احمد فراز کی سدا بہار غزل

احمد فراز میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ خیر یہ بات تو نہ جانے کتنے لوگ کہتے ہیں ہم نے کہہ دیا تو کیا کہا۔ فراز شاعر ہی ایسے تھے کہ اُنہیں پسند کرنے والے بہت ہیں، خاص طور پر عوام میں سے۔ خواص میں سے کچھ لوگ شاید ایسے ہوں جو احمد فراز سے کچھ خائف نظر آتے ہیں تاہم اُن کے اپنے تحفظات ہیں اور اُن کے کہنے سے احمد فراز کی ہر دلعزیزی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

احمد فراز کی یہ غزل ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہے اور جب بھی پڑھوں اچھی لگتی ہے۔ قارئینِ بلاگ کی نذر:


غزل

کیا ایسے کم سُخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مُستقل سُکوت سے دِل کو لہو کرے

اب تو ہمیں بھی ترک مراسم کا دُکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تری جُستجو کرے

اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے

تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے

احمد فرازؔ



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں