غزل ۔ مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مِرا دل ۔ محمد احمدؔ

خاکسار کی ایک پرانی غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

مجھی سے کرتا نہ تھا کوئی مشورہ مِرا دل
سراب و خواب کے صحرا میں جل بجھا مِرا دل

نہ دیکھے طَور طریقے، نہ عادتیں دیکھیں
کسی کی شکل پہ اِک روز مر مِٹا مرا دل

وفا تو خیر ہوئی اس جہان میں عنقا
جو وہ ملے تو یہ پُوچھوں کہ کیا ہوا مرا دل؟

مآلِ دیدہ وری پُوچھتے ہو، دیکھ لو خود
بُجھی ہوئی مِری آنکھیں، بُجھا ہوا مرا دل

خلوص، مہر و مروّت بجز خسارہ نہیں
کہ دیکھتا ہی نہیں میرا فائدہ مرا دل

میں صاف دل ہوں، ہر اِک بات صاف کہتا ہوں
میں آئنہ ہوں تو ہے مثلِ آئنہ مرا دل

یہ اس کو دیکھ دھڑکنا ہی بُھول ہی جاتا ہے
غنیمِ جاں ہے،اُسی کا ہے، بے وفا! مرا دل

بچھڑ گئے، تھا بچھڑنا نوشتۂِ قسمت
ہے واقعہ جو بناتا ہے سانحہ مرا دل

نہیں تو کوئی نہیں، کوئی مسئلہ ہی نہیں
ذرا سی بات پہ ٹوٹے گا کون سا مرا دل؟

کسی کی یاد میں کھوئی سی ہیں مری آنکھیں
کسی کا دیکھتا رہتا ہے راستا مرا دل

سنا ہے قلب ہے سب تیری انگلیوں کے بیچ
تو اپنی سمت پلٹ لے مرے خدا مرا دل

میں آ گیا ہوں یہاں پر وہاں نہ جاؤں گا
پر اس کا پوچھ رہا ہے اتا پتا مرا دل

گرا دیا ہے قدر نا شناس ہاتھوں نے
ارے سنبھلنا! ذرا بچنا! دیکھنا! مِرا دل

میں اس گلی سے گزرتا ہوں سر جھکائے ہوئے
بنا ہوا ہے عجب موجۂِ صبا مرا دل

میں احمدؔ اپنی ہی دنیا میں شاد رہتا ہوں
یہ میرے خواب ہیں، یہ میں ہوں، یہ رہا مرا دل!

محمداحمدؔ


5 تبصرے: