عبید الرحمٰن عبیدؔ کی دو خوبصورت غزلیں
جب خواب ہی ساری جھوٹے ہوں ، اور برگِ تمنّا سوکھے ہوں
جب زرد ہو موسم اندر کا ، کیا پھول کھلائیں چہرے پر
منتخب کلام کے سلسلے میں آج محترم عبید الرحمٰن عبیدؔ صاحب کی دو خوبصورت غزلوں کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
غزل
اک تھکا ماندہ مسافر، وہی صحرا، وہی دھوپ
پھر وہی آبلہ پائی، وہی رستہ، وہی دھوپ
میں وہی رات، بہ عنوانِ سکوں، سازِ خاموش
تو وہی چاند سراپا، ترا لہجہ وہی دھوپ
پھر کتابوں کی جگہ بھوک، مشقت، محنت
پھر وہی ٹاٹ بچھونا، وہی بچہ، وہی دھوپ
میں شجر سایہ فگن سب پہ عدو ہوں کہ سجن
میرا ماضی بھی کڑی دھوپ تھی فردا، وہی دھوپ
پھر کوئی شیریں طلب، سر میں جنوں کا سودا
وہی سنگلاخ چٹانیں، وہی تیشہ، وہی دھوپ
آسماں چھونے کی خواہش پہ ہے طائر نادم
پھر وہی قیدِ مسلسل، وہی پنجرہ، وہی دھوپ
پھر وہی جلتے مکاں، پھر وہی رقصِ بسمل
اور سورج کا عبیدؔ اب بھی تماشا وہی دھوپ
******
غزل
شب گزیدوں پہ عنایت کی نظر مت کیجے
آپ مختار اگر ہیں تو سحر مت کیجے
ایک دوشیزہ تھکن نام تھا جس کا شاید
کہتی ہی رہ گئی مجھ سے کہ سفر مت کیجے
اَجر دیتے ہُوئے چہرے پہ غرورِ احساں
دیکھیے اتنی بھی توہینِ ہُنر مت کیجے
آگ بھڑکے تو نہیں دیکھتی، گھر کس کا ہے
مانیے میری تو یہ شوقِ شرر مت کیجے
نامناسب ہیں یہ پہرے بھی فصیلِ جاں پر
شاید آجائے کوئی، بند یہ در مت کیجے
میں نے مانا کہ ہے نفرت ہی بدل نفرت کا
آپ کرسکتے ہیں نفرت بھی مگر، مت کیجے
عبید الرحمٰن عبیدؔ
عبید الرحمٰن عبیدؔ بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بہت ہی عزیز بھائی بھی ہیں اور میرے شفیق اُستاد بھی ۔ اگر آج میں کچھ ٹوٹے پھوٹے شعر نظم کر لیتا ہوں تو اس کے پیچھے اُنہی کا ہاتھ ہے۔ سچ پوچھیے تو شاعری کی الف ب سے واقفیت مجھے عبید بھائی نے ہی کروائی اور فن ِ شاعری کے رموز اورباریکیوں کو سمجھنے میری ہر ممکن رہنمائی کی۔
شاعری کے علاوہ خاکسار ایک عرصے اُن کے ساتھ مقیم رہا اور اس دوران اُن سے جو شفقت اور محبت میسر آئی وہ میری زندگی میں کسی نعمت سے کم نہیں ہے اور اگر میں چاہوں بھی تو اُن کی محبتوں کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔
عبید الرحمٰن عبیدؔ کا شعری مجموعہ "جب زرد ہو موسم اندر کا" کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس میں موصوف کی شاعری اور مصوری کے کمالات جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کتاب کا عنوان اس شعر سے اخذ کیا گیا ہے:
جب زرد ہو موسم اندر کا ، کیا پھول کھلائیں چہرے پر
منتخب کلام کے سلسلے میں آج محترم عبید الرحمٰن عبیدؔ صاحب کی دو خوبصورت غزلوں کے ساتھ حاضر ہوا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
اک تھکا ماندہ مسافر، وہی صحرا، وہی دھوپ
پھر وہی آبلہ پائی، وہی رستہ، وہی دھوپ
میں وہی رات، بہ عنوانِ سکوں، سازِ خاموش
تو وہی چاند سراپا، ترا لہجہ وہی دھوپ
پھر کتابوں کی جگہ بھوک، مشقت، محنت
پھر وہی ٹاٹ بچھونا، وہی بچہ، وہی دھوپ
میں شجر سایہ فگن سب پہ عدو ہوں کہ سجن
میرا ماضی بھی کڑی دھوپ تھی فردا، وہی دھوپ
پھر کوئی شیریں طلب، سر میں جنوں کا سودا
وہی سنگلاخ چٹانیں، وہی تیشہ، وہی دھوپ
آسماں چھونے کی خواہش پہ ہے طائر نادم
پھر وہی قیدِ مسلسل، وہی پنجرہ، وہی دھوپ
پھر وہی جلتے مکاں، پھر وہی رقصِ بسمل
اور سورج کا عبیدؔ اب بھی تماشا وہی دھوپ
******
شب گزیدوں پہ عنایت کی نظر مت کیجے
آپ مختار اگر ہیں تو سحر مت کیجے
ایک دوشیزہ تھکن نام تھا جس کا شاید
کہتی ہی رہ گئی مجھ سے کہ سفر مت کیجے
اَجر دیتے ہُوئے چہرے پہ غرورِ احساں
دیکھیے اتنی بھی توہینِ ہُنر مت کیجے
آگ بھڑکے تو نہیں دیکھتی، گھر کس کا ہے
مانیے میری تو یہ شوقِ شرر مت کیجے
نامناسب ہیں یہ پہرے بھی فصیلِ جاں پر
شاید آجائے کوئی، بند یہ در مت کیجے
میں نے مانا کہ ہے نفرت ہی بدل نفرت کا
آپ کرسکتے ہیں نفرت بھی مگر، مت کیجے
عبید الرحمٰن عبیدؔ