کہنے کو تو گلشن میں ہیں رنگ رنگیلے پھول

غزل

کہنے کو تو گلشن میں ہیں رنگ رنگیلے پھول
روشن آنکھیں عنقا ہوں تو سارے رنگ فضول

خوشیاں اپنی الم غلم، غم بھی اول جلول
شکر کہ پھر بھی دامن میں ہیں کچھ کانٹے کچھ پھول

دل میں کچھ اور منہ پر کچھ تو سب باتیں بے کار
ہو ناپید اخلاص کی خوشبو تو سب پھو ل ببول

کیا تم کو معلوم ہے تم نے کیوں کر مجھ کو مارا
آج کہیں یہ پوچھ رہا تھا قاتل سے مقتول

یارو! اس سے اخذ کروں میں آخر کیا مفہوم
اُس نے خط کے ساتھ پرویا اک کانٹا، ایک پھول

پوچھو تو یہ لوگ کوئی بھی کام نہیں ہیں کرتے
دیکھنے میں جو لگتے ہیں ہر دم، ہر پل مشغول

سُندر لب جب پیار سے زرّیں لاکٹ چومتے ہیں
مہر و وفا کے جذبے کتنے لگتے ہیں مجہول

کاش ہمیں بھی آوارہ گردی کی مہلت ملتی
قریہ قریہ خاک اُڑاتے بستی بستی دھول

اس نے کسی سے کہا نہیں وہ شعر بھی کہتا ہے
اِسی لئے تو لوگ سمجھتے ہیں اُس کو معقول

تم کو احمدؔ شعر و سخن کی کیسے چاٹ لگی
شہر میں تو کچھ اور بھی ہوں گے تنہا اور ملول

محمد احمدؔ


2 تبصرے:

  1. واہ واہ ! بہت خوبصورت!!!! کیا بات ہے احمد بھائی!

    کہنے کو تو گلشن میں ہیں رنگ رنگیلے پھول
    روشن آنکھیں عنقا ہوں تو سارے رنگ فضول

    کیا خوبصورت شعر ہے !!!! سلامت رہیں ۔

    ۔ ظہیراحمد

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ ظہیر بھائی!

    آپ سے داد وصول ہو جائے تو میرے پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔ :) :) :)

    جواب دیںحذف کریں