دل خون رلائے گا جگر تنگ کرے گا ۔ شعیب تنویر شعیب


ہمارے دیرینہ اور عزیز دوست شعیب تنویر شعیب کی خوبصورت غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

دل خون رلائے گا جگر تنگ کرے گا
مجھ کو تیری چاہت کا سفر تنگ کرے گا

اس راہ محبّت میں قدم سوچ کے رکھنا
اک بوجھ سا بن جائے گا سر تنگ کرے گا

اس درجہ زمانہ ترا ہو جائے گا دشمن
سائے میں جو بیٹھے گا شجر تنگ کرے گا

دل چین نہ پائے گا کہیں تجھ سے بچھڑ کے
میں لاکھ سنبھالوں گا مگر تنگ کرے گا

اس گھر کی ہر اک چیز ستائے گی ترے بعد
دہلیز پہ بیٹھوں گا تو در تنگ کرے گا

مانا کہ ابھی اور ستائے گا یہ رستہ
میں لوٹ کے جاؤں گا تو گھر تنگ کرے کا

محبوب کی چوکھٹ سے اٹھالایا ہوں دل کو
اب لے کے اسے جاؤں کدھر، تنگ کرے گا

اے دل میں ترے ناز اٹھاؤں تو کہاں تک؟
!!!اب مار ہی ڈالوں گا اگر تنگ کرے گا

ہاں اور شعیب آپ کو رونا ہی پڑے گا
ہاں اور ابھی دیدہ تر تنگ کرے گا

شعیب تنویر شعیب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں