جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا

غزل

جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم رکھو، ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم
یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو، ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ، درگرز گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تندخو، ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے، احوالِ دل پہ اے آنکھو!
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا

دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا

مرزا رفیع سودا

1 تبصرہ: