غزل ۔ یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

غزل

مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا

مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خطا ہوا

مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا

جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا

ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا

مرے ایک گوشۂ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا

مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا


مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا

ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا

اقبال عظیم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں