار گاہ یعنی سہ افرادی نشست پر براجمان ہونے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ، بشرط کہ وہاں آپ کے لئے جگہ بھی ہو۔

کہتے ہیں زبان بند رہے تو دماغ اچھی طرح کام کرتا ہے ، یہاں آپ کو بھی اسی کلیہ کا استعمال کرنا ہوگا۔ پہلے سے موجود انتظار کنندگان کی تعداد اور اُن کے تاثُرات سے آپ بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ آپ کو کب تک انتظار کی راہ دیکھنی ہوگی۔ لیکن بے فکر رہیے انتظار کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو یہاں آپ بیزار ہرگز نہیں ہوں گے۔ چائے کا کپ مکھیوں سمیت اُٹھا کے اُس کے نیچے سے آج کا تازہ اخبار نکال لیجیے ۔ ارے رے رے ! ذرا دھیان سے ۔کہیں چائے کی باقیات آپ کو بھی ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں ‘ کا راگ الاپنے پر مجبور نہ کردے۔ بس یوں کیجیے ، اخبار کو اس کے دائیں بائیں کونوں سے تھامیئے اور چائے کو کششِ ثقل کے حوالے کردیجیے۔ لیجیے جناب اب آپ آرام سے بیٹھ کر اپنا فشارِ خون اپنی خودی سے بھی بلند کرسکتے ہیں۔بس پڑھتے جائیں ، کوئی بات نہیں اگر آپ کی تیوریاں چڑھ جائیں یا کانوں سےدھواں نکلنا شروع ہو جائے۔ کوئی بات نہیں! جو دل میں آرہا ہے کہہ دیجیے ، پر دل میں ہی کہئے گا کہ آپ کے اخلاق کو آپ سے بہتر کوئی اور نہ سمجھ سکے۔

اگر آپ پہلے سے بلند فشارِ خون جیسے مرض میں مبتلا ہیں تو پھرتا زہ اخبار آپ کے لئے ہرگز موزوں نہیں ۔ فکر نہ کیجیے، یہ لیجے ’اخبارِ جہاں‘ پڑھیئے، بالکل نیا ہے ابھی دو سال پہلے ہی ردی والے سے خریدا گیا ہے۔ کیا! بیچ کا صفحہ غائب ہے، ارے نہیں ! ایسا نہیں ہے، بس ذرا سامنے دیکھیے ۔ جی آئینہ کے اُوپر ! جی بالکل! دوکان میں آتے ہی آپ بیچ کے صفحے کی زیارت بلکہ تفصیلی معائنہ کر چکے ہیں ۔ کوئی بات نہیں اس میں اور بھی بہت کچھ ہے ’تین عورتیں،تین۔۔۔۔‘ اچھا اچھا! آپ ’کٹ پیس‘ تک پہنچ گئے ہیں۔ اچھا ہے ، ’کٹ پیس‘ اپنے گرد وپیش سے بےخبر رہنے کے لئے اچھی چیز ہے۔ لیکن بہت زیادہ بے خبر بھی مت رہیے ۔ کم از کم اتنا ضرور یاد رکھیے گا کہ آپ کے بعد کون کون آیا ہے ورنہ اقربا پروری تو کہیں بھی راہ نکال لیتی ہے۔

’ویلہ ہئیر ڈریسر ‘ کی انتظار گاہ صرف دار المطالعہ ہی نہیں درس گاہ بھی ہے ۔ وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ ’سیانوں کے ساتھ ایک گھنٹے کی ملاقات دس مہینے کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے‘۔یہاں بھی آپ کو ایسی ایسی گفتگو سُننے کو ملے گی کہ آپ دس مہینے تو کیا دس سال بھی کتابیں پڑھتے رہیں تو وہ سب کچھ نہیں سیکھ سکیں گے۔ لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہ سب کچھ آپ سیکھ تو سکتے ہیں پر کسی کو سکھانے کی کوشش مت کیجیے گا کہ یہ کام سیانوں کا ہے اور وہ اپنا کام خوب جانتے ہیں ۔

اب ذرا سنبھل جائیں کہ آپ کی زلفِ دراز کی دست درازیوں کو لگام دینے کا وقت آگیا ہے۔ یعنی اب جگر تھام کے خود کو اُن کے حوالے کر دیجیے بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ اللہ کے حوالے کردیجیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ زلف تراش کا تیز اور چمکدار اُسترا بھی یہی کچھ کرنا چاہے۔ زلف تراش کسی سے بات کرے یا نہ کرے لیکن اپنے فتراک کے نخچیر (یہاں مراد تختہٗ مشق تک پہنچ جانے والے سورما سے ہے ) سے ضرور ہم کلام رہتا ہے۔ ہم سے بھی مکالمہ رہا اور کچھ یوں رہا۔

"ارے بھائی ! اس دفعہ بال کچھ زیاد ہی نہیں بڑھ گئے آپ کے" پانی کی بوچھار کے ساتھ پوچھا گیا۔
"جی کچھ مصروفیت زیادہ رہی، ویسے پچھلی دفعہ سے آپ کے ریٹس (نرخ) بھی تو بڑھ گئے ہیں" باقی ماندہ جملہ دل میں کہا گیا۔
’دل میں جو بات ہے ، کہہ دو‘ اچانک کسی نے کیسٹ پلئر کھول دیا اور ایسا لگا کہ شاید دل کا چور پکڑا گیا لیکن اگلا مصرع اطمینان بخش رہا کہ زبانِ افرنگ میں تھا اورسمجھ میں آگیا کہ نہیں سمجھ آئے گا۔
ابھی تک قینچی ہوا میں چل رہی ہے ، شاید ہمیں ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے ۔ چمچماتا ہو ا اُستر ا بھی آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہا ہے۔ اور ہم اپنے خطاہوتے ہوئے اوسان کی دھوپ چھاؤں میں آنکھیں پٹپٹارہے ہیں اور اس کار گزاری کی گاڑی کے جلدی سے گزر جانےکی دعامیں لگے ہیں کہ اچانک سامنے نگاہ پڑتی ہے۔
"یہ صاحب کون ہیں جو مجھے احمقوں کی طرح گھور رہے ہیں " ہم نے زلف تراش کو مخاطب کرکے سامنے اشارہ کیا۔
زلف تراش کے چہرے پرپہلے حیرانی اور پھر مسکراہٹ نے ڈیرہ جمالیا تاہم وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ اور ہم آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

حصہ (ایک سادہ سی نظم ) ۔ برائے یومِ تعلیم ۔ ہفتہ بلاگستان

اظہارِ تاسف کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں اوراکثر ہمیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا لمحاتی اظہارِ رنج کسی کی محرومی پر ہے یا اپنی نا اہلی پر۔ یہاں کہیں کہیں امید کے موہوم ستارے موجود ہوتے ہیں جنہیں اپنائیت کا عدسہ لگائے بغیر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ جو بات کسی کے لئے نا ممکنات میں سے ہو ہمارے ذرائع اور وسائل کے لحاظ سے انتہائی معمولی ہو۔

اگر ہمارے ارد گرد پھیلے مناظرِ فطرت اور زندگی کی رنگا رنگی میں ہمارا بھرپور حصہ ہے تو پھر حسن و زندگی کے عدم توازن پر تشویش بھی ہمارا فرض ہے۔ اور یوں بھی خوابوں کے عکس میں تعبیروں کے رنگ بھرنے سے جو سرخوشی اور سرشاری نصیب ہوتی ہے وہ اور کسی طرح ممکن ہی نہیں۔ خواب ہمارے ہوں یا کسی اور کے خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔
جاگتی آنکھوں کے کچے رنگوں سے گندھے ایک خواب کی کہانی (ایک سادہ سی نظم )پیشِ خدمت ہے ۔گر قبول افتد زہے عزّو شرف۔۔۔


کوئلے سے دیواریں کالی کرتا ہے
اس بچے کے پاس قلم نہ بستہ ہے

ایک کتاب چُرا لایا ہے آج بھی وہ
آج بھی سب سے چھپ کر اُس کو تکتا ہے

اُجلے پیراہن میں ہنستے بچوں کو
روز مدرسے جا کر دیکھا کرتا ہے

کیا میں بھی اک روز مدرسے جاؤں گا
روز سویرے اُٹھ کر سوچا کرتا ہے

آنکھوں میں قندیلیں جلتی رہتی ہیں
چہرے پر اک سایہ لرزاں رہتا ہے

جس قطرے کو ہوا اُڑائے پھرتی ہے
سیپ میں ہو تو موتی بھی ہو سکتا ہے

کوئلے سے لکھی تحریریں پوچھتی ہیں
اس بچے سے کس کا کیا کیا رشتہ ہے

مانا اپنے خوابوں میں وہ تنہا ہے
تعبیروں میں تو ہم سب کا حصّہ ہے

محمد احمدؔ



۔ یہ نظم اس سے پیشتر جنوری 2008 میں محفلِ سُخن میں بھی پیش کی جاچکی ہے
۔ لفظ "مدرسہ" کو غلط العام تلفظ پر باندھنے پر اہلِ فن سےمعذرت۔

ہمدرد ۔ ایک درد مند دل کا فسانہ

ہمدرد ۔ ایک درد مند دل کا فسانہ

یہ محض اتفاق ہی تھا کہ بس میں رش نہیں تھا ورنہ کراچی جیسے شہر میں اگر بس کے پائیدان پر بھی آپ کو جگہ مل جائے تواسے بڑی خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ شاید دوپہر کے ساڑھے تین سے چار بجے کا وقت ہوگا عموماً اس وقت تک ٹریفک کا زیادہ بہاؤ رہائشی علاقوں سے تجارتی مراکز کی جانب ہوتا ہے اور شام میں یہ صورتِ حال بالکل برعکس ہوتی ہے غالباً یہی وجہ تھی کہ مجھے بس میں با آسانی نشست مل گئی تھی۔ دراصل آج شام کو ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی جس کے لئے کچھ تیاری میری لاپرواہی کے نتیجے میں آخری دن تک چلی آئی تھی اسی لئے آج میں خلافِ معمول جلد ہی دفتر سے نکل آیا تھا ۔ اگر تقریب میں شرکت ضروری نہ ہوتی تو شاید یہی بات میرے لئے تقریب سے کنارہ کشی کا ایک اچھا بہانہ بھی بن سکتی تھی لیکن کیا کیا جائے کہ کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں نبھانا ہی پڑتا ہے۔

بس سست رفتاری سے چل رہی تھی اورلوگ ذرا ذرا سے فاصلے پر بس میں سے چڑھ اور اُتر رہے تھے۔ بس میں دو رویہ نشستوں کا انتظام تھا۔ بیچ میں راہداری تھی جو رش کے اوقات میں مسافروں کے کھڑے ہونے کے کام آتی تھی۔ میں اپنے خیالات اور راستے کے مناظر کے مابین کہیں گم تھا کہ میری نشست کے متوازی نشست کے دونوں مُسافر ایک ساتھ اُتر گئے خیال آیا کہ کیوں نہ اس نشست پر پہنچ جاؤں،اِن بسوں کی اکثر نشستیں تکلیف دہ ہی ہوا کرتی ہیں اسی خیال سے مسافر خالی ہونے والی نشستو ں پر منتقل ہوتے رہتے ہیں کہ شاید اگلی نشست کچھ آرام دہ یا بہتر ہو۔ عموماً یہ بات تھکے ماندے مُسافروں کی خام خیالی ہی ہوتی ہے لیکن کیا کیا جائےکہ اُمیدوں کا سہارا نہ ہو تو سفر اور بھی دشوار ہو جاتا ہے، بہرکیف اس دفعہ بھی میں نے سوچنے میں بہت دیر لگا دی اور پچھلی نشست سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص ا س نشست پر آکر براجمان ہوگیا اُس کے ساتھ ایک دس بارہ سالہ لڑکا بھی تھا یہ اتفاق ہی تھا کہ ادھیڑ عمر شخص جو شاید لڑکے کا باپ تھا کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا اور لڑکے نے بغیرکسی احتجاج کے کھڑکی کی دوسری طرف والی نشست سنبھال لی تھی ورنہ اکثر اوقات بچے کھڑی کے ساتھ بیٹھنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہیں۔

میں بے خیالی میں لڑکے کا جائزہ لینے لگا ۔ وہ ملگجے سے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھا جو کثرتِ استمال کے باعث اپنی اصلی رنگت اور پہچان کھو چکے تھے اوراپنی خستہ حالی کی زبانی غربت اور افلاس کی کی کہانی سنا رہے تھے۔ مجھے نہ جانے کیوں وہ بے حد بہت ملول اور اُداس نظر آیا، آنکھوں میں زردیاں سمیٹے وہ اپنے دھیان میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا، پھر میری نظر اُس کے ہاتھ پر پڑی اس کے ہاتھ میں ایک پلاسٹک کی شفاف تھیلی تھی جس میں سُرخ رنگ کا محلول نظر آرہا تھا ۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ لڑکا بیمار تھا اور کسی سرکاری ڈسپنسری سے دوا کے نام پر سُرخ رنگ کا مکسچر لے کر آیا تھااُس کی آنکھوں کی گرد پڑے گہرے حلقےاس بات کی تصدیق کررہے تھے۔

مجھے وہ زمانہ یاد آیا جب اسی قسم کی دوا کے حصول کے لئے لوگ گھر وں سے استعمال شدہ بوتلیں لے کر جاتے تھے اوراُن میں سرکاری دوا خانوں سے اسی قسم کا سُرخ مکسچر لے آتے تھے پھر پلاسٹک کی تھیلیوں نے گھر سے بوتل لے جانے کا ٹنٹا تو ختم کردیالیکن سرخ رنگ کا یہ مکسچر کسی نہ کسی شکل میں اب تک سرکاری اور نچلے درجے کے ہسپتالوں کی روایت کا حصہ ہے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ اُس زمانے میں صرف یہ سُرخ دوا ہی مریض کو صحتیابی کا راستہ دکھا دیتی تھی لیکن اب اس کی افادیت برائے نام ہی رہ گئی ہے بیشتر لوگ تو اسے پینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ پھربھی غریب طبقہ جسے مہنگی دوائیں خریدنے کی توفیق میسّر نہیں اب تک اسی قسم کی دوا ؤںمیں ہی شفا کےوسیلے تلاشا کرتا ہے۔

اُس بچے کی آنکھوں کی گہری اُداسی نہ جانے کیوں مجھے بہت اُداس کئے دے رہی تھی اور مجھےرہ رہ کر ملک کے اربابِ اختیار پر غصہ آرہا تھا کہ جن کی مفاد پرستی اور حوس نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کردی تھیں ، "یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے اور امیر ! امیر اپنے پیسے کے بل بوتے پر جو چاہے کرتا رہے" کرب کی ایک لہر میرے اندر تک سرایت کرگئی۔

"یہ ملک صرف دولت مند طبقے کے لئے ہے اور غریب آدمی یہاں سسک سسک کے مرنے کے لئے ہے ، پیسہ ہو تو ایک سے ایک معالج اور اعلٰی سے اعلیٰ علاج میسّر ہے پیسہ نہ ہو تو کوئی آپ کو پوچھنے والا تک نہیں،غریب جیے یا مرے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں" سوچ سوچ کر میرا دل جل رہا تھا۔

پھر مجھے سرکاری ہسپتالوں کا حال یاد آیا جہاں اچھی دوائیں تو ڈسپنسری میں آنے سے پہلے ہی بک جایا کرتی ہیں اور جعلی دواؤں سے غریبوں کو بہلا دیا جاتا، شاید یہی وجہ تھی کہ لوگ سرکاری ہسپتالوں میں جانے سے کتراتے ہیں اورانجانے میں معمولی امراض کو دائمی بنا لیتے ہیں۔ لیکن حکومتی اداروں اور اُن پر قابض لالچی بھیڑیوں کو اگر کسی بات سے دلچسپی ہے تو وہ صرف اُن کی اپنی ذات اور ذاتی مفاد ہے اُنہیں کسی اور بات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ پھر ایسے میں عام آدمی سوائے کُڑھنے کے اور کربھی کیا سکتا ہے، مجھے اپنی بے بسی کااحساس ہونےلگا۔

بس آدھے سےزیادہ سفر طے کرچکی تھی کہ اچانک ڈرایئور نے بس کو سڑک کے ایک طرف روک دیا، میں اپنے خیالات سے چونکا تو پتہ چلا کہ بس کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا ہے اور ڈرایئور اُسےاس جگہ جو نسبتاً کم رونق والی تھی تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ مُسافر ڈرائیور کو بُرا بھلا کہتے ہوئے بس سے اُتر رہے تھے ، میں بھی نیچے اُتر آیا اور لبِ سڑک ایستادہ پان کی کیبن سے پان بنوانے لگااور ساتھ ساتھ ٹائر کی تبدیلی کا منظر بھی دیکھ رہا تھا۔ اچانک میری نظر اُس بچے اور اُس کے باپ پر پڑی جو شاید کمر سیدھی کرنے کے لئے بس سے اُتر آئے تھے۔ پان منہ میں رکھ کر میں پھر سے بچے کی جانب دیکھنے لگا، سُرخ رنگ کا محلول اب بھی اُس کے ہاتھ میں تھا ، یکایک اُس نے اپنا دوسرا ہاتھ اپنی جیب میں ڈالا اور جیب سے ایک چمچہ نما تار نکالا۔ تار کے ایک سرے پر گھیرے دار اسپرنگ سے چمچہ نما حلقہ بنا ہوا تھا، اس دوران وہ سُرخ دوا کی تھیلی کھول چکا تھااب اُس نے چمچہ نما تار دوا کی تھیلی میں ڈالا اور پھر اُسے اپنے منہ کی طرف لا کر ہلکی سی پھونک ماری۔ فضا میں چاروں طرف بہت ہی خوش نما بُلبُلے رقص کررہے تھے۔ اور بچے کی آنکھوں میں قوس وقزح کے رنگ بکھرے ہوئے تھے اور اُس زردی کا وجود کہیں بھی نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے میری توجہ کی مرکز تھی۔ بچے کی خوشی دیدنی تھی ۔ایک بہت ہی حسین مُسکراہٹ میرے لبو ں پر بھی مچل رہی تھی اور میں بہت خوش دلی سے بچے کی طر ف دیکھ رہا تھا۔ اورہاں ابھی تو مجھےخود پر بھی بہت دیر ہنسنا تھا۔

یہ تحریر دسمبر 2008 میں اردو محفل میں بھی شائع ہوچکی ہے